حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ امت مسلمہ کے ان عظیم محسنوں میں سے ہیں جن کی محنت کے پھل سے آج تک امت فائدہ اٹھا رہی ہے۔ سادات یمن کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے امام بچپن ہی میں شفقت پدری سے محروم ہو گئے تھے۔ تعلیم کا آغاز کیا مگر یتیم اور معاشی حالت کے اعتبار سے کمزور گھرانے کا بچہ تعلیمی اخراجات کہاں سے لاتا، وہ خود فرماتے تھے۔ ”میں اپنی والدہ کی پرورش میں یتیمی کی زندگی گزار رہا تھا، والدہ کے پاس میرے معلم کو دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ میں نے معلم کو اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ ان کی عدم موجودگی میں میں بچوں کی نگرانی کروں گا۔“
لکھنے کے لیے ان کو کاغذ میسر نہیں تھا، ایک تھیلا پاس رکھا تھا، صاف قسم کی ہڈی تلاش کرتے اور اس پر لکھتے۔ جب وہ پر ہو جاتی تو اس کو تھیلے میں محفوظ کر لیتے۔ رات کو روشنی کے لیے چراغ کا انتظام ان کی طاقت سے باہر تھا، سرکاری دیوان چلے جاتے اور وہاں کی روشنی میں لکھتے۔
اللہ جل شانہ نے ان کو علم کی غیر معمولی محبت نصیب فرمائی تھی۔ ان سے پوچھا گیا۔ ”علم کے ساتھ آپ کی محبت کیسی ہے؟“ فرمانے لگے۔ ”جب کوئی نئی بات کان میں پڑتی ہے تو میرے جسم کا ہر ہر عضو اس کے سننے سے محظوظ ہوا چاہتا ہے۔“ پھر دریافت کیا گیا ”علم کے لیے آپ کی حرص کتنی ہے؟“ فرمانے لگے۔ ”سخت بخیل آدمی کو جتنی مال کی حرص ہوتی ہے۔“ پوچھا گیا۔ ”علم کی طلب میں آپ کی کیفیت ہوتی ہے؟“ فرمایا ”گمشدہ اکلوتے بیٹے کی ماں کی اپنے بیٹے کی طلب میں جو کیفیت ہوتی ہے۔“
کھانا کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھاتے تھے، ایک بار سیر ہو کر کھایا تو قے کر دی، فرماتے تھے۔ ”پیٹ بھر کر کھانے سے بدن بوجھل ہو جاتا ہے اور نیند آنے لگتی ہے۔“ رات میں نظام الاوقات کی پابندی تھی، تین حصے کر دیئے تھے، اول حصے میں لکھتے، دوسرے حصے میں نماز اور تیسرے حصے میں آرام کرنے کا معمول تھا۔
رمضان المبارک میں (60) ساٹھ بار قرآن پاک ختم کرنے کا معمول تھا۔ لایعنی اور بے فائدہ کاموں میں وقت کے ضیاع سے بچنے کی بڑی تاکید فرماتے۔ فرماتے تھے کہ غیر مفید کاموں سے بچنے سے دل پر نور چھایا رہتا ہے۔
مزنی کہتے ہیں کہ آخری بار جب بیمار ہوئے تو میں نے خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا۔ ”طبیعت کیسی ہے؟“ فرمانے لگے۔ میں اپنے بھائیوں کو الوداع کہنے والا ہوں اور دنیا سے سفر کے لیے پایہ ¿ رکاب ہو کر اپنی بداعمالیوں سے ملنے والا ہوں۔ معلوم نہیں میری روح کا ٹھکانہ جنت ہوگا کہ اس کو تہنیت پیش کروں یا جہنم ہوگا کہ اس کی تعزیت کروں۔“ پھر رونے لگے۔
(ق، شاہد، ڈی جی)
شیطان نے قے کر دی
حضرت امیہ بن محنشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک صحابی کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے بسم اللّٰہ پڑھے بغیر کھانا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ سارا کھانا کھا لیا۔ صرف ایک لقمہ باقی رہ گیا۔ جب وہصحابی اس آخری لقمے کو منہ کی طرف لے جانے لگے تو اس وقت انہیں یاد آیا کہ میں نے کھانا شروع کرنے سے پہلے بے دھیانی کی وجہ سے بسم اللہ نہیں پڑھی تھی اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ جب آدمی کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو کھانے کے دوران جب اس کو بسم اللہ پڑھنا یاد آئے تو اس وقت ”بِسمِ اللّٰہِ اَوَّلَہ وَ آخِرَہ “ پڑھ لے جب انہوں نے یہ دعا پڑھی تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر مسکرائے۔ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس وقت یہ کھانا کھا رہے تھے تو شیطان بھی ان کے ساتھ کھا رہا تھا۔ لیکن جب انہوں نے اللہ کا نام لیا اور ”بِسمِ اللّٰہِ اَوَّلَہ وَ آخِرَہ “ پڑھ لیا تو شیطان نے جو کچھ کھایا اس کی قے (الٹی) کر دی اور اس کھانے میں اس کا جو حصہ تھا، اس ایک چھوٹے جملے سے ختم ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس منظر کو دیکھ کر مسکرائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سکھائی کہ آدمی اگر کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آ جائے اس وقت ”بِسمِ اللّٰہِ اَوَّلَہ وَ آخِرَہ “ پڑھ لے اس کی وجہ سے اس کھانے کی بے برکتی ختم ہو جائے گی اور شیطان کا اس کھانے میںکچھ حصہ نہیں ہوگا۔ (ابوداﺅد شریف)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کھانا شروع کرنے سے پہلے ”بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم “پڑ ھ لیا جائے اور کہنے کو تو یہ معمولی بات ہے کہ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم“ پڑھ کر کھانا شروع کر دیا لیکن اگر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ اتنی عظیم الشان عبادت ہے کہ اس کی وجہ سے ایک طرف تو یہ کھاناعبادت اور ثواب کا ذریعہ بن جاتا ہے اور دوسری طرف اگر آدمی دھیان سے بسم اللہ پڑھ لے تو اس کی وجہ سے اللہ جل جلالہ کو پہچان لیتا ہے۔ کہ یہ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ پڑھنا حقیقت میں انسان کو اس طرف متوجہ کر رہا ہے کہ جو کھانا اس وقت موجود ہے یہ میری طاقت اور عقل کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی قدرت والی ذات کا دیا ہوا ہے۔ میرے بس میں یہ بات نہیں تھی کہ میں اس کھانے کا بندوبست کر لیتا۔ اس کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کر لیتا اور اپنی بھوک مٹا دیتا یہ محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور اس کا کرم ہے کہ اس نے مجھے یہ کھانا عطا کیا۔
حساب میں آسانی کے تین اسباب
حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا وہ یہ ہیں ۔ (1) جو تمہیںمحروم کرے تم اسے عطا کرو۔ (2) اور جو تم سے قطع تعلق کرے تم اس سے ملاپ کرو (3) اور جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کر و۔ (محمد اقبال عثمانی، جھنگ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں