حا جی صاحب جو کہ جنات کے 14 بڑے قبائل ( واضح رہے کہ ہر قبیلہ لاکھوں کروڑوں جنات کی تعداد سے بھی زیادہ ہوتا ہے) کے سردار ہیں‘ ان کی عمر سینکڑوں سال ہے۔ بہت زیادہ متقی اور پرہیز گار ہیں۔ خاص طور پر حلال حرام کے بارے میں خصوصی خیال رکھتے ہیں۔ اپنے ہر اس جن کو سزا دیتے ہیں جو کسی کے گھر سے مالک کی اجازت کے بغیر کھا پی کے آجائے یا کسی کے گھر سے زیور یا رقم چوری کر لے حتیٰ کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں حاجی صاحب کے ساتھ ان کے پوتے کے نکاح کے سلسلے میں قراقرم کی سنگلاخ ہزاروں فٹ اونچی پہاڑیوں میں تھا ۔ میں نے بیٹے کا نکاح پڑھانا تھا‘ کروڑوں جنات اکٹھے تھے۔ جن میں مرد ‘ عورتیں‘ بوڑھے ‘ بچے ‘ جوان سب تھے۔ سنت کے مطابق نکاح تھا۔ نکاح کے وقت لڑکے کی عمر ایک سو پچاسی سال تھی۔ ابھی جوان ہی ہوا تھا کہ انہوںنے اس کی شادی کی فکر شروع کر دی تھی۔ نکاح کیلئے اکٹھے ہوئے تو لوگوں نے حاجی صاحب اور ان کے بیٹے عبدالسلام جن کو بے شمار ہدیے دیئے۔ صحابی بابا بھی ہمارے دائیں تشریف فرما تھے۔ ایک خوبصورت زیور کا سیٹ ایک پکی عمر کے جن نے لا کر دیا۔ چونکہ حاجی صاحب ہر ہدیے پر نظر رکھے ہوئے تھے اس سونے کے بھاری سیٹ کو دیکھ کر چونک پڑے۔ ان صاحب کو بلایا اور پوچھا یہ کہاں سے لیا؟ وہ خاموش ہو گئے پھر پوچھا کہ کہاں سے لیا؟ اب ظاہر ہے وہ اپنے آقا اور سردار کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔ کہنے لگا کہ میسور انڈیا کے فلاں شہر کے فلاں ہندو سیٹھ کی تجوری سے چرا کر لایا ہوں۔ چونکہ آپ کے بیٹے کی شادی تھی اور آخری بیٹا تھا اور میں خالی ہاتھ آنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے یہ غلطی کر بیٹھا۔ حاجی صاحب نے ایک نظر میری طرف دیکھا کہ جیسے پوچھ رہے ہوں کہ کیا حکم ہے؟۔ پھر صحابی بابا کی طرف دیکھا ‘ صحابی بابا خاموش رہے۔ یہ ان کی اکثر عادت ہے جب میں موجود ہوں تو وہ خاموش رہتے ہیں ‘ اس لئے نہیں کہ میں ان سے بڑا ہوں اس لئے کہ وہ مجھ پر نہایت شفقت فرماتے ہیں۔ جو عرض کر دوں اس کو حکم بنوا کر منواتے ہیں اور جو نہ مانے اس کو سخت ترین سزا دیتے ہیں۔ میں نے حاجی صاحب سے عرض کیا کہ ساری زندگی آپ کی حلال پر گزری ہے۔ آپ نے کبھی حرام نہ خود کھایا نہ کبھی کسی کو کھانے دیا۔ حتیٰ کہ مجھے عبدالسلام کا واقعہ یاد ہے جو کہ اس کی والدہ نے سنایا کہ جب یہ ایک سو پندرہ سال کا تھا چونکہ ابھی چھوٹا تھا کہ کسی کے گھر سے تلے ہوئے دو پراٹھے لایا تھا اور کچھ لقمے کھا لئے اور باقی کھا رہا تھا تو حاجی صاحب نے دیکھ لیا‘ پراٹھے ہاتھ سے چھین لئے اور لوہے کی موٹی زنجیروں سے مار مار کر لہو لہان کر دیا۔ پھر پانی میں نمک ملوا کر بہت زیادہ پلوایا اور حلق میں انگلی مروا کر قے کروا دی تھی۔
جب یہ واقعہ میں نے بیان کیا تو حاجی صاحب نے گردن ہلائی کہ واقعی ایسا ہوا تھا اور عبدالسلام کا سر جھک گیا۔ میں نے مزید تفصیل بیان کی کہ ہندو ہو یا مسلمان جس کا بھی حق ہے اس تک واپس جانا چاہیے۔ یہ پکی عمر کے مسلمان جن ہیںانہیں سزا نہ دیں بلکہ معاف کر دیں۔ دو محافظ جن جو میرے سینکڑوں محافظوں میں سے ہیں ان کو ساتھ کر دیتے ہیں کہ جہاں سے چرائے تھے واپس وہیں رکھ کر آئیں۔ یہ محافظ ان کی نگرانی کریں کہ آیا واپس وہیں رکھے ہیں یا نہیں۔ ابھی میں نے بات ختم کی تھی تو میرے نظر حاجی صاحب کے چہرے پر پڑی کہ ان کے نورانی چہرے پر زبردست جلال تھا۔میرا سالہا سال کا تجربہ ہے کہ جب ان کے چہرے پر جلال ہوتا ہے تو بہت پسینہ آتا ہے۔ اب تو اتنا پسینہ آیا کہ ڈاڑھی سے بہہ کر نیچے گر رہا تھا۔ غصے سے کانپتی آواز میں بولے کہ یہ ابھی چھوٹا ہی تھا کہ میں نے اس کی تربیت کی آج اس کی عمر سولہ سو سال سے زیادہ ہو گئی ہے لیکن اس نے یہ حرکت کیوں کی ہے؟۔ آپ چونکہ میرے مرشد کے خلیفہ ہیں اور وصال کے وقت مرشد ہم سب قبائل کو آپ کے سپرد کر گئے تھے لہٰذا اجازت دیں کہ اس کو سزا ملنی چاہیے اور اس کی قید کا حکم ملنا چاہیے۔ میں نے جب یہ صورت دیکھی کہ اب حاجی صاحب سخت جلال میں ہیں۔ میں اگر قید کا حکم نہ مانوں حاجی صاحب مان تو جائیں گے لیکن ایک کی قید سب کروڑوں جنات کے لئے نصیحت بن جائے گی تو میں نے عرض کیا کہ حاجی صاحب جیسے آپ کا مشورہ ہو، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ بندہ نے اسی وقت اپنے محافظ جنات کو حکم دیا ‘ انہوں نے اس شخص کو اسی وقت زنجیروں میں جکڑ کر ٹھٹھہ (حید ر آباد سندھ) میں مکلی قبرستان کی بڑی جیل میں پہنچا دیا۔
اس واقعے کے بعد عبدالسلام جن کے نکاح کی تقریب میں اچھی خاصی افسردگی ہوئی لیکن صحابی با با نے احادیث اور تفسیر سنا کر محفل کو پھر گرما دیا کہ اگر ہم نے انصاف کے تقاضے چھوڑ دیئے تو انصاف کہاں سے لائیں گے۔ میں نے نکاح کا خطبہ پڑھا‘ ایجاب و قبول ہوا اور ہر طرف مبارکباد کی آوازیں لگنے لگیں۔ پھولوں کے ہار دولہا کے گلے میں لٹکائے ‘ ستر سو من چھوہارے جن کا انتظام پہلے سے تھا وہ سب لوگوں میں تقسیم کئے گئے۔رات زیادہ ہو گئی تھی اور وہاں سردی بہت سخت تھی۔ ان لوگوں کو سردی تو نہیں لگ رہی تھی لیکن باوجود اچھے کپڑے اور گرم لباس کے مجھے بہت سردی لگ رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں میرے لئے ایک سوپ لایا گیا ‘ حاجی صاحب کہنے لگے حضرت یہ میری اہلیہ نے آپ کیلئے خصوصی تیار کیا ہے ۔ یہاں قراقرم کی چوٹیوں میں ایک چڑیا کی مانند پرندہ ہے جو کہ حلال ہے اور اتنا تیز رفتار ہوتا ہے کہ شاہین اس کا شکار اپنی ساری زندگی میں صرف ایک دن وہ بھی قدرتی طور پرکر سکتا ہے۔ (جاری ہے)
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 071
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں