سخت سردی کے دنوں میں رمضان المبارک کی 13 تاریخ‘ سحری کے وقت میری پیدائش ہوئی۔یہ ہمارے آبائی قدیمی گھر کا وہ کمرہ تھا جس کے بارے میں واضح یقین تھا کہ یہاں نیک صالح جنات کا وجود ہے جو کہ ہر وقت ذکر اعمال اوروظائف کرتے رہتے ہیں۔ شعور سے قبل بس اتنا یاد ہے کہ کچھ باپردہ خواتین اورصالح شکل بزرگ مجھے بہلاتے‘ مجھ سے کھیلتے ‘مجھے میٹھی اور لذیز چیزیں کھلاتے ۔بعض اوقات والدہ مرحومہ خود حیران ہو جاتیں کہ یہ دودھ نہیں پیتا کیونکہ پیٹ پہلے سے بھرا ہوا ہوتاتھا۔
بقول والدہ مرحومہ کے کئی بار ایساہوا کہ وہ مجھے جھولے میں سلا کر گئیں واپس آئیں تو جھولا خالی تھا۔ بہت پریشان ہوئیں‘ کئی گھنٹوں پریشان اور رو رو کر بدحال ہو گئیں پھر دیکھا کہ میں جھولے میں سو رہا تھا اور خوشبو سے رچا بسا۔ پہلے والا لباس نہیں تھا بہت خوبصورت بیل بوٹے والا لباس زیب تن تھا منہ میںکوئی میٹھی چیز لگی ہوئی تھی جیسے کوئی میٹھی چیز کھلائی گئی ہو۔
یہ معمہ کتنے دن حل نہ ہوا۔ طرح طرح کے انوکھے واقعات ہوتے رہے۔ کبھی میں نے بستر پرپیشاب اور اجابت نہ کی۔ جب حاجت ہوتی تو خوب روتا یا پھر دوست جنات میری حاجت صاف کر دیتے تھے۔ اماں حیران ہوتی کہ بچے کو کس نے غسل دیا کس نے نہایت چمک دار سرمہ لگایا، کس نے خوشبو لگائی، آخر یہ خدمت کس نے کی۔ بعض اوقات میں سورہا ہوتااوروالدہ مرحومہ کام کررہی ہوتی تھیں۔ بھوکا ہونے کی وجہ سے جب میں روتا اورکام میں مصروف والدہ جب تھوڑی دیر بعد پہنچتیں تو میرے ہونٹوں پر دودھ لگا ہوتااور میں پھرسے پُرسکون نیند سورہا ہوتا تھا۔ یہ تمام واقعات مختلف اوقات میں شعور میں آنے کے بعد والدہ مجھے سناتی تھیں۔ اگر کوئی بچہ مجھے مارتا تو وہ ضرور بیمار ہوتا یا پھر کوئی غیبی سزا یاکم ازکم تھپڑ ضرور مارا جاتا جس کاواضح نشان اس کے جسم پر ہوتا۔ اگر مجھے کوئی جھڑکتا حتیٰ کہ محبت میں بھی تو اس کا کوئی نقصان ہوتا ۔ پھرخواب میں اسے کہا جاتا کہ تم نے ہمارے دوست کومارا تھا اس لیے تمہارا یہ نقصان ہوا یا سزا ملی۔ والدہ بتاتی ہیں کہ ایک بار ایک قریبی رشتہ دار مجھے اپنے گھر محبت سے اٹھا کر لے گئے۔ پہلے تو میں خوشی خوشی چلا گیا پھر رونا شروع کر دیا ۔ظاہر ہے بچے کو ماں نظر نہ آئے تو وہ ضرور روتا ہے ۔جب زیادہ رویا تو تھوڑی دیر میں بچہ غائب تھا اور ان لوگوں کو نظر نہ آیا۔ اب وہ پریشان کہ ہم بچے کی ماں کو کیا جواب دیں گے؟ ڈھونڈتے ڈھونڈتے پریشان ہو گئے لیکن بچہ نہ ملا۔ پریشان حال میرے گھر پہنچے تو میں خوش و خرم کھیل رہا تھا وہ حیران کہ تین گلی دور یہ چند سالوں کا بچہ کیسے چل کر آگیا۔چونکہ والدہ کو کئی بار خواب میں اور ظاہر طور پر وہ صالح جن جنہیں میں حاجی صاحب کہتا تھا ‘بچے سے محبت اور خدمت کا بتا چکے تھے والدہ فوراً سمجھ گئیں اور بات گول کر گئیں۔ مزید بچپن کے واقعات تحریر کے دوران بتاتا رہوں گا جو کہ میں نے والدہ مرحومہ سے سنے اور بعد میں خود مجھے نظر آئے اور اب تک آرہے ہیں۔
میں ابھی آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ ایک رات حاجی صاحب نے آکر مجھے پیار سے جگایا اور فرمایا چلو میرے ساتھ ۔پھر حاجی صاحب کی نورانی شکل یکایک بدل گئی اور وہ ایک ایسے خوبصورت پرندے کی شکل میں تبدیل ہو گئے جس کے پر اتنے لمبے شاید کسی بڑے جہاز کے پروں سے بھی بڑے۔ میں ان کی گردن پرپروں سے پکڑ کر بیٹھ گیا۔ فرمایا ڈرنا نہیں تمہیں ہزاروں خوفناک مناظر نظر آئیںگے۔ اب حاجی صاحب نے ا ڑنا شروع کر دیااتنا اونچے اڑے کہ اوپر اندھیرا ہی اندھیرا تھا بہت دیر تک نہایت تیزرفتاری سے اڑتے رہے ۔پھر ایک جگہ بہت سے لوگوں کا اجتماع تھا ‘ مجھے وہاں چھوڑا۔ حاجی صاحب کی وہاں بہت عزت ہوئی۔ ایسے محسوس ہوا جیسے وہ وہاں کے سردار یا بڑے ہیں۔ مجھے بہت عزت اور محبت دی گئی۔ ایک جگہ کچھ لوگ ایک مخصوص قرآنی آیت کا ورد کررہے تھے۔حاجی صاحب مجھے وہاںبٹھا کر چلے گئے ان لوگوںکا حلیہ کیسا تھا ‘میں بعد میں تحریر کروں گا جسے سن اور پڑھ کر آپ حیران اور پریشان ہو جائیں گے۔ میں بہت دیر تک اس آیت کو اس سارے مجمع کے ساتھ پڑھتا رہا ۔پھر لذیذ کھانے کھلائے ۔آخر میں ایک بہت بڑے بزرگ کی زیارت کیلئے لے جایا گیا جنہیں صحابی بابا کہہ رہے تھے بعدمیں پتہ چلا کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ ہیں اور اب تک بھی ان کی شفقت محبت اور فیضان مجھ پر ہے۔ انہوں نے سرپرہاتھ پھیرا اور دعا دی۔ پھرفرمایا یہ قرآنی آیت کی تاثیر تمہیں ہدیہ کرتا ہوں ۔جب بھی مجھے بلانا ہے سانس روک کر اسے پڑھناشروع کر دو اورتصور ہی میں اس کا ثواب مجھے بخشو ۔میں اسی وقت حاضر ہوں گا۔ پھر وہاں اور کئی حیرت انگیز واقعات ہوئے جو آئندہ اقساط میں بتاﺅںگا۔ انشاءاللہ ۔اس آیت کا پہلا تجربہ اس ملاقات کے چند دنوں بعد میں نے یوں کیا کہ آٹھویں جماعت کا رزلٹ آیا بورڈ کے دفتر سے گزٹ چند لوگ لائے اور رقم لے کر رزلٹ دیتے۔ رقم بھی میرے لیے کوئی مسئلہ نہیںتھا کہ میں ایک مالدار باپ کا بیٹا تھا لیکن اتنا بڑا ہجوم کہ میں صبح 9بجے کا گیا ہوا تھا اور 3بجے تک مجھے موقع نہ ملا۔ بھوک، پیاس اور انتظار نے مجھے نڈھال کر دیا۔ اچانک صحابی بابا کی آیت یاد آئی۔ میں نے اس ہجوم میں کھڑے ہو کر وہی آیت سانس روک کرپڑھی اور اس کا ثواب صحابی بابا کو ہدیہ کر دیا۔ بس کیا ہوا کہ میں نے دیکھا کہ سامنے صحابی بابا کھڑے ہیں ان کے ہاتھ میں موٹی سی ایک کتاب ‘وہی گزٹ ہے اور میرا رول نمبر نکال کرمجھے دکھایا ۔تسلی دی ‘ماتھے پر بوسہ دیا اور 5روپے کا نوٹ جس کی اس وقت بہت اہمیت سمجھی جاتی تھی دے کرکہا کوئی چیز کھا لینا اور غائب ہوگئے۔یہ پہلا واقعہ تھا صحابی بابا سے ملاقات کا۔ پھر اس وقت سے لے کر آج اس وقت تک نامعلوم کتنی بار صحابی بابا سے محبت، راز ونیاز اور ان کی شفقت سے فائدہ اٹھایا۔
جس دن میری والدہ فوت ہوئیں اس دن جنازے میں صحابی بابا تھے اور ان کے ساتھ 14لاکھ سے زیادہ جنات تھے۔ جنہیں میں نے ایک بے پناہ ہجوم کی شکل میں جنازے میں دیکھا۔ ان کی تعداد مجھے صحابی بابا نے بتائی۔ مزید بتایا کہ ہر جن نیک و صالح ہے جن کی اکثریت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے آئی ہے اور ہر ایک نے 70 ہزارکلمہ پڑھ کر آپ کی والدہ اور والد کو بخشا ہے۔انہوں نے جنازے کو کندھا دیا اور قبرستان تک پہنچایا۔ تین دن جنات کی اکثریت حاجی صاحب اور صحابی بابا سمیت گھر میں رہے۔ جب بھی والدین کی قبر پر جاتا ہوں تو یہ حضرات ساتھ ہوتے ہیں۔ ایک بار میں ایک قبرستان میں تھا یہ اسی سال سردیوں کی بات ہے۔ میں گھر سے کمبل لانا بھول گیا۔ قبرستان میں کھلی جگہ احساس ہوا کہ مجھے سخت سردی لگ رہی ہے ۔اتنی دور سے کمبل کیسے لے آﺅں؟آخرسوچ سوچ کر کیونکہ سخت مجبور ی میں صحابی بابا کو تکلیف دیتاہوں ‘وہ آیت پڑھی توحسب معمول صحابی بابا کمبل لیکر تشریف لائے اور میں نے اوڑھ لیا۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں