اپنا بچہ کس کو پیار انہیں ہوتا ، پیار و محبت کی شدت ہی کاایک پہلو یہ ہے کہ ہم اس کی ضرور ت سے زیادہ دیکھ بھال اور نگرانی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کو کسی قسم کا ضرر نہ پہنچے ، جسمانی طور پر بھی وہ تندرست رہے اور ذہنی و جذباتی لحاظ سے بھی صحت مند ۔ اس کا کردار ، اس کی عادات اچھی رہیں اور وہ بڑاہو کر ایک مہذب ، متوازن اور کا میا ب انسان بنے۔ شاید اس شدت ِ آرزو ہی کا نتیجہ ہو تا ہے کہ ہم بچے کو متوازن بنانے کی کو شش میں خود متوازن نہیں رہتے اور اکثر و بیشتر تنبیہ و تحدید میں حد سے زیادہ آگے بڑھ جاتے ہیں او ر زیادہ تر منفی پہلو ہی اختیار کر تے ہیں ۔ غالبا ً تصور یہ ہوتا ہے کہ اگر بچے کو بری عادات سے بچا لیا جا ئے تو سمجھئے اس کی تربیت کا حق ادا ہو گیا ۔ چنا نچہ ہماری تربیت کا انداز عموماً یہ ہوتا ہے کہ ”یہ نہ کرو ! وہ نہ کر و !“ ” یہ کام نہیں کرتے ! وہ کام اچھا نہیں ہے ! “ ” یو ں نہیں کرتے ! “ ” یہ کا م اس طر ح نہ کرو !“ ” یہ کیو ں کیا !“ ” یہ کیا کر دیا !“ اس انداز تخاطب و تا د یب کا تجزیہ کیجئے تو صرف دو اجزا آپ کو نظر آئیں گے ، ایک ” نفی “ دوسرا ”تحکم“ مجھے کہنے دیجئے کہ یہ دونو ں اجزا تعمیر کے نہیں ، تخریب کے ہیں ، اور تربیت کے لیے سخت مضر ۔ آپ کا مقصد تو نہایت نیک ہے یعنی آپ چاہتے ہیں کہ اپنے بچے کو انسان بنائیں ، لیکن معا ف کیجئے آپ کا طریقہ موزو ں نہیں ہے آپ جو کچھ چاہتے ہیں اس کے لیے طریقہ بھی وہی اختیار کیجئے جو کامیا ب ہو ، آپ تعمیر چاہتے ہیں ، انداز بھی تعمیری ہو ں ۔ جہاں تک ممکن ہو بچے کو تعمیری مشورے دیجئے۔
ایک غلط کا م سے ، ایک غلط لفظ سے روکنا ہوتو بجائے یہ کہنے کے کہ ” یو ں نہ کر و ! یا ” صحیح لفظ یہ ہے “ آپ کے اس کہنے میں بھی تحکم نہ ہو بلکہ مشورہ کا انداز ہو ۔ بچہ بھی ایک مستقل شخصیت رکھتا ہے ۔ اس شخصیت کو سمجھنے اور تلا ش کرنے کی کوشش کیجئے ۔ بچے کو منا سب آزادی دیجیے تا کہ وہ اپنی اصلی شخصیت ظاہر کر سکے ۔ آپ اس کی اپنی شخصیت کو دبائیے نہیں ، پچکا ئیے نہیں ، توڑئیے موڑئیے نہیں ۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اپنی شخصیت کو اس پر مسلط نہ کیجئے ۔ آپ سے بھی مختلف شخصیت ہو سکتی ہے۔ آپ سے بھی اچھی ۔ اگر اس کی شخصیت گول ہے تو اس کو چوکور بنانے کی کو شش نہ کیجئے اور چوکور ہے تو گول نہ کیجئے ۔ ہا ں تراش خرا ش ضرور کیجئے اور پالش بھی کر دیجئے ۔ جہا ںتک ممکن ہو اپنے ’ ’ بڑے پن “کو کا م میں نہ لائیے۔ بچے سے معمولی ( نارمل ) لہجے میں بات کیجئے بات چیت اور روتے میں غصے ، جھنجھلا ہٹ ، اکتاہٹ ، چڑچڑے پن اور کھردرے پن کا ثبوت نہ دیجئے ۔ بچہ آپ ہی سے سیکھتا ہے ، آپ ہی کی نقل کر تا ہے اور ہر بات میں ویسا ہی رد عمل ظاہر کرنے کی کو شش کرتا ہے جیسا آپ کرتے ہیں ۔ اس کے اقوال و اعمال کے لیے نمونہ آپ ہی ہیں۔ جیسا دیکھے گا ویسا ہی کرے گا ۔ جیسا سنے گا ویساہی کہے گا ۔ آپ کے لہجے ، آپ کے رویے میں درشتی کے ساتھ ساتھ ضرورت سے زیادہ نرمی اور لجا جت اور گراوٹ بھی نہ ہو نی چاہیے ، کیوں کہ بچے کو متوا زن بنانا ہے ۔ اخلا ق اور گفتگو میں بھی افرا ط و تفریط نہیں ہونی چاہیے ۔
بعض والدین بچوں کو منفی ہدایات دیتے ہیں ۔ ہر بات سے روکتے ہیں ، حالانکہ وہی کام کوئی بڑا آدمی کرے تو وہ ہر گز نہیں روکیں گے ۔ بچو ں کو ہر بات پر روکنے ، ٹوکنے ، منع کرنے ، انکار کرنے سے ان کی شخصیت گھٹ کے رہ جا تی ہے ۔ انکی قوت عمل گھٹ جا تی ہے ۔ ان کی اناٹھٹھرجاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بچہ بڑا ہو کر بھی ہر بات سے ڈرنے لگتا ہے ، ہر کام کرنے میں جھجھکتا ہے۔ اس کی قوت عمل سرد ، اس کی قوت ِ فکر مفلو ج اور اس کی قوت ِ فےصلہ مفقود ہو جاتی ہے ۔ وہ ہر بات میں دوسرے کے مشورے ، دوسرے کے سہارے اور دوسرے کے اکسانے کا محتا ج ہوجا تا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کایہ انجام آپ کو گوارا نہ ہوگا ۔ آپ ہر گز پسند نہیں کریں گے کہ وہ تابعِ مہمل بن کر زندگی گزارے ، وہ مقلد محض رہے۔ قائد نہ بنے ۔ شرم ، جھجک ، تامل ، تذبذب ، تکلف ، تساہل ، گومگو میںمبتلا ، تمیز اور فےصلہ کی قوت سے محروم انسان کو کون پسند کر ے گا؟
اپنے بچے کو ہمیشہ تعمیری مشورے دیجئے ۔ دوستانہ رہنمائی کاانداز اختیار کیجئے ۔ اگر ایک کام کو آپ غلط یا برابتائیں تو صحیح اور اچھے کام کی بھی نشاندہی کردیجئے ۔ اس طرح ایک مثبت ذہن تیار ہو گا، ذہنی صحت و تواز ن کی بنیا د پڑے گی اور بچہ ذہنی طور پر زیادہ توانا ہو گا ۔
بچے کی اپنی شخصیت کو ابھر نے کا موقع دیجئے ۔ اس کی اپنی صلاحیتو ں ، اسکے رجحانات اور جوہروں کو جلا کا موقع ملنا چاہئے ۔ آپ اپنے رجحانات کو اس پر زبردستی نہ تھوپئے ۔ وہ اپنی شخصیت میں جس طر ح اور جس حد تک آپ کی شخصیت کو جذب کر سکے گا ، غیر ارادی طور پر جذب کر لے گا ۔ پھر انسان کی اپنی شخصیت ہوتی ہے ۔ آپ اپنی تربیت سے اس کی مدد کیجئے ۔ اس کی اصلی شخصیت کا گلا نہ گھونٹیے ۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس کو پوری آزادی دیں ۔ اس کو کسی جائز اور ضروری بات سے محض اس لیے نہ روکیں کہ وہ آپ کے مزاج کے خلا ف ہے یا آپ کے مشاغل میں فرق آتا ہے۔ اس کو اپنی دنیا آپ بنانے ، اپنے جو ہروں کو اجاگر کرنے ، کش مکش حیا ت کا مقابلہ کر نے اور مسائل کا فےصلہ کر نے اور اقدام کرنے ( INITIATIVE ) کی صلاحیت بخشئے۔ آپ کے بچے کی یہی بہترین تربیت اور انسان کی بہترین خدمت ہے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں