یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کوئی بھی پولیس والا ہمارے دیہات میں آتا تمام مائیں اپنے بچوں کو گھروں میں چھپا لیتیں کہ پولیس والا پکڑ نہ لے اور پورے علاقہ میں سناٹا چھا جاتا۔ پولیس کے دو سپاہیوں کو اچانک پاکر مولوی صاحب گھبرا گئے
یہ واقعہ تقریباً 1959ء کا ہے۔ ضلع جھنگ موضوع حویلی لال میں مولوی اللہ بخش اور اس کا بیٹا غلام رسول دکان چلاتے تھے۔ کریانہ کی یہ دکان پورے علاقے میں سب سے بڑی تھی۔ مولوی اللہ بخش پابند صوم و صلوٰۃ ہونے کے علاوہ نہایت ایمانداری سے کاروبار کرتے تھے۔ ہر سال اپنے مال کا حساب کرکے زکوٰۃ نکالتے اور مستحقین میں تقسیم کرتے۔
دو سپاہیوں کی آمد اور مولوی صاحب کی گھبراہٹ
ایک دن باپ بیٹا دکان پر سودا دے رہے تھے کہ اچانک دو سپاہی دکان پر آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کوئی بھی پولیس والا ہمارے دیہات میں آتا تمام مائیں اپنے بچوں کو گھروں میں چھپا لیتیں کہ پولیس والا پکڑ نہ لے اور پورے علاقہ میں سناٹا چھا جاتا۔ پولیس کے دو سپاہیوں کو اچانک پاکر مولوی صاحب گھبرا گئے اور ان سے یوں مکالمہ ہوا:پولیس مین: مولانا صاحب! آپ کا کیا نام ہے؟
20 تولہ سونا اور 55تولہ چاندی غائب
مولانا صاحب: مجھے اللہ بخش کہتے ہیں۔پولیس مین: دکان میں یہ دوسرا آدمی کون ہے؟مولانا صاحب: یہ میرا بیٹا غلام رسول ہے۔پولیس مین: مولانا صاحب! آپ کا کوئی مال چوری ہوا ہے؟مولانا صاحب: جی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کوئی چوری نہیں ہوئی۔پولیس مین: اچھی طرح تحقیق کرلیں کوئی چیز چوری ہوئی ہوتو۔مولانا صاحب: (دکان چیک کرنے کے بعد) کوئی چوری نہیں ہوئی۔پولیس مین: گھر سے اپنے زیورات سونا چاندی چیک کریں۔مولانا صاحب: گھر جاتے ہیں اور سونے چاندی اور زیورات والا ڈبہ کھولتے ہیں ڈبہ خالی ہے تمام زیورات، سونا چاندی غائب ہے، گھبرا جاتے ہیں اور پریشانی کے عالم میں پولیس مین سے کہتے ہیں کہ ہائے میرا 20تولہ سونا، 55تولے چاندی اور تمام زیورات غائب ہیں)۔پولیس مین: مولانا صاحب بتائیں کہ زیورات کی کیا پوزیشن ہے؟
مولانا صاحب:میرا سونا، چاندی اور بچیوں کے زیورات غائب ہیں۔ صرف خالی ڈبہ پڑا ہے۔ پولیس مین: کیا آپ اپنے چوری شدہ مال کی تفصیل اور شناخت کی نشانیاں بیان کرسکتے ہیں؟۔مولانا صاحب تفصیل بتاتے ہیں اور پولیس مین مطمئن ہو جاتے ہیں اور ان کے سامنے ان کا چوری شدہ مال رکھ دیتے ہیں۔ ان سے کہتے ہیں کہ نمبردار علاقہ کو بلائو۔
آپ کو آخر یہ مال کیسے ملا؟
اس کی موجودگی اور شناخت میں آپ کا کھویا ہوا مال واپس کرتے ہیں۔ نمبردار صاحب آجاتے ہیں اور تحریر کرتے ہیں کہ میری موجودگی میں اتنا اتنا مال مولانا اللہ بخش نے وصول پایا اور مولانا صاحب سے بھی وصولی کے دستخط کراتے ہیں۔ پولیس مین کوئی انعام وصول نہیں کرتے نہ کرایہ مانگتے ہیں اور جانے کی تیاری کرتے ہیں۔
مولانا صاحب پولیس والوں سے تفصیل پوچھتے ہیں کہ آپکو یہ مال کیسے ملا؟ پولیس والے بتاتے ہیں کہ تمہارے چور نے اس وقوعہ کے بعد جھنگ صدر میں چوری کی اور رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ انہیں تھانہ صدر میں مارپیٹ کے بعد پوچھا گیا کہ تم نے اس سے قبل کہاں کہاں سے چوریاں کیں۔
حویلی میںجو چوری ہوئی وہ میں نے کی تھی
چور تمام چوریاں بتاتا ہے اور تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حویلی لال میں مولانا اللہ بخش کے ہاں جو چوری کی تھی وہ مال صحیح حالت میں موجود ہے۔ پولیس وہ سامان منگواتی ہے۔ انچارج تھانہ دو پولیس والوں کی ڈیوٹی لگاتے ہیں کہ تم وہاں جاکر تحقیق کرو اگر واقعی مولانا صاحب کا مال چوری ہوا ہے تو واپس کرآئو۔مولانا صاحب سجدہ شکر میں گر جاتے ہیں کہ میں ہر سال اپنے تمام مال کی زکوٰۃ ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے میرا مال گھر بیٹھے واپس بھجوادیا جس کی مجھے خبر تک نہ تھی نہ ہی کوئی ایف آئی آر کٹوائی تھی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں