Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

والدین کا صبر اور قدرت کا فیصلہ

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2009ء

٭قبرستان میں فاتحہ خوانی کے لیے گئے۔ محرم میں ویسے بھی لوگ آتے جاتے ہیں۔ ایک قبر پر سانپ دیکھا۔ لوگ پاس گئے تو وہ اندر قبر میں چلا گیا۔ پڑھائی کروائی۔ مولوی صاحب کو لایا گیا۔ پھر بھی وہ سانپ نہ نکلا اندر چلا گیا۔ ہم چلے گئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی سانپ قبر کے اوپر تھا۔ اللہ سے معافی مانگی اور اس بندہ کی معافی کے لیے بھی درخواست کی اور ورثاءکو بھی کہا۔ کیونکہ یہ بندہ یتیموں، بیواﺅں کے زکوٰة کے پیسے کھاتا تھا۔ زکوٰة کمیٹی کا چیئرمین تھا۔ اللہ معاف فرمائے۔ آپ بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ ان کا نام عبداللہ ہے۔ ٭ماں باپ کا دل دکھانے اور اس کی سزا کا سچا واقعہ تحریر کر رہی ہوں۔ میرے سگے ماموں لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔ اللہ کی مہربانی اور والدین کی دعاﺅں سے میٹرک کے بعد ان کو پی،آئی،اے میں بڑی اچھی جاب مل گئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میڑک بہت تعلیم ہوا کرتی تھی۔ آج سے ۰۴ سال قبل کی بات ہے۔ میرے ماموں اور ممانی بڑی اونچی ہواﺅں میں ہوا کرتے تھے۔ مگر انکے والدین جو بہت ہی نیک، متقی اور پرہیزگار تھے،گجرات میں مقیم تھے۔ جب کبھی بھی گجرات اپنے والدین کے پاس آتے تو والدین کو خرچہ دینے میں بہت تکلیف ہوتی اور ہزاروں باتیں سناتے اور پھر خرچہ دیتے۔ والدین چپ چاپ برداشت کرتے اور زبان نہ کھولتے کیونکہ جوان بچیوں کو بیاہنے کی ذمہ داری ان پر تھی۔ نانا بڑھاپے میں بھی مزدوی کرتے اور گھر کی گزر اوقات ہوتی۔ نانا جان کے کل چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ سب کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ حسب ِتوفیق دنیاوی تعلیم بھی دلوائی مگر لاہور والے ماموں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ اپنی دولت کو خوب عیاشیوں میں اڑایا۔ ان کا گھر تک کرائے پر تھا۔ مگر وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ نوکری سے ریٹائرمنٹ ہوئی تو ساری عیاشیاں ختم ہو گئیں۔ اولاد نااہل نکلی۔ پنشن کی جمع پونجی بچیوں کی شادی پر لگا دی۔ ایک بیٹی دوبارہ اجڑ کر آ گئی۔ مکان ذاتی تھا نہیں۔ گجرات والے آبائی مکان سے جو حصہ ملا وہ بھی کاروبار میں لگایا مگر سب کچھ لوگ کھا گئے کہ اللہ کی مدد نہ ہو تو انسان کہیں کامیاب نہیں۔ کبھی ہمیں وہ پینڈو سمجھ کر بات نہ کرتے تھے۔ مگر اب حال احوال پوچھنے کے ساتھ ساتھ پیسے بھی مانگتے ہیں۔ ہم ان کی بہت مدد بھی کرتے ہیں مگر انسانوں کی مدد سے کیا ہوتا ہے۔ آج وہ خود بول کر کہتے ہیں کہ یہ میرے والدین کی خاموش بددعائیں مجھے لگ گئی ہیں کہ میں ہر طرف سے ناکام ہو گیا ہوں۔ یقین کریں حکیم صاحب! ان کے دونوں طرح کے حالات میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اس کے برعکس میری امی اور میرے ایک ماموں نے والدین کی بہت خدمت کی اور دونوں ہی دین اور دنیا میں شاد ہیں اور اولاد بھی کامیاب اور نیک ہے۔ سچ ہے والدین کا دل کبھی بھی نہیں دکھانا چاہیے۔ ورنہ دنیا ہی مکافات عمل ہے۔ (صفورا سلطانہ‘لالہ موسیٰ) ٭ہمارے گاﺅں میں ایک شخص رہتا ہے۔ اچھے خاصے مہنگے کپڑے پہنتا اور ہر وقت عیش و عشرت میں مبتلا، شراب کی محفلیں سجاتا۔ دوسروں کے گھروں کو اجاڑتا اور اپنے آپ بڑا بادشاہ سمجھتا تھا۔ تکبر اتنا کہ بس کیا بتائیں۔ حکیم صاحب! بہت مرتبہ ہمارے خاندان کو آپس میں لڑایا اور ایسا چھپا ہوا کردار ادا کیا جیسے وہ ہمارا خیرخواہ ہے۔ کافی دفعہ وہ اپنی پلاننگ میں کامیاب رہا۔ اب ہمارے ماموں کی شادی ہو رہی تھی۔ اس شخص کو گوارہ نہ ہوا کہ یہ خاندان آپس میں جڑ جائے۔ انہوں نے کافی تعویذ، گنڈے کروائے۔ کافی طور طریقے استعمال کیے کہ کسی طرح یہ رشتہ ٹوٹ جائے۔ لیکن اللہ تو اللہ ہے، وہ بادشاہ ہے۔ ہمیں پتہ چل گیا کہ یہ شخص ملوث ہو سکتا ہے لیکن محض شک بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے اور میرے سارے گھرانے نے اللہ سے رو کر یہ دعا مانگی کہ ”اے اللہ! جو بھی دشمن ہے اسے ظاہر کر کے سزا دے“ دعا قبول ہوگئی۔ جولائی کے مہینے میں اسے فالج کا حملہ ہوا ایسی حالت کہ پورے گاﺅں والے حیران اور پریشان کہ یہ اچانک کیا ہوا۔ اب وہ مفلوج ہے۔ دماغ پورا فٹ نہیں ہے۔ لیکن اپنی عادت سے پوری طرح باز نہیں آیا۔ خدا اسے ہدایت دے اور اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دے۔ (آمین) ٭حکیم صاحب! ایک شخص قبرستان سے مردوں کی ہڈیاں لے کر بیچتا تھا اور تعویذ بھی کرتا تھا۔ لوگوں کو بہت تنگ کر دیا تھا۔ لیکن آہ ایک ایسی تیز تلوار ہے کہ لوہے کو بھی کاٹتی ہے۔ لوگوں کی آہیں نکلتیں تھیں۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ دوران چلہ اس کی ایسی حالت ہوئی کہ بڑی آنکھیں اچانک چھوٹی ہو گئیں اور کئی ماہ وہ ٹھیک نہیں ہوا۔ کئی عامل آئے، کئی ڈاکٹرز آئے لیکن کچھ فرق نہیں پڑا ۔ بالآخر کسی اللہ والے نے انہیں یہ صلاح دی کہ خدا کے حضور استغفار کرو اور صدقہ خیرات کرو۔ ہو سکتا ہے کہ تمہیں معافی مل جائے۔ انہوں نے رو کر اللہ سے معافی مانگی اور نماز پڑھی، صدقہ و خیرات کی، اللہ نے اسے معاف کر دیا اور وہ بالکل ٹھیک ہو گیا۔ حکیم صاحب! ایسے قصے ہیں جن کو لکھتے وقت دل ڈرتا ہے کہ کہیں عیب جوئی نہ ہوجائے۔روہڑی کے قریب ایک گاﺅں میں گرمی کے موسم میں ایک شخص کی ماں نے باہر نماز پڑھنے کے بعد مصلےٰ پر ذکر کرنا شروع کیا۔ قریب ہی سوئے ہوئے ا س کے بیٹے نے ماں سے کہا کہ آہستہ پڑھو، میری نیند خراب ہو رہی ہے۔ ماں نے ذکر کرنا شروع کر دیا۔ بیٹے نے پھر کہا کہ سنتی نہیں کہ میری نیند خراب ہو رہی ہے۔ماں نے پھر بھی اللہ اللہ کرنا شروع کر دیا۔ بیٹے نے غصے میں آ کر ماں کو تھپڑ مارا اور ایسی آواز آئی کہ سارے جانوررسیاں چھڑا کر بھاگ گئے اور وہ شخص بالکل ہی برباد ہو گیا۔ نافرمان اولاد کا کیا حشر ہوتا ہے، یہ تو آپ خود ہی جانتے ہیں۔ ٭چند دن پہلے سکھر میں ہم اپنے پاس والے گاﺅں سے گاڑی کروا کر جامع مسجد سکھر میں ایک معروف عالم دین کا خطاب سننے کے لیے گئے۔ دو گھنٹے ایمان افروز خطاب سنا۔ خطاب سننے کے بعد واپسی کیلئے گاڑی والے کو فون کیا۔ لیکن وہ اپنے چکر لگا کے دو گھنٹے بعد آیا۔ خیرہم صبر کر کے چلنے کے لیے بیٹھ گئے۔ وہ جگہ جگہ سٹاپ کرتا آ رہا تھا ہم نے کہا حالات خراب ہیں۔ گاﺅں جانا ہے، جلدی کرو لیکن انہوں نے کوئی اثر نہیں لیا۔ میرے دوست اور کزن سے ان کا جھگڑا بھی ہوا۔ گاڑی کا مالک بھی ساتھ تھا۔ انہوں نے بھی گالیاں دیں۔ ہم نے صبر کیا اور وہ ہمیں اتار کر چلا گیا اور کہا کہ میں چھ لاکھ کی گاڑی میں آپ سے پچاس روپے لے کر نہیں جاﺅں گا۔ وہ چلا گیا۔ ہم بڑی مشکل سے وہاں سے واپس آئے۔ ایک ہفتہ بعد ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ڈرائیور کو نقصان ہوا اور گاڑی کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ چھ لاکھ کی گاڑی اب ڈیڑھ لاکھ میں بھی نہیں بک رہی۔ (غلام مرتضیٰ ، پنوں عاقل)
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 004 reviews.