افطار کے موقع پر دستر خوان انواع و اقسام کی نعمتوں سے بھرا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بابرکت مہینے میں رزق کشادہ کردیتے ہیں جس کا غلط مطلب ہم زیادہ کھانا سمجھتے ہیں اور خوب کھاتے پیتے ہیں۔ رمضان المبارک میں غیر متحرک طرزِ زندگی، نیند کا پورا نہ ہونا، چٹ پٹی اور مرچ مصالحے والی غذائوں کا استعمال اور ذہنی دبائو عام معمولات میں شامل ہوتے ہیں۔شروع رمضان میں کی جانے والی بداحتیاطی عروج کو جاپہنچتی ہیں، نصف رمضان تک اگر ایسے میں معدے کی تکالیف بڑھنے لگیں تو اس کے عوامل پر غور کرنا ضروری ہے۔ اگر خدانخواستہ معدے میںزخم ہو جائے تو پریشان ہونے کے بجائے اس کی وجوہ جان لیجئے کہ اس بیماری میں معدے کا استرچھل جاتا ہے۔ معدے اور آنت میں ہونے والے زخم تقریباً بے ضرر ہوتے ہیں اور بروقت تشخیص اور علاج سے ٹھیک ہوسکتے ہیں۔ اگر سینے میں جلن اور کھانا کھانے کے بعد تیزابیت محسوس ہوتو یہی دراصل اس بیماری کی مخصوص علامت ہے، جو کھانے کی نالی سے شروع ہوکر آنتوں اور معدے تک جا پہنچتی ہے۔ پیٹ میں درد ہوتا ہے اور خاص کر پسلیوں کے نیچے ہوتا ہے۔ اگر آنت سے شروع ہوکر آنتوں کا درد ہوتو کھانے کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور تین گھنٹے بعد شروع ہوتا ہے۔ اگر پیٹ پھول جائے اور معدے میں بھاری پن ہو، اسی طرح منہ میں کھٹے پانی کا اچھال ہوتو سمجھ لیجئے کہ غذا کی نالی میں تیزابیت کی زیادتی ہوگئی ہے۔ اگر بھوک میں کمی ہوتی چلی جارہی ہو اور وزن بھی گر رہا ہو، طبیعت میں گرانی اور متلی کا احساس ہو یا اُلٹی آجائے (خاص کر خون کی اُلٹی) تو اس کیفیت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، فوراً معدے کے ڈاکٹر سے رابطہ کرلینا چاہیے۔ خدانخواستہ آنت کا زخم پھٹ جانے کی صورت میں سرجری کی ضرورت پڑسکتی ہے۔پھیپھڑوں اور جگر کے مریضوں میں یہ بیماری جلد پروان چڑھتی ہے۔ گردے میں درد یا ان کے ناکارہ ہو جانے کی صورت میں بھی معدے پر دبائو پڑتا ہے۔ ڈپریشن اور اسٹریس کے مریضوں میں بھی معدے کا زخم ایک عام شکایت ہے۔ مسلسل ناامیدی، مایوسی اور تفکرات میں گھرے رہنے والے افراد کے معدے تیزابیت خارج کرنے لگتے ہیں۔ معدے یا آنت سے خون آنا ایک مسئلہ ہے جس کا ہنگامی طور پر علاج ضروری کرانا ہو جاتا ہے۔ یہ علاج اگر بروقت کردیا جائے تو چار سے چھ ہفتوں میں مریض کو آرام آسکتا ہے ۔ اگر مریض کی عمر 75سال سے
اوپر ہو اور وزن میں کمی واقع ہورہی ہو تو تشخیص کے لیے ٹیسٹوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ زخم کو آگے بڑھنے سے بچانے یا روکنے کے لیے متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ رمضان خیر و عافیت سے گزر جائے اور صحت کے مسائل
کھڑے نہ ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ متوازن غذا کا استعمال کریں اور روزے کو شرعی اور اخلاقی ضابطوں کے ساتھ پورا کرکے افطار کے دسترخوانوں کو ثقیل غذائوں سے نہ سجائیں۔ چاٹ مصالحوں اور سرخ مرچوں کا استعمال کرکے معدے کو آزمائش میں نہ ڈالیں۔ سحری میں شوربے والا سالن اور بغیر چھنے آٹے کی روٹی مفید رہے گی۔ کھجور سحری میں بھی کھانے کی عادت ڈالیں اور افطار میں پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل ڈشز اہتمام سے بنائیں تاکہ گرمیوں کے طویل روزے میں معدے کے خالی رہنے سے نفسیاتی طور پر پیدا ہونے والے خلاء کو نرم، سرد، معتدل اور وٹامنز کے علاوہ صحت افزاء پانی سے پُر کیا جائے۔
لذت بھرے پکوان صرف چکھئے: اگر زبان کے چٹخاروں سے طبیعتیں سیر ہوسکتیں تو جسم میں وٹامنز کی کمی کبھی نہ ہو پاتی۔ بہتر یہی ہے کہ لذت بھرے پکوان چکھنے کی حد تک استعمال کئے جائیں اور اس کے بعد رات کا کھانا سادہ غذا پر مشتمل ہو۔ یہ کھانا اہم ہوتا ہے اسے ترک کرنے والے افطاری کے لوازمات سے پیٹ بھر چکے ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں بھوک اس شدت سے نہیں ستاتی۔ البتہ ہاضمے کی خرابی کے بعض مسائل ضرور سر اٹھاتے ہیں کیونکہ یہ ثقیل غذائیں دیر سے ہضم ہوتی ہیں۔ رمضان المبارک تطہیر معاملات کا مہینہ ہے چنانچہ دیگر معاملات زندگی کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی عادتوں کو بھی بہتر خطوط پر استوار کرنا بہت سی الجھنوں سے بچاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں