چند سال پہلے تک لوگ تیراکی کے تالاب کا رخ بس پیراکی کے لئے ہی کرتے تھے‘ لیکن اب 70 لاکھ امریکی ایسے ہیں جو پیراکی کے تالاب کی طرف صرف پیراکی کیلئے ہی نہیں بلکہ ورزش کیلئے بھی جاتے ہیں۔ ویسے تو پیراکی اپنی جگہ خود ایک ورزش ہے لیکن یہاں ہم جس آبی ورزش کا ذکر کر رہے ہیں وہ پیراکی سے مختلف ہے۔ گو آبی ورزش سے اس طرح پسینا تو نہیں آتا جس طرح خشکی میں ورزش کرنے سے آتا ہے۔ لیکن یہ ورزش بھی ہمارے قلب کو تقویت پہنچانے‘ عضلات کو مضبوط بنانے‘ جسمانی توازن کو بہتر بنانے اور ہڈیوں کی بوسیدگی روکنے میں اتنی ہی موثر ہے جتنی کہ جوگنگ یا تیز چہل قدمی۔ زخمی کھلاڑی اور جوڑوں کی سوجن( ورم مفاصل) کے مریض برسوں سے گرم پانی میں ورزش کرتے ہیںکیونکہ پانی کے دباﺅ سے ورم کم ہو جاتا ہے اور اس کی گرمی سے عضلات کو آرام ملتا ہے اور جوڑوں کی سختی دور ہوتی ہے۔
اب معالجوں نے یہ مشورہ دینا شروع کیا ہے کہ مجموعی تندرستی کی خاطر لوگ پانی میں اچھلیں کودیں۔ یہ مشورہ ان مریضوں کو بھی دیا جا رہا ہے جو بیماری یا جراحت کے بعد کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مریضوں کو قلب کے آپریشن اور پستان براری کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنی بحالی صحت کے زمانے میں وہ اپنے جسم کو خشکی کی بہ نسبت پانی میں بہتر طریقے سے حرکت دے سکتے ہیں۔
آبی ورزشوں میں سے زیادہ تر کمر سے سینے تک گہرے پانی میں کی جاتی ہیں لہٰذا نہ تو ورزش کرنے والے کا چہرہ بھیگتا ہے اور نہ یہ ضروری ہے کہ اسے تیرنا آتا ہو۔ اس ورزش کا صحیح طریقہ جاننے کیلئے بہتر ہو گا کہ آبی ورزش کی تربیت لی جائے تاکہ اس بات کا یقین ہو جائے کہ مریض کی حالت ورزش کے قابل ہے یا نہیں ‘ نیز نہ صرف چوٹ کے امکانات کم ہو جائیں بلکہ ورزش سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ آبی ورزش میں مختلف صلاحیت ‘ عمر اور تندرستی والے لوگ شامل ہوتے ہیں لہٰذا ماحول دوستانہ ہوتا ہے۔ امریکا اور بعض دوسرے ممالک میں صحت اور سماجی بہبود سے تعلق رکھنے والے مختلف ادارے آبی ورزش کا اہتمام کرتے ہیں۔ آبی ورزش زیادہ تر گرم پانی میں کی جاتی ہے۔ جس کا درجہ حرات 83 ڈگری فارن ہائیٹ کے قریب رہتا ہے۔
پہلے جسم کوآہستہ آہستہ حرکت دے کر عضلات کو ڈھیلا کرتے اور جسم میں گرمی پیدا کرتے ہیں پھر ایروبک ورزش کے ذریعے سے قلب کی دھڑکن بڑھائی جاتی ہے۔ ان ورزشوں میں ایسی ورزشیں شامل ہوتی ہیں جیسے ہاتھ میں وزن لے کر پانی میں اس طرح چلنا کہ وزن پانی میں ڈوبا رہے یا پانی کے اندر ایک چھوٹے چبوترے پر چڑھنا اور اترنا۔
اس آبی ورزش سے سارے اہم عضلات اور جسم کے وہ حصے بھی اثر پذیر ہوتے ہیں جو عام حالات میں یعنی خشکی پر ورزش کا اثر قبول نہیں کرتے۔ تربیتی کورس کے دوران جسم کے مختلف حصوں کو تقویت پہنچانے کیلئے مختلف نوعیت کی چیزیں مثلاً گیندیں‘ بورڈ اور پیڈل وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ بعض جگہ ورزشی مشینوں کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ ایک دن میں آبی ورزش عام طور سے ایک گھنٹہ کی جاتی ہے۔ جس طرح ورزش کے شروع میں جسم کو آہستہ آہستہ گرمایا جاتا ہے اسی طرح آخر میں جسم کو ٹھنڈا کرنے اور قلب کی دھڑکن کم کرنے کا عمل ہوتا ہے۔
پانی کی اپنی طبیعی خصوصیات کی وجہ سے آبی ورزش ایک بے مثل ماحول میں ہوتی ہے۔ پانی میں اوپر اچھالنے اور پیرانے کی جو خاصیت ہے وہ زمین کی کشش کو زائل کر دیتی ہے۔ جس سے جسم میں بے وزنی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اتھلے پانی میں ورزش کرنے والے کا وزن گہرے پانی کی بہ نسبت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں اچھال کم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کولھوں تک گہرے پانی میں چلے تو وہ اپنے جسم کا سینتالیس سے چون فی صد تک وزن سہارے گا‘ لیکن اگر وہ گردن تک گہرے پانی میں چلتا ہے تو اس کی ٹانگوں کو اس کے جسم کا صرف آٹھ فی صد کے قریب بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ چونکہ پانی ہوا کی نسبت کہیں زیادہ کثیف ہوتا ہے لہٰذا پانی میں بار بار مڑنے اور حرکت کرنے میں انہیں خشکی کی بہ نسبت زیادہ مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے اور وہ زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔
آبی ورزشوں کی شدت یا سختی میں اس طرح اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ورزش کی رفتار بڑھا دی جائے یا ان آلات میں ردو بدل کہا جائے جو ورزش کے دوران استعمال ہو رہے ہیں ۔ یعنی ان کا وزن اس طرح بڑھایا جائے کہ پانی ان کی زیادہ مزاحمت کرے۔ گہرے پانی میں ورزش کرنے والے کو زیادہ مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے‘ کیونکہ اس کے اطراف میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔ آبی ورزش سے معمر لوگوں کو اپنا جسمانی توزان بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ توازن کو قائم رکھنا معمر لوگوںکیلئے بہت اہم ہے کیونکہ توازن بگڑ جانے سے وہ اکثر گر جاتے ہیں اور عام طور پر اپنے کولھے کی ہڈی توڑ بیٹھتے ہیں۔ نوادا یونیورسٹی میں ساٹھ سے نوے سال کے درمیان عمر والی چوالیس عورتوں کو ایک تحقیق میں شامل کیا گیا جو سولہ ہفتے جاری رہی۔ ان عورتوں نے ہفتے میں تین بار آبی ورزشیں کیں جن کے دوران وہ اتھلے پانی میں گرتی اور اٹھتی رہیں۔ اس کے علاوہ ایک زیر آب چبوترے پر چڑھنے اور اترنے کی مشق بھی کرتی رہیں۔ جب یہ سلسلہ اختتام کو پہنچا تو معلوم ہوا کہ نہ صرف ان عورتوں کا جسمانی توازن بہتر ہو گیا بلکہ ان کی پھرتی ‘ قوت اور چلنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
ایک اور تحقیقی جائزہ ذرا چھوٹے پیمانے پر تیار کیا گیا۔ اس سے پتہ چلا کہ جن عورتوں نے سن یاس کے بعد ہفتے میں ایک بار آبی ورزش کی تربیتی کلاس میں شرکت کی ‘ تقریباً ایک سال بعد ان کی ہڈیوں کی کمیت 33ءفیصد سے لے کر ایک فیصد تک کا اضافہ ہو گیا۔ بظاہر تو یہ اضافہ بہت کم ہے‘ لیکن اگر ہم اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ سن یاس کے بعد عورتوں کی ہڈیوں کی کمیت میں عموماً ایک سے دو فی صدسالانہ کمی ہو جاتی ہے تو پھر ہمیں اس معمولی اضافے کی اہمیت کا احساس ہو گا۔
جو لوگ ورم مفاصل کی طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں انہیں چاہیے کہ آبی ورزش شروع کرنے سے پہلے اس کے ماہر سے ضروری ہدایات لے لیں۔ ورزش کا یہ ماہر انہیں جسم کے کمزور ترین حصوں کو فائدہ پہنچانے والی ورزشوں کے بارے میں بتا سکے گا۔ گو پانی میں ورزش کرنا شروع میں کچھ عجیب سا محسوس ہوتا ہے‘ لیکن چند بار ورزش کے بعد جھجک دور ہو جاتی ہے۔ بعض لوگ جو پہلے تالاب کے کنارے بیٹھ کر دوسروں کو ورزش کرتا دیکھتے تھے۔ اب خود بھی ورزش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پانی سے باہر آنے کو جی نہیں چاہتا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں