خاندانی حالات و علم و فضل
حضرت مخدوم شیخ بہاﺅالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ خاندان سہروردیہ کے بڑے بزرگ اور عارف کامل گزرے ہیں۔ حافظ‘ قاری‘ محدث‘ مفسر‘ عالم‘ فاضل‘ عارف‘ ولی سب کچھ تھے‘ ایشیا بھر میں شہرہ تھا۔ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ اکابر و اعظم اولیاءایشیا میں سے ہیں۔ ہندوستان کے اندر آپ ولیوں میں باز سفید کے نام سے مشہور تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نسبتاً قریشی ہیں۔ آپ 578ھ میں پیدا ہوئے۔ یہ عہد خسرو ملک غزنوی کا عہد تھا۔ بارہ سال کی عمر تک آپ رحمتہ اللہ علیہ ملتان میں ہی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ خراسان تشریف لے گئے۔ اسی عمر میں آپ رحمتہ اللہ علیہ حافظ و قاری ہو گئے تھے۔ اپنے والد گرامی کے انتقال کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ نے محض حصول علم و فن کیلئے پیادہ پا خراسان کا سفر کیا۔ اس کے بعد بلخ بخارا و بغداد اور مدینہ منورہ کے شہرہ آفاق مدارس میں رہ کر سند فضیلت حاصل کی۔ پانچ سال تک مدینہ منورہ ہی میں رہے جہاں حدیث پڑھی بھی اور پڑھائی بھی۔ غرض پندرہ سال اسلام کے مشہور مدارس و جامعات میں رہ کر مقعولات اور منقولات کی تکمیل کی۔ مدینہ منورہ ہی میں حضرت کمال الدین محمد یمنی محدث رحمتہ اللہ علیہ سے احادیث کی تصحیح کرتے رہے۔ جب پورا تجربہ حاصل ہو گیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ مکہ معظمہ میں حاضر ہوئے اور یہاںسے بیت المقدس پہنچ کر انبیاءکرام علیہم السلام کے مزارات کی زیارات کیں۔ اس عرصہ میں نا صرف یہ کہ آپ علوم ظاہر کی تکمیل میں مصروف رہے بلکہ بڑے بڑے بزرگان دین اور کاملین علوم باطنی کی صحبتوں سے بھی فیض یاب ہوئے۔ بڑے بڑے مشائخ سے ملے۔ فیوض باطنی حاصل کئے اور پاکبازانہ و متقیانہ زندگی بسر کرتے رہے۔ جس وقت آپ بغداد شریف وارد ہوئے تو ایک جید عالم تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرقہ خلافت دلایا
بیت المقدس سے مختلف بلاد مشائخ اور مزارات کی زیارت کرتے ہوئے مدینة العلم بغداد میں آئے تو اس وقت حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کی ذات گرامی مرجع خلائق بنی ہوئی تھے۔ بڑا دربار تھا ‘ بڑا تقدس ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھتے ہی فرمایا باز سفید آ گیا۔ جو میرے سلسلہ کا آفتاب ہو گا اور جس سے میرا سلسلہ بیعت وسعت پذیر ہوگا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ادب سے گردن جھکائی۔ شیخ رحمتہ اللہ علیہ نے اسی روز حلقہ ارادت میں لے لیا اور تمام توجہات آپ کی طرف مرکوز تھیں۔ صرف سترہ روز بعد درجہ ولایت کو پہنچا کر باطنی دولت سے مالا مال اور خرقہ خلافت عطا کر کے رخصت کر دیا۔
خانقاہ شیخ الشیوخ تو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی روحانی یونیورسٹی تھی جس میں ہر وقت اور ہمیشہ درویشوں اور طریقت والوں کا ہجوم رہتا تھا۔ اس وقت اور بھی بہت سے بزرگ ان کی خدمت میں موجود تھے۔ جو مدت سے خرقہ خلافت کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے جو دیکھا کہ مخدو م بہاﺅالدین رحمتہ اللہ علیہ کو آتے ہی خلافت بھی مل گئی اورہم تو برسوں سے خدمت کر رہے ہیں‘ اب تک یہ مرتبہ حاصل نہ ہوا اور یہ نوجوان چند روز ہی میں کمال کو پہنچ گیا۔ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ نے الحمد للہ نور باطن سے معلوم کر کے فرمایا کہ تم بہاﺅ الدین رحمتہ اللہ علیہ کی حالت پر کیا رشک کرتے ہو وہ تو چوبِ خشک تھا جسے فوراً آگ لگ گئی اور بھڑک اٹھی۔ تم چوبِ تَر کی مانند ہو جو سلگ سلگ کر جل رہی ہے اور جلتے جلتے ہی جلے گی۔ پھر سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ تمام امور‘ فضل الٰہی پر منحصر ہیں۔ سترھویں شب ہی کو مخدوم صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا آراستہ مکان ہے جو انوار تجلیات سے جگمگا رہا ہے ‘ درمیان میں تخت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہیں۔ دائیں جانب حضرت شیخ الشیوخ دست بستہ مودب کھڑے ہیں اور قریب ہی چند خرقے آویزاں ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخدوم صاحب کو سامنے بلایا اور ہاتھ پکڑ کر اسے حضرت شیخ الشیوخ کے ہاتھ میں دے دیا اور فرمایا کہ میں اسے تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ ان خرقوں میں سے ایک خرقہ بہاﺅالدین کو پہنا دو۔ چنانچہ انہوںنے تعمیل حکم کے طور پر آپ کو ایک خرقہ پہنا دیا۔
صبح ہوتی ہے حضرت شیخ الشیوخ نے آپ کو بلایا اور فرمایا کہ رات کو جو خرقہ عطا ہوا ہے وہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ آپ نے وہ خرقہ پہنایا اور حکم دیا کہ اب ملتان پہنچ کر ہدایت خلق میں مصروف ہو جاﺅ ۔ یہ تھا حضرت مخدوم صاحب کا مرتبہ کہ ستر ہ روز میںخلافت ملی ‘ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی‘ سب کچھ دکھا کر ملی ‘ گویا آپ کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتان میں پنجاب ‘ سندھ اور سرحد میں روشنی پھیلانے کیلئے متعین کیا تھا۔
دار الاسلام ملتان کا سہروردی مدرسہ
ملتان دارالسلام تھا۔ اتنے عرصہ میں فضا اور بدل چکی تھی۔ حالانکہ آپ یہیں کے رہنے والے تھے مگر پھر بھی چونکہ آپ صاحب ولایت اور بااقتدار اور باکمال ہو کر آرہے تھے اس لئے مشائخین ملتان کو آپ کا ملتان آنا ناگوار گزرا۔ انہوں نے دودھ کا پیالہ آپ کے پاس بھیجا جس کا مقصد یہ اشارہ تھا کہ یہاں کا میدان پہلے ہی سرسبز ہے اور ملتان میں آپ کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ آپ نے اشارہ سمجھ کر دودھ کے بھرے پیالے میں ایک گلاب کاپھول ڈال کر بھیج دیا۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ گو کہ یہ پیالہ لبالب ہے، یہاں جگہ نہیں مگر میں مثل اس پھول کے یہاں رہوں گا اور میرے رہنے سے نہ کسی کی جگہ پر اثر پڑے گا نہ کسی پر بار رہوں گا۔ آپ 614ھ میں ملتان پہنچے اس وقت آپ کی عمر 36‘37 برس کی تھی۔ آپ نے ملتان پہنچ کر ملتان کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اس کی شہرت کو ہمدوش ثریا بنا دیا۔ آپ نے عظیم الشان مدرسہ رفیع المنزلت خانقاہ و عریض لنگر خانہ ‘ پر شکوہ مجلس خانہ اور خوبصورت عالی شان سرائیں اور مساجد تعمیر کرائیں۔ اس وقت ملتان کا مدرسہ ہندوستان کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا جس میں جملہ علوم منقول کی تعلیم ہوتی تھی ۔ بڑے بڑے لائق اور وحید العصر معلم پروفیسر اس میں فقہ و حدیث، تفسیر قرآن ‘ ادب‘ فلسفہ و منطق ریاضی و ہیت کی تعلیم دیتے تھے۔نہ صرف ہندوستان بلکہ بلاد ایشیاءعراق شام تک کے طلباءاس مدرسہ میں زیر تعلیم تھے۔ طلباءکی ایسی کثرت تھی کہ ہندوستان میں اس کی کوئی نظیر نہیں تھی۔ لنگر خانہ سے دونوں وقت کھانا ملتا تھا ۔ ان کے قیام کیلئے سینکڑوں حجرے بنے ہوئے تھے۔ اس جامعہ اسلامیہ نے ایشیا کے بڑے بڑے نامور علماءو فضلا پیدا کئے ‘ ملتان کی علمی و لٹریری شہرت کو فلک الافلاک تک پہنچا دیا۔
آپ کا وصال 666ھ میں اٹھاسی سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت خواجہ غریب نواز 633ھ حضرت قطب الاقطاب 633ھ حضرت بابا صاحب 666ھ اور حضرت مخدوم صاحب 666ھ میں وصال پا گئے، یہ عہد کتنا مبارک عہد تھا۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 031
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں