محترمحکیم صاحب ۔السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ماہنامہ عبقری ایک بہترین رسالہ ہے اس میں ہر قسم کے موضوعات پر مضامین شائع ہوتے ہیں اور ہماری ذہنی و قلبی سکون کا باعث بنتے ہیں ‘ غرض یہ رسالہ بے پناہ خوبیوں کا حامل ہے۔ عبقری رسالہ ہم گھروالوں کا پسندیدہ رسالہ ہے۔ اپریل 2009 کا عبقری جب ہاتھوں میں آیا تو ایک مضمون پڑھ کر یقین ہی نہیں آیا کہ یہ عبقری کا مضمون ہے۔ اس میں تو کبھی ایسا مضمون نظر سے نہیں گزرا جس سے کسی کی دل آزاری ہو ۔ یہ تو دلوں کو سکون دینے والا رسالہ ہے۔ پھر خیال ہوا کہ ہو سکتا ہے مزاح کے خانہ میں شاید یہ مضمون ہو (اور حقیقتاً ایسا ہی تھا)۔مضمون کا نام ہے ” آئیے بیوی کا خانہ خراب کریں“۔ شمارہ نمبر 34 اور یہ مضمون غالباً شمارہ جون 2008 ” شوہر کا خانہ خراب کیجئے“ کے جواب میں تحریر کیا گیا ہے۔ حکیم صاحب ان دونوں مضامین کو پڑھ کر میرے ذہن میں بھی چند بے ربط جملے گردش کرنے لگے اور اللہ کا نام لے کر لکھنے بیٹھ گئی ‘ میرا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا یا تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے جذبات و احساسات کا احاطہ ہے۔ اپنی اصلاح کیلئے اکثر آپ کو خطوط لکھتی رہتی ہوں آج پہلی بار عبقری کیلئے قلم اٹھا رہی ہوں اورآئندہ بھی اللہ کے فضل و کرم اور آپ کی دعاﺅں سے کوشش کرتی رہوں گی۔
٭ شادی خانہ آبادی ہے اور اس مقدس رشتے سے انسان ایک نئے گھر کی بنیاد رکھتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے بلکہ اس دنیا میں انسان کا پہلا رشتہ ہی میاں بیوی کا رشتہ تھا جو کہ ابا آدم اور اماں حوا سے شروع ہوا اور نسل انسانی کی بقاءکا ذریعہ بنا۔ اللہ پاک نے مرد کو جہاں حاکم اور سربراہ بنایا ہے وہیں عورت کو بھی گھر کی ملکہ قرار دیا ہے اور اس کے بھی حقوق مقرر کر کے مرد کے لئے فرائض مقرر کئے ہیں۔ مرد اگر سر کا تاج ہے تو عورت بھی پاﺅں کی جوتی نہیں ہے بلکہ اللہ پاک نے مرد کیلئے اس کی بیوی کو ” بہترین نعمت“ قرار دیا ہے۔ یعنی مرد و عورت دونوں زندگی کی گاڑی کے دو ایسے پہئے ہیں جو منزل مقصود تک صحیح و سالم پہنچنے کیلئے ضروری ہیں اور ان کا مضبوط ہونا نہایت ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھنا اور ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس گاڑی کو چلانے کیلئے محبت ‘ خلوص اور ہمدردی کا پٹرول ہونا ضروری ہے۔
مرد اگر حاکم ہے تو اس کو اپنی حاکمیت جائز کاموں یعنی دین کی اطاعت پر صرف کرنی چاہیے نہ کہ دنیاوی لحاظ سے حاکم بنا رہے اور اپنی دنیاوی ضروریات بزور حکم پوری کرواتا رہے بلکہ اسے اپنی حاکمیت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کو جہنم سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ قرآن پاک میں ایک جگہ ارشاد ہے کہ : ” اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاﺅ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں“ ( سورة التحریم آیت نمبر 6)
اور عورت گھر کی ملکہ ہونے کے ناطے گھر اور شوہر کا خیال رکھتے ہوئے بچوں کی پرورش اس طرح کرے کہ وہ اسلام اور دین پر عمل پیرا ہو سکیں اور اپنے والدین کیلئے صدقہ جاریہ بن سکیں۔ کیونکہ ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔
اسلام نے جہاںعورت پرفرائص اور ذمہ داریاں عائد کی ہیں وہیں اس کے حقوق مقرر کر کے بتا دیا کہ یہ بھی انسان ہونے کے ناطے اپنے حقوق لئے ہوئے ہے۔ اس کے جذبات و احساسات کا اپنے سے بھی زیادہ خیال رکھا جائے کیونکہ وہ مرد کے زیر سرپرستی ہوتی ہے اور صنف نازک ہونے کے ناطے نازک احساسات کی مالک ہوتی ہے۔ ذرا سی بات سے اس کی دل شکنی ہو جاتی ہے اورذرا سی حوصلہ افزائی سے اس کی ہمت بندھ جاتی ہے۔ بلکہ عورت کو تو ایک آبگینہ سے تشبیہ دی ہے کہ ان کا خیال رکھو۔ ایک موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” تمہاری دنیا میں میری محبوب ترین چیز بیوی اور خوشبو ہے“ ۔ (بحوالہ خواتین کے بناﺅ سنگھا ر اور لباس کے شرعی احکام )
ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ یہاں کی عورت پہلے ہی پسی ہوئی ہے شادی سے پہلے اور شادی کے بعد وہ مرد ہی کی مرہون منت رہی ہے اور مرد اس کیلئے ایک سائبان کی صورت ہے۔ شادی سے پہلے وہ باپ اور بھائی کیلئے اپنے فرائض انجام دیتی ہے۔ باپ کی فرمانبردار اور بھائی کی خیر خواہ ہے تو شادی کے بعد شوہر کی بہترین ساتھی اور رفیق ہے اور اپنے بچوں کیلئے سراپا شفقت ہے۔ جہاں ان رشتوں کے لئے اس کے ساتھ بہت سے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں وہیں اسلام نے اس کے حقوق مقرر کر کے اس کی ذہنی آسودگی کا بھی اہتمام کیا ہے اور اگر وہ اپنے فرائض سے رو گردانی کرے تو دنیا و آخرت دونوں میں پریشان اور رسوا ہو گی۔ اس کی دنیا چار دیواری کے اندر ہے اور اس کا دائرہ کار اس کی گھریلو ذمہ داریاں ہیں اور اگر وہ مرد کی برابری کا دعویٰ کرتے ہوئے گھر سے باہر نکل کھڑی ہوتی ہے تو نہ صرف وہ دنیاوی طور پر پریشان ہو گی بلکہ اپنی آخرت بھی برباد کرے گی۔
کہنے کامقصد یہ ہے کہ زیر نظر مضمون جس مضمون کے جواب میں تحریر ہوا ہے کہ ” شوہر کا خانہ خرا ب کریں“ (شمارہ جون 2008ئ) تو چلو اس کا اثر اتنا زیادہ محسوس نہیں ہوا کہ عورت مردکا کچھ نہیں بگاڑ سکتی بلکہ ہمارے معاشرے کی پڑھی لکھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بھی مرد کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اور چند ایک جو مرد کو اپنے زیر اثر کرنا چاہتی بھی ہیں تو خود اپنا نقصان کرتی ہیں اور یہ نقصان نہ صرف دنیاوی ہوتا ہے بلکہ آخرت کا بھی عذاب سمیٹ لیتی ہیں اور وہ شوہر کی برتری کا انکار کر کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کا انکار کرتی ہیں۔ جب عورت کیلئے یہ طے ہے کہ وہ مرد سے ہر لحاظ سے کمزور ہے تو پھر برابری کا دعویٰ بالکل غلط ہے اور اس دعویٰ کے نتیجے میں گھر بگڑتے ہیں‘بنتے نہیں ہیں اور شادی گھر بسانے کا نام ہے ‘ گھر بگاڑنا یا اجاڑنا شادی نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک جائز چیزوں میں سے سب سے مبغوض عمل ” طلاق“ ہے۔
مرد عورت دو الگ الگ صنف ہیں‘ ان میں اختلاف ہوہی جاتا ہے لیکن اس کو اگر صبر اور درگزر سے برداشت کیا جائے تو نہ صرف دنیاوی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ اُخروی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ انسان بندہ بشر ہے۔ غلطی اور کوتاہیاں ہوہی جاتی ہیں لیکن ایک دوسرے سے احسن طریقے سے بات کر کے اس کو دور کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ بات ایسی ہو کہ جس کا حل ممکن نہ ہوتو اللہ رب العزت سے دعا مانگیں وہ ضرور اس کا حل فرمائیں گے لیکن اگر ایک دوسرے کی زیادتی کے بدلے میں دوسرے فریق سے ضد پر اتر آئیں اور بدلہ لینے کی ٹھان لیں کہ شوہر کہے کہ میں تو کسی سے کم نہیں ہوں اوراینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا ‘ میں تو اس کا ایسا خانہ خراب کروں گا کہ ہمیشہ یاد رکھے گی اور بدلے میں بیوی بھی خدانخواستہ شوہر کا خانہ خراب کرنے پر تل جائے تو نہ صرف پورا گھرانہ متاثر ہوگا بلکہ اس سے وابستہ کئی افراد بلکہ کئی خاندان متاثر ہوں گے۔ اللہ پاک ہمیں دین اسلام پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق دے اور خانہ آبادی کرتے ہوئے ایک مسلم معاشرہ تشکیل دینے کی توفیق دے تاکہ خانہ بربادی یا خانہ خرابی نہ ہو بلکہ خانہ آبادی ہو۔ آمین۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں