سلطان محمود غزنویؒ کے محبوب وزیر ایازؒ جو اس کی فوج کا سپہ سالار تھا‘اس نے اپنے پُرانے کپڑے اور جُوتے ایک کمرے میں رکھے ہوئے تھے، وہ روزانہ اس کمرے میں جاتا اور اپنے پُرانے کپڑوں اور جُوتوں کو دیکھ کر کہتا ’’اے ایاز‘‘’’قدر خودبشناس‘‘یعنی اے ایاز! اپنی قدر پہچان، بادشاہ کی خدمت میں آنے سے پہلے تیری یہ اوقات تھی۔ توپیوند لگے ہوئے یہ کپڑے اور جُوتے پہنتا تھا،خیال کرنا اپنے موجودہ مرتبے پر نازاں ہو کر اپنی حقیقت کو نہ بُھول جانا۔
دوسرے امراء اور وزراء اس سے حسد کرتے تھے، انہوں نے سلطان محمود غزنویؒ کے دل میں شبہ ڈالنے کی کوشش کی کہ ایازؒ ہو سکتا ہے شاہی خزانے سے بیش بہا جواہر چُرا چُرا کر اس میں رکھتا ہو، اس کے کمرے کی تلاشی لی جائے۔ اس کی وفاداری کا بھرم کھل جائے گا۔ بادشاہ ایاز کی وفاداری اور پاکبازی پر پورا یقین رکھتا تھا۔ مگر بادشاہ نے حکمت کے تحت حکم دے دیا کہ اس کمرے کے قفل کھولے جائیں ۔ بادشاہ کا حکم پاتے ہی حاسدین نے قفل توڑ ڈالا اور یوں اندر داخل ہوئےجیسے چھاچھ سے بھرے ہوئے گہرے برتن میں مکھی مچھر گُھس جاتے ہیں۔ انہوں نے کوٹھڑی کا گوشہ گوشہ چپہ چپہ چھان مارا سوائے بوسیدہ کپڑوں اور جوتوں کے کچھ نہ ملا۔ آپس میں کہنے لگے ایاز بہت چالاک ہے ضرور اس نے زروجواہر دفن کر رکھے ہوں گے۔ انہوں نے کدالیں اور پھاوڑے لے کر سارے کمرے کا فرش کھود ڈالا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا پھر جھنجھلا کر کوٹھڑی کی دیواریں توڑنے لگے شاید وہ خزانہ اینٹوں کے اندر چھپا ہوا ہو۔ ہر اینٹ سے لاحول کی آواز آنے لگی۔ آخر ندامت اور پشیمانی کا پسینہ ان کی پیشانیوں سے بہہ بہہ کر چہرے پر آنے لگا۔ اس بے ہودہ کارروائی کے بعد انہیں یہ خوف دامن گیر ہوا کہ بادشاہ کو کیا جواب دیں گے۔ آخرکار مایوس ہو کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے پوچھا ’’تم نے یہ کیا حال بنا رکھا ہے اور وہ مال و دولت کہاں ہے جو تم ایاز کے کمرے سے لُوٹ کر لائے ہو‘ بادشاہ کے ان کلمات کی تاب نہ لا کر سب کے سب حاسد بادشاہ کے قدموں میں گر پڑے۔ سلطان نے ارشاد فرمایا ‘یہ معاملہ ایازؒ کی صوابدید پر ہے کیونکہ تم اس کی آبرو سے کھیلے ہو، گہرے گھائو اسی نیک دل کی روح پر لگے ہیں‘‘۔ سلطان ؒنے ایازؒ کو طلب کر کے فرمایا ’’اے نیک بخت! تُو اس امتحان میں سرخرو نکلا، یہ تیرے مجرم ہیں‘ تجھے پورا اختیار ہے، انہیں جو چاہے سزا دے‘‘۔
ایاز عرض کرنے لگا ’’اے بادشاہ! حکمرانی آپ کو ہی زیبا ہے جب آفتاب اپنا رُخِ روشن دِکھاتا ہے تب ستارے نابود ہو جاتے ہیں‘‘۔ سلطان ؒایاز سے کہنے لگا ’’یہ تو بتائو تم ہر روز اس کمرے میں اکیلے داخل ہو کر کیا کرتے ہو؟ اس بھید سے ہمیں بھی تو آگاہ کرو، تجھے ان پُرانے کپڑوں اور بوسیدہ جُوتوں سے کیا وابستگی ہے، تم کیوں ان کے سحرِ عشق میں گرفتار ہو، انہیں مخاطب کر کے باتیں کرتے ہو، انہیں کوٹھڑی میں چھپا رکھا ہے، کیا وہ قمیص حضرت یوسف علیہ السلام کا پیراہن ہے؟ اور وہ جُوتے کس عظیم ہستی کے ہیں جنہیں تو چھاتی سے لگاتا ہے، یہ کیا جنوں اور حماقت ہے یہ تو بظاہر لوگوں کو دیکھنے میں نہایت ادنیٰ قسم کی بُت پرستی معلوم ہوتی ہے‘‘
ایاز کی آنکھوں سے موتیوں کی لڑی جاری تھی، عرض کرنے لگا ’’اے شاہ ذی جاہ! میرا موجودہ مرتبہ آپ ہی کے لطف و کرم کا مرہونِ منت ہے ورنہ میں تو حقیقت میں ایک مسکین اور بے نوا آدمی ہوں اور یہی پُرانے کپڑے اور جوتے پہننے کے لائق ہوں‘ یہ میری غریبی کے دنوں کی یادگار ہیں۔ ان کی حفاظت کرنے سے میری غرض یہ ہے کہ اپنے بلند منصب اور شان پر مغرور ہو کر کہیں اپنی حقیقت کو نہ بُھول جائوں۔ اصل میں میں ان کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ اپنی اصلیت کی ذات کی حفاظت کرتا ہوں‘‘۔ایاز کا یہ جواب سن تمام حاسدین کے سر شرم سے جھک گئے اور سلطان نے ایازؒ کو گلے سے لگالیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں