علی ابن حسین بن علی (امام زین العابدین) رضی اللہ عنہ نے سفر حج یا عمرہ کا ارادہ کیا تو سکینہ بنت حسینؓ نے راستہ کے خرچ کیلئے کھانے کی کئی چیزیں بناکر ان کے پاس بھیج دیں جس پر ایک ہزار درہم سکینہ رضی اللہ عنہا نے خرچ کیا تھا۔ جب علی ابن الحسین رضی اللہ عنہ مقام ’’ظہرحرہ‘‘ پر پہنچے راوی لکھتا ہے ’’امربـما فقست علی المساکین‘‘ یعنی نوکروں کو حکم دیا اور سارا خوان مسکینوں میں تقسیم کردیا۔
فکر آخرت میں شکم پروری سے اجتناب
ابراہیم بن ادہم بلخی رحمہ اللہ بڑے امیر کبیر تھے یک بیک صوفی ہوگئے ایک دن طرابلس کے سفر میں ان کے ساتھ صرف دو روٹیاں تھیں۔ ایک سائل نے سوال کیا تو ساتھی سے کہا دونوں
روٹیاں دے دو۔ وہ حیرت سے منہ دیکھتا رہا کہ خود کیا کھائیں گے۔ فرمایا یہی تو ایثار ہے اور اس کا ثواب آخرت کیلئے اٹھا رکھو۔ یہ لوگ تھے جن کو آخرت کا دھیان اور ضرورت مندوں کے شکم پروری میں ثواب کا خیال ایماناً و احتساباً قائم تھا۔
تجارت کا نفع برائے طلباء و مساکین:ہمارے اسلاف اولیائے کرام رحمہم اللہ میں امراء کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو تجارت کے نفع میں سے غرباء و مساکین میں تقسیم کردیتے تھے۔ چنانچہ حسان بن ابی بنان رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے ’’لولاالمساکین ماتجرت‘‘ یعنی اگر مساکین نہ ہوتے تو میں تجارت نہ کرتا۔ چنانچہ بصرہ میں ان کا تجارتی کاروبار تھا، نفع کا اس میں جو حصہ ان کو ملتا اس میں اپنا ضروری خرچ خوراک لے کر باقی سب صدقہ کردیتے اور ان کا شریک اسی جگہ اپنے نفع سے جائیداد خریدتا، کوٹھیاں بنواتا۔ایک واقعہ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا بھی دیکھئے! آپؒ طلباء و دین اور علماء کرام کی دعوت کثرت سے کرتے اور ہر دعوت میں فالودہ کے خوان بھی پیش کرتے اور طلباء اور علماء کو مخاطب کرکے فرماتے اگر
آپ لوگوں کا خیال نہ ہوتا تو میں تجارت نہ کرتا، یہ تجارت آپ ہی لوگوں کی خدمت کیلئے کرتا ہوں۔
پوشیدہ خیرات کا طریقہ:ہمارے ہی بزرگوں میں جنہوں نے خیرأت و صداقت کو اپنا شعار بنا رکھا تھا، یہ بھی ایک طریقہ تھا کہ نام کی شہرت سے بچنے کیلئے پوشیدہ خیرأت دوسرے لوگوں کے ذریعے کرایا کرتے تھے۔ محمد بن اسلم طوسی رحمہ اللہ حاجت مندوں کی طرف کپڑے اور روپیہ بھیجتے تو قاصد سے کہہ دیتے کہ ان لوگوں سے بھیجنے والوں کا پتہ نہ دینا۔ کیونکہ وہ فرمایا کرتے تھے ’’لو قدرت ان اتطوع حیث لایرانی ملکانی لفعلت ولاکنی لااستطیع لہ‘‘ اگر میں اپنے نفلی صدقات و عبادت کو فرشتوں سے چھپا سکتا تو ان سے بھی چھپاتا‘‘۔ ہاں یہ بزرگ اس قسم کے بالکل پوشیدہ خیرات کرنے کا خیال و اہتمام اس حدیث کے تحت رکھتے تھے جس میں ارشاد ہے کہ دایاں ہاتھ اس طرح خرچ کرے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ لگے۔
علی بن حسین بن علی(حضرت زین العابدین) رضی اللہ عنہ اپنی پشت مبارک پر کبھی روٹیاں اور کبھی آٹا ہی جھولوں میں ڈال کر رات کی تاریکی میں لے جاتے اور پوشیدہ خیرات کر آتے اور فرماتے ’’ان صدقۃ السرتطفی غضب الرب‘‘ کہ پوشیدہ و گمنام خیرات خدا کے غضب کو بجھاتا ہے۔ (بحوالہ:الاعتصام لاہور ۵جون ۱۹۵۳ء۔ ص:۴)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں