Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

ماسی ریشم اور قدرت کا انوکھا انتقام (ڈاکٹر عبدالغنی فاروق)

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2007ء

(جو لوگ غرور اور تکبر کرتے ہوئے رشتوں کا احترام بھول جاتے ہیں، ایسے ہی ایک خاندان کی کہانی جو نہایت عبرتناک ہے) ماسی ریشم دور کے رشتے میں میری خالہ تھی ۔ا س کی شادی سیالکوٹ کے نواح میں مشہور قصبے کو ٹلی بہرام میں ہوئی تھی۔ یہ بات 1920-30 کی ہے ورنہ اب تو کو ٹلی بہرام سیالکوٹ کا ایک محلہ بن گیا ہے اور شہر اس سے بہت آگے تک پھیل گیا ہے ۔ میں بتا رہا تھا کہ ماسی ریشم کی شادی کو ٹلی بہرام میںہوئی ۔ اُس کا خاوند قریب ہی کے گاﺅ ںگو دھپور میں زمیندار ہ کر تا تھا ۔ ان کی ایک بیٹی ہو ئی اور ماسی کا خاوند وفات پاگیا۔ اس طر ح ایک خوبصورت طر ح دار لڑکی کو عین جوانی میں بیوگی کے شدید ترین المیے سے دوچار ہو نا پڑا ۔ماسی ریشم ان پڑھ تھی لیکن بہت تیز طرار اور ذہین تھی اور بہا در بھی ۔ اس کے مر حوم خاوند کے بھائیوں نے بہت کو شش کی کہ وہ ان میں سے کسی سے شادی کر لے یا پھر اس گھر سے نکل جا ئے ، مگر وہ کسی دباﺅ میں نہ آئی۔ اس نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا اور خاوند کے حصے کی زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ بعد میں اس نے کو ٹلی بہرام کی رہائش گاہ ترک کر دی اور گودھپور میں ایک مختصر سامکان بنا کر وہاں منتقل ہو گئی ۔ ماسی ریشم کی بیٹی رشیداں جوان ہو گئی تو اس کی شادی اپنے گا ﺅں ہی میں ایک نوجوان خادم سے ہوگئی ۔ خادم حسین ایک غریب ، بے سہارا نوجوان تھا اور ڈرائیور ی کرتا تھا ۔ ماسی نے اسے اپنے گھر ہی میں ٹھہرا لیا اور اس طر ح دونو ں خوش اور مطمئن ہو گئے ۔ ایک تو گھر کے لئے ایک مر د مل گیا ، دوسرا اس کو بیوی کے ساتھ ایک ماں بھی مل گئی اور چھت کا سایہ بھی ۔ لیکن خادم حسین کی بد نصیبی کہ ما سی ریشم اپنی بعض خوبیو ں کے با وصف بد مزاج اور مغرور عورت تھی ۔ لحا ظ نام کی کوئی چیز اس میں نہ تھی اور اسے احساس تک نہ ہو تا تھا کہ کسی کی عزت نفس کا پا س کیا جاتا ہے ۔ وہ مخاطب کو کھڑے کھڑے تول کر رکھ دیتی اور اس کی توہین و تذلیل میں کو ئی کسر اٹھانہ رکھتی ،چنانچہ اپنی عادت سے مجبو ر ہو کر وہ خادم حسین کو خو ب خوب کچو کے لگا تی اور اسے ذلیل و خوار کر کے شاید اسے تسکین ملا کر تی ۔ خادم حسین ایسے مو قعہ پر فریاد طلب نگاہو ں سے اپنی بیوی رشیداں کی طر ف دیکھا کر تا ، لیکن وہ بے نیازی اور بے تکلفی کا انداز اختیار کر کے خامو ش رہتی ۔ تنہائی کا موقع ملتا تو ساس کے رویے کی شکایت بھی کرتا ، مگر رشیداں کا مزاج بھی بہت کچھ اپنی اماں سے ملتا جلتا تھا، اکلو تی لا ڈلی ہو نے کی وجہ سے غرور اور بے نیا زی کا عنصر اس میں بھی بد درجہ اتم تھا، چنا چہ اپنی ما ں کے خلا ف شوہر کی شکا یت سن کر وہ برا سا منہ بنا لیتی اور خادم حسین شرمندہ ہو کر چپ ہو جاتا ۔ مزید مصیبت یہ تھی کہ خادم حسین کو رشیداں سے تنہائی کے مواقع بہت کم ملتے تھے ۔ پرانی طر ز کا ایک ہی بڑا سا کمرہ تھا جس میں یہ تینو ں افراد رہتے تھے اور ماسی ریشم ایک بے رحم ، بے حس محتسب کی طر ح کڑی نظر وں سے دونوں کی نگرانی کر تی تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود رشیداں بی بی نے ایک بیٹے کو جنم دے دیا اوریہ اپنی نو عیت کا پہلا اور آخری حادثہ ثابت ہو ا۔ یہی وہ حالات تھے جب خادم حسین بے بس اور پریشان ہو کر ادھر ادھر ہا تھ پاﺅ ں مارنے پر مجبو ر ہو گیا ۔ وہ بھی خوبصورت تھا، جوان رعنا تھا اور خوش ذوق تھا، چنانچہ اس نے سیا لکو ٹ شہرہی میںایک لڑکی سے تعلقات استوار کرلئے اور اسے اپنی توجہات کا مرکز بنا لیا، چنانچہ اب اس نے سا س کے گھر میں آنا کم کر دیا اور ایک روز سنا کہ خادم حسین نے اس خاتون سے باقاعدہ شادی کر لی۔ خادم حسین کی دوسری شادی کی خبر ماسی ریشم اور اس کی بیٹی پر بجلی بن کر گری ۔ پہلے چنددن تو انہو ں نے خوب واویلا کیا، سینہ کوبی کی ۔ خادم حسین کا ماتم کیا اور پھر اس کا نام آتے ہی وہ زخمی شیرنیو ں کی طر ح غرانے لگتیں اور اس کی سات پشتوں کو بے نقط سنا ڈالتیں لیکن عملاً وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھیں ۔ خادم حسین نے ان کے ہاں آنا جانا بالکل ترک کر دیا تھا ۔ماسی ریشم اگرچہ نما ز روزے کی پابند تھی ، لیکن وہ ہمیشہ ہی سے قبرو ں ، درگاہو ں کی پرستار تھی ۔ وہ بڑی ہی باقاعدگی کے ساتھ ہر جمعرات کو امام صاحب کے مزار پر حاضر ی دیتی ( سیالکوٹ میں ایک شہید بزرگ کا مزار ) قبر شریف کا طوائف کر تی ، حتیٰ کہ سجدے میں گر جاتی تھی ۔ اسی طر ح وقتاً فوقتاً بابل شہید کے قبرستان میں بھی حاضر ہونا اس کے نزدیک گویا فرض واجب تھا ۔ وہا ں بہت سے بزرگوں اور شہیدوں کے مزار ہیں ۔ وہ باری باری سب کے ہا ں حاضر ہوا کر تی اور ان کی خدمت میں اپنی حاجتیں پیش کر تی ۔ خادم حسین کی شادی کا حادثہ پیش آیا تو مقبروں پر دونو ں ماں بیٹی کی حاضریو ں کا تنا سب کہیں بڑھ گیا ۔ کو ئی دن نہ جاتا کہ وہ ارد گرد کی درگاہو ں پر حاضر نہ ہو ا کرتیں ، کبھی باباملو ک شاہ پر ، کبھی منڈیر شریف اور کبھی ہمارے گاﺅں کے قریب نہر کنارے کوﺅ ں والے سائیں کے پاس۔ راستے میں وہ خادم حسین اور اس کے اباﺅ اجداد کو منہ بھر بھر کے گالیاں دیا کرتیں اور قبر پر جا تے ہی سجدے میں گر جاتیں ۔ قبر کے چکر ضرور لگا تیں اور پائنتی کی طرح کھڑے ہو کر آنسو بہاتیں ۔ یہ ان کا مستقل معمو ل بن گیاتھا ۔ آخر کا ر ان کی تگ و دو رنگ لائی اور قسمت کا مارا خادم حسین ایک روز اپنی دوسری بیوی کو لیکر گودھپور انکے گھر آگیا ۔ پتہ نہیں اسے کیا زعم تھا یا وہ کس خو ش فہمی میں مبتلا تھا۔ بہر حال ان دونو ں کو کمرے میں بٹھا کر ریشم بی بی چپکے سے باہرک نکلی اور پڑوس سے ایک قریبی رشتہ دار کو بلا لائی جس نے کمال چابک دستی سے خادم حسین کے ہا تھ باندھے اور پھر ڈنڈوں اور جو تو ں سے دونو ں کی وہ ٹھکائی کی کہ خادم کے چو دہ طبق روشن ہو گئے ۔ ا س کا ر خیر میں اُس کے بارہ سالہ بیٹے عامر نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ وہ زمین پر گرے ہوئے اپنے سگے باپ پر بار بار جو تے برساتا اور اس کی دوسری بیوی پر بھی خو ب خو ب غصہ نکالتا اورا س وقت تو ماسی ریشم اور رشیداں دونو ں قہقہہ لگا کر خو ب ہنسیں جب عامرنے قینچی لیکر اپنی سوتیلی ماں کے بال کا ٹ ڈالے تھے ۔ جسے اسی ریشم نے اپنے نواسے کے کارنامے کے طور پر ایک عرصہ تک کمرے کے ایک کونے میں لٹکا ئے رکھا تھا ۔ بہرحال خادم حسین کو وہ درگت بنی کہ شاید ہی کسی عاشق کی بنی ہوگی ۔ اسے انہو ں نے پانی پلا پلا کے مارا اور جب اس کے لیے اپنے پا ﺅ ں پرکھڑے ہونا محال ہو گیا تو پڑوسی عامر نے سہار ادے کر دونوں میاں بیوی کو سڑک تک پہنچا یا اور تانگے پر بٹھا کرسیا لکوٹ روانہ کر دیا ۔ غیر معمولی توہین و تذلیل کا یہ عمل خادم حسین کے لئے اتنا سبق آمو ز ثابت ہوا کہ وہ جلدہی بیوی اور دو بیٹیو ں کو لیکر کر اچی چلا گیا ۔ اس نے سیا لکوٹ کی سکونت کو مستقل طور پر ترک کر دیا اور پھر کبھی واپس لو ٹ کر نہ آیا ۔ اب ماسی ریشم اور رشیداں بی بی کی ساری امیدوں کا واحد مر کزعامر تھا ۔ وہ اسکو ل میں پڑھتا تو تھا لیکن اپنے اکلو تے ہو نے کا بھر پور فائدہ اٹھا ناجانتا تھا۔ اسے یہ بھی شعور تھا کہ وہ مستقبل میں اچھی خاصی قیمتی جائیدادکا مالک بنے گا ، اس لئے اس نے آوارگی کا ہر وہ چلن اختیار کر لیا جو اس کے بس میں تھا ، چنانچہ اس نے کم از کم دو اضافی سال میٹرک میں لگائے اور تیسرے سال میں بڑی مشکلو ں سے تیسرے درجے میں امتحان پاس کر لیا اور چونگی محرر کی حیثیت سے ملا زم ہو گیا۔ اس کے لیے اس کی نانی نے خاصی بڑی رقم رشوت میں لگائی تھی ۔ یہ 1966-67 کی بات ہے ۔ اس کی تنخواہ ستر روپے مقرر تھی ۔ میں نے اکتوبر 1966 ءمیں ایم ۔اے کا امتحان دیا تھا اور مجھے فوری طور پر اپنے علا قے ہی میں ایک پرائیوٹ کا لج میں لیکچرر شپ مل گئی تھی ۔ میری ڈھا ئی سو روپے تنخواہ لگی تھی اور میری والدہ نے ایک دن تعجب سے کہا تھا: تم نے سولہ جماعتیں پڑھی ہیں اور ڈھائی سو روپے تنخواہ لے رہے ہو جبکہ ریشم کا نواسہ تنخواہ کے علا وہ روزانہ اپنی ماں کو پچا س روپے لا کر دیتا ہے۔ چنانچہ اس کی بد عنوانی اور غیر ذمہ داری نے اپنا آپ دکھا یا اور اسے چھ ہی ماہ کے بعد نوکری سے بر طر ف کر دیا گیا ۔ اب ماسی ریشم نے گودھپور والی زمین میں سے کچھ حصہ فروخت کر دیا اور کو ٹلی بہرام کے مو ڑ پر سڑک کے کنا رے اپنے ایک کمرشل پلاٹ پر آٹھ دکا نیں تعمیر کر ڈالیں۔ ان میں سے دو میں عامر نے سٹیشنری اور جنرل سٹور بنا لیا۔ تجا رتی نقط ءنگاہ سے دکا نیں بڑے ہی اچھے ٹھکانے پر تھیں جہا ں مستقبل میں کاروبار چمکنے کے امکا نات بہت روشن تھے ۔ باقی دوکانیں کرائے پر دے دی گئیں اور عامر کی شادی کر دی گئی ۔ اسے عامر کی خوش قسمتی ہی سے تعبیر کرنا چاہئے کہ اس کی بیوی ایک تربیت یا فتہ ملا زمت پیشہ نرس تھی ۔ وہ سگھڑ اور سمجھ دار بھی تھی ، لیکن عامر نے گویا قسم کھا رکھی تھی کہ وہ عقل سے کام نہیں لے گا اور ہر معاملے میں چھچھورے پن کا مظاہرہ کرےگا، چنانچہ اس نے ارد گرد کے گرلز اسکولوں کی استانیوں سے خاص اپنائیت کا تعلق قائم کر لیا اور انہیں دل کھو ل کر اسٹیشنری کا سامان ادھار پر دیتا رہا ۔ وہ تحفے تحائف دینے میں بھی بڑا فراخ دل واقع ہو اتھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی دکا نداری بڑی ہی مشکلو ں سے ایک سال تک چلی ، سرمایہ ختم ہو گیا اور اسے کا روبار کا سلسلہ معطل کرنا پڑا ، تاہم وہ چنداںپریشاں نہ تھا ۔ گھر کا نظام دکا نو ں کے کرائے اور بیوی کی نوکری کے سہارے چل رہا تھا ۔ مکمل فراغت کا فیضان عامر کویہ حاصل ہوا کہ وہ یکے بعد دےگرے سات بیٹیو ں کا با پ بن گیا ۔ ماسی ریشم اور بہن رشیداں نے سر توڑ کو شش کی ، مختلف مقبروں پر بار بار حاضر ہوئیں ، چادریں چڑھائیں ، منتیں مانیں ، لیکن کسی بزرگ نے بھی مداخلت نہ کی اور عامر کو ایک بھی بیٹا نہ ملا ۔ حد یہ ہوئی کہ اس دوران میں ماسی ریشم نے حج بھی کر لیا ۔ ظاہر ہے کہ وہا ں بھی اس نے سب سے زیا دہ دعائیں عامر کے بیٹے کے لیے کی ہوں گی لیکن افسو س بیل منڈھے نہ چڑھی اور ساتویں بیٹی کے بعد وہ مایو س ہو کر کویت چلا گیا ۔ بد نصیبی کو یت میں بھی عامر کے ہم رکا ب رہی ۔ اسے و ہا ں گئے ہوئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک روز وہ ٹریفک کے ایک حادثے کا شکا رہو گیا ۔ سڑک عبور کر رہا تھا کہ ایک تیز رفتار کا رنے اسے ٹکر ما ر دی ۔ اس کی دو نوں ٹانگیں کئی جگہ سے ٹوٹ گئیں۔ با قی جسم پر بھی شدید چو ٹیں آئیں اور وہ کئی دن تک ہسپتال میں بے ہو ش پڑا رہا ۔ جان تو اس کی بچ گئی ، مگر تقریباً دو سال تک وہ ہسپتال میں زیر علا ج رہا اور جب بیساکھیو ں کے سہارے چلنے کے قابل ہو ا تو پاکستان آگیا ۔ میں اس کی مزاج پر سی کے لئے چلا گیا ، بڑی قابل رحم تھی حالت اس کی ۔ اس کی بوڑھی نانی اسے اس حال میں نہ دیکھ سکی اور ایک روز یکا یک دم توڑ گئی ۔ پتہ چلا کہ اس کے دماغ کی شاہ رگ پھٹ گئی ۔ یہ بڑی عبرت ناک بات ہے کہ میں نے ماسی ریشم اور رشیداں بی بی کے خاندان میں کبھی بھی سکو ن نہیں دیکھا ۔ وہ ہمیشہ مسائل، مصائب او ر امراض میں مبتلا نظر آئیں اور اس کا سبب میرے نزدیک دونو ں ما ں بیٹی کی بد اخلا قی ، تکبر اور غیر حقیقت پسندانہ اسلو ب ِ حیات تھا ۔ دکھ اور پریشانیا ں ان پر بارش کی طر ح برستی رہیں ۔ ایک با ر پتہ چلا کہ بہن رشیداں کو سرپر شدیدچوٹ لگی ہے اور و ہ اپنے حواس کھو بیٹھی ہے۔ میں اس کی عیادت کے لئے گیا۔ وہ چارپائی پرگم صم بیٹھی تھی اور بٹر بٹر فضا میں گھور رہی تھی۔ میں اس کے قریب بیٹھ گیا ، اس نے مجھے نہیں پہچانا۔ سر کی چو ٹ نے اس کی یا ددا شت پر گہر ا اثر ڈالا تھا ۔ عامر نے بتایا کہ چند روز پہلے وہ پڑوسیوں کے ہاں صحن میں بیٹھی تھی ۔ ان پڑوسیوں کے ہا ں جن کی مدد سے اس نے اپنے خاوند کی پٹائی کرائی تھی کہ تیز ہو اچلنے سے چھت سے لکڑی کا ایک تختہ لڑھکا اور رشیداں بی بی کے سر پر آگرا جس سے وہ بے ہوش ہو گئی اور کئی گھنٹو ں کے علاج کے بعد ہو ش میں آئی تو اس کا حافظہ جوا ب دے گیا تھا ۔ ڈھائی تین سال اسی حالت میں مبتلا رہ کر وہ وفات پا گئی ۔ میں تعزیت کے لئے گیا تو عامر نے بتایا کہ میں نے یہا ں کی ساری جا ئیداد دکا نیں اور مکان بیچ کر اسلام آباد منتقل ہونے کا پروگرام بنا لیا ہے ۔ اس نے دکھ ا ور نفرت کے احساس سے کہا ۔ یہ جگہ انسانو ں کے رہنے کی نہیں ہے ، زندگی کی کوئی سہو لت بھی تو حاصل نہیں ہے یہاں میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹیاں اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کریں اور آزادی کے ماحول میں زندگی گزاریں ۔ لیکن سات بیٹیوں کے ساتھ اپنے آپ کواسلام آباد کے اجنبی ما حول میں کیسے ایڈ جسٹ کریں گے۔ یہا ں آپ کی برادری ہے، خاندان ہے ، حلقہ تعارف ہے ۔ وہا ں یہ سہو لتیں میسر نہیں آئیں گی ۔ وہاں آپ کو رشتوں کے حوالے سے مسائل کا سامنا کر نا پڑے گا ۔ “ میںنے اس کے منصوبے سے اختلاف کیا ۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں ۔ عامر کہنے لگا ” لڑکیا ں پڑھ لکھ کر عملی زندگی میں آئیں گی تو خو د ہی مسائل کو حل کر لیں گی ۔ میں انگلی پکڑ کر کب تک ان کی راہنمائی کروں گا “ اور پھر وہا ں امام بری کا مزار بھی تو ہے ، وہ امام صا حب سے بڑی درگاہ ہے۔ “ اور عامر نے واقعی ایسا کر دکھا یا ۔ ا س نے دکا نیں ، پلاٹ ، زمین سب کچھ بیچ دیا اور اسلام آباد چلا گیا ۔ پتہ نہیں وہا ں کس حال میں ہے ؟ یو ں لگتا ہے کہ جس طرح ماسی ریشم اور شیداں کی قسمت سے انہیں کبھی سکھ کاسانس لینا نصیب نہ ہو اتھا ، اسی طر ح عامر کا مقدر ان جو تو ں سے بندھ گیا ہے جو اس نے اپنے باپ کے سر پر مارے تھے ۔ ایسا لگتا ہے یہ جو تے اسے در بدر کی ٹھو کریں کھا نے پر مجبو ر کر تے رہیں گے اور وہ ساری عمر ذلت و رسوائی کی جا نب اپنا سفر جاری رکھے گا۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 131 reviews.