ذہن بالکل کا م نہیں کرتا
٭اس وقت میری عمر پندرہ برس ہے‘ مجھے پڑھنے کا بے حد شوق ہے لیکن والدین کی ہر وقت کی مار پیٹ اور گالی گلوچ سے تنگ آ کر چھٹی جماعت میں تعلیم کو خیر باد کہنا پڑا۔ بچپن میں بڑا ذہین تھا لیکن آج کل ذہن بالکل کا م نہیں کرتا ۔ والد سے اتنا خوف آتا ہے کہ ان کی آواز سن کر ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور دل ڈوبنے لگتا ہے۔ اسی خو ف کی بنا پر میں کوئی کام بھی ٹھیک طرح سے نہیں کر سکتا۔ والدین ہمیشہ نالائق اور بے وقوف کے خطاب سے پکارتے ہیں۔ ان کے اس طرز عمل نے میرا جینا دو بھر کرد یا ہے۔ میرے دل میں ان سے شدید نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ کبھی گھر سے بھاگ جانے کا خیال آتا ہے تو کبھی دل میں شعلہ انتقام بھڑک اٹھتا ہے۔ میری رہنمائی کیجئے‘ کسی طرح میرے اندر نفرت اور انتقام کی یہ دہکتی ہوئی بھٹی سرد ہو جائے۔ (محمد یونس شیرازی)
جواب:۔اپنی اصلاح کیلئے ایک شخص کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنی غلطی سے آگاہ ہو۔ اسے محسوس کرے اور آئندہ اس سے باز رہے۔ غلطی کا اعتراف کرنا اصلاح کی طرف پہلا قدم ہے۔ غلطی پر نادم ہونا دوسرا قدم ہے اور غلطی کا اعادہ نہ کرنا تیسرا قدم ہے۔ در اصل اصلاح کا عمل تیسرے قدم پر مکمل ہوتا ہے۔ آپ نے چھٹی جماعت میں پڑھنا چھوڑا ہے اب آپ کی عمر پندرہ سال ہے‘ اس عمر میں آپ کو دسویں جماعت میں ہونا چاہیے تھا۔ آپ کے والدین آپ سے ناراض ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں‘ آپ کے پڑھائی چھوڑ دینے پر آپ کے والدین ناراض نہ ہوں گے تو کیا خوش ہوں گے۔ ان کی ناراضی پر آپ کے ذہن میں ان کے خلاف نفرت اور انتقام کے جذبات کیوں پیدا ہو تے ہیں؟ ان کا تو کوئی قصور نہیں‘ ان سے انتقام لینے کا کیا مطلب؟ آپ اپنی غلطی کو جانتے بھی ہیں اور محسوس بھی کرتے ہیں لیکن اپنی غلطی کے سلسلے میں آپ کا اقدام یہ ہے کہ اپنے والدین سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ کا یہ فیصلہ صحیح نہیں‘ پڑھنے کا شوق ہے تو اپنے والدین سے اپنی غلطی پر ندامت کا اظہارکریں۔ آئندہ محنت سے پڑھائی کرنے کا عہد کریں اور اپنے عہد کو پورا کر کے دکھائیں‘ آپ کے والدین آپ کی یقین دہانی پر یقینا مان جائیں گے۔ چھوڑی ہوئی پڑھائی کی طرف دوبارہ رجوع کرنے کیلئے پندرہ سال کی عمر کوئی زیادہ عمر نہیں۔
ذہنی کرب میں مبتلا ہوں
٭میں نے نفسیات میں آنرز کیا ہے‘ ایم اے انگریزی کا طالب علم ہوں‘ مذہب سے دلی وابستگی ہے‘ والدین کا اکلوتا اور بہت ہی چہیتا بیٹا ہوں۔ دنیاوی عیش و آرام حسب ِ ضرورت مہیا ہیں۔ گھر کے ہر فرد کو میری خوشی اور آرام اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ا س کے باوجود میں ایک مسلسل ذہنی کرب میں مبتلا ہوں۔ اپنے ایک دوست کی رفاقت کا جذبہ دل میں اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ زندگی کے باقی سارے معمولات بالکل تلپٹ ہو کر رہ گئے ہیں۔ صحت تشویشناک حد تک گر چکی ہے۔ رات خدا کے حضور جب کبھی سر بسجود ہوتا ہوںتو یوں محسوس ہوتا ہے میری ساری مایوسیوں‘ نامرادیوں اور پریشانیوں کا یکسر خاتمہ ہو گیا ہے۔ خود اعتمادی پوری طرح جوبن پر ہوتی ہے لیکن طلوع آفتاب کے ساتھ ہی ایک بار پھر مایوسی اور ناکامی کی یلغار ہونے لگتی ہے اور بد گمانی ‘ شکوک و شبہات اور بے یقینی کی ایک کربناک فضا چھا جاتی ہے۔ میں نے دوسری چیزوں میں اپنا دھیان لگانے کی بڑی کوشش کی ہے مگر کسی شے میں دلچسپی محسوس نہیں ہوتی‘ تمام تر توجہ اور دلچسپی کا مرکز اس دوست کی ذات ہے‘ قلب و نظر میں صرف اسی کی شخصیت سمائی ہوئی ہے اگر اس تعلقِ خاطرمیں اضافے اور ترقی کا یہی عالم رہا تو ڈر ہے کہیں اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھوں۔ (م‘ س‘ ارشد۔ راولپنڈی)
جواب:۔آپ اپنے والدین کے اکلوتے اور بہت ہی چہیتے اور لاڈلے فرزند ہیں۔ اکلوتے بچوں اور خصوصاً اکلوتے بیٹوںکو والدین سے بہت زیادہ محبت ملتی ہے چونکہ یہ محبت بلا شرکت غیرے تمام تر اکلوتے بچے ہی کیلئے ہوتی ہے‘ اس کا بچے کی بعد کی زندگی پر ہمیشہ گہرا اور کبھی کبھی مضر اثر ہوتا ہے۔ آپ کی موجودہ زندگی میں یہی اثر کار فرما ہے۔ اپنے دوست کیلئے بے پناہ دلچسپی آپ کے اکلوتے پن کا نتیجہ ہے۔ آپ اپنے دوست کی شخصیت سے اپنے اس نفسیاتی خلاءکو پر کر رہے ہیں جسے آپ بچپن سے لے کر آج تک محسوس کرتے رہے ہیں لیکن آپ کا یہ تعلق ِ خاطر آپ کے لئے بارِ خاطر بن رہا ہے۔ اپنے دوست سے اپنی توجہ بے شک نہ ہٹائیں لیکن صرف اپنے دوست ہی کو اپنی توجہ کا مرکز نہ بنائیں۔ اکلوتے پن سے پیدا ہونے والے نتائج کا علاج یقینا دوستی میں مضمر ہوتا ہے لیکن اگر علاج مرض سے زیادہ تکلیف دہ ہو جائے تو وہ صحیح معنوں میں علاج نہیں رہتا بلکہ مرض بالائے مرض بن جاتا ہے۔ آپ کچھ اور دوست بھی بنائیں ایسا کرنے سے آپ کی توجہ اور دلچسپی میں توازن پیدا ہو گا اور یہ توازن آپ کیلئے تسکینِ خاطر کا باعث بنے گا۔ آپ خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو خدا پر ایمان رکھتا ہو وہ کبھی اپنے اکلوتے پن یا اکیلے پن سے پریشان نہیں ہوتا کیونکہ وہ خدا کو ہمیشہ اپنے ساتھ سمجھتا ہے ۔ آپ اپنی رات کی کیفیات کی مدد سے اپنے دن کی کیفیات کی تصحیح کریں۔ اگر خدا تعالیٰ پر ایمان رات کے وقت آپ کے شکوک و شبہات اور خوف و ہراس کو دور کر سکتا ہے تو یقینا دن کے وقت بھی یہ ممکن ہے۔ اسلام کے مستقبل کے بارے میں آپ ہرگز مایوس نہ ہوں۔ اسلام کے شیدائی کفر کی شدید سے شدید پھونکوں کے باوجود اس چراغ کو نہیں بجھنے دیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں