گزشتہ دنوں مختلف شعبہ جات کی خدمت کرنے والوں سے میں ایک بات عرض کررہا تھا خدمت کا اول اور آخر صرف اور صرف ’’الف‘‘ سے ہے اور الف کیا ہے؟ پہلا ’’الف‘‘ احساس دوسرا ’’الف‘‘ایمانداری ان دونوں ’’الف‘‘ کے ساتھ ہی اگر خدمت کا سچا جذبہ ہو تو کبھی ناکامی نہیں ہوتی کیونکہ ’’الف‘‘ کے بغیر خدمت نامکمل اور بے یقینی ہے‘ خدمت کا یہ جذبہ احساس وقت کا احساس پیسےکا ‘احساس لمحوں کا احساس جس شعبہ اور جس خدمت میں ہم کام کررہے اس شعبہ اور اس خدمت کا سچا احساس‘ جب احساس ہماری زندگی میں بھر جائے گا تو پھر کرپشن نام کی چیز کبھی نہ سننے میں آئے گی‘ نہ بولنے میں آئے گی‘ نہ لکھنے میں آئے گی ہمارا ذہن ہروقت احساس اور ذمہ داری کو سوچتا اور پرکھتا رہے گا۔ یہی احساس پچھلی قوموں اور پچھلے کامیاب لوگوں میں تھا جنہوں نے پوری زندگی میں ترقی پائی اور پوری دنیا میں نام کمایا اور جب یہی احساس نسلوں سے چلا گیا پھر وہی لوگ تھے جن کو احساس دلانے کے لیے غیروں نے ان سے باتیں کیں‘ چاہے وہ میڈیا کے ذریعے یا اپنی بولی کے ذریعے۔ کامیاب زندگی کا پہلا قدم احساس ہے اور ناکام زندگی کا پہلا قدم بے حسی ہے۔ دوسرا لفظ ایمان ہے۔ ایمان واحد چیز ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے پھر کیمرے کی نظر اس کو دیکھ رہی اس سے زیادہ یقین اس کا ایمان پر ہوگا کہ ایمان وہ واحد طاقتور چیز ہے جو انسان کو اس سچے جذبے پر لاتی ہے کہ مجھے ایک دیکھنے والی طاقتور آنکھ دیکھ رہی اور مجھے پرکھنے والا طاقتور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پرکھ رہا۔ہماری زندگی کا قدم قدم احساس اور ایمان کے ساتھ اگر گزرے تو ایک ایسی ہستی جس کو اللہ کہتے ہیں اس سے ہمیں حیرت انگیز طور پر روشنی مدد اور فیضان ملے گا تو معلوم ہوا کہ اللہ کو پانے کے لیے اور ولایت کے آخری مقام کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ احساس اور ایمان ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں اکٹھی مل جاتی ہیں تو انسان کے اندر جس چیز کا مجموعہ پیدا ہوتا ہے وہی انسان مجموعہ کے اعتبار سے مومن کہلاتا ہے‘ مخلص کہلواتا ہے اور سچا کہلواتا ہے جسے صادق کہتے ہیں اور یہی دو چیزیں انسان سے نکل جاتی ہیں تو جو لفظ اور جو چیز اس کے اندر پیدا ہوتی ہے وہ جھوٹ اور کذب ہے۔ ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے سب سے پہلے میں خود اس کا محتاج ہوں کہ کیا جو میں خدمت کررہا ہوں‘ وہ گورنمنٹ کی نوکری ہے‘ پرائیویٹ نوکری ہے‘ کوئی شعبہ خدمت ایسا ہے جس میں مجھے معاوضہ لینا ہے یا معاوضہ نہیں لینا‘ میں گھریلو خادم ہوں‘ کسی فیکٹری میں ملازم ہوں‘ میں مسلمانوں کو کوئی خدمت کا شعبہ اور حصہ دے رہا ہوں‘ اس میں میرے اندر احساس اور ایمان کتنا ہے‘ ایک چوکیدار بیٹھا ہوا ہے‘ اسے علم ہے کہ صبح ہوگئی ہے لیکن اس نے تمام لائٹیں نہیں بجھائیں اور بجلی بند نہیں کی تو یہ اس کے اندر احساس اور ایمان کی کمی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ موٹرچل رہی‘ پانی زمین سے نکل کر ٹینکی کو بھر رہا پھر ٹینکی بھر گئی اور پانی باہر گررہا‘ ہرشخص اس کو دیکھ رہا اور مطمئن ہے‘ سرکاری نَل کھلا ہوا‘ پانی بہہ رہا لیکن میں مطمئن ہوں‘ میرے اندر احساس بیدار نہیں ہوا‘ بے حسی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ میں ایک مسجد میں نماز پڑھتا تھا‘ مغرب سے ہی مسجد کی تمام لائٹیں اتنی جلائی جاتیں کہ چیونٹی بھی رات کو نظر آتی تھی جہاں ایک لائٹ کی ضرورت تھی وہاں تیس سے زائد لائٹیں جلائی ہوئی تھیں‘ مسجد کے منتظم سے میں نے درخواست کی۔ کہنے لگے: اللہ کا گھر روشن ہونا چاہیے ‘آپ کو کیا تکلیف ہے؟ کچھ ہی عرصہ کے بعد ان صاحب کے گھر مجھے جانا ہوا تو بہت بپھرے ہوئے اور غصہ کے عالم میں باہر نکلے۔میں نے پوچھا خیریت تو ہے؟ کہنے لگے: ان کو احساس نہیں کہ اتنی لائٹیں جلاتےہیں اتنا بل آتا ہے‘ پانی کا پمپ اور موٹر چلتی رہتی ہے۔ میں نے کہا: گھر جگمگ ہونا چاہے‘ انہیں اپنی کہی ہوئی پرانی مسجد والی بات بھول گئی۔ کہنے لگے آپ بھی انوکھے بادشاہ ہیں‘ مہنگائی حد پر ہے‘ آمدنی کے ذرائع کم ہورہے ہیں‘ بجلی پر ٹیکس اور بل بڑھ رہے ہیں میں خاموش ہوگیا اور مجھے دکھ ہوا کیونکہ مسجد میں چندے کا مال ہے اور مال مفت دل بے رحم‘ یہ احساس اور ایمان کی کمی ہے جو ایک بولتا ثبوت ہمارے معاشرے میں مختلف انداز سے ہم پیش کرتے ہیں ہم زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ہیں اور کسی بھی انداز سے اپنی زندگی کو لے کر چل رہے بس اپنی زندگی میں احساس اور ایمان بہت زیادہ جگہ دیں اور توجہ دیں۔ ہماری زندگی احساس اور ایمان کے ساتھ زندہ و تابندہ رہے گی‘ وطن کی بدعنوانی بھی ختم ہوگی اور زندگی کی بدعنوانی بھی ختم ہوگی۔ اگر ہم اپنے من کو ‘دل کو‘ جذبوں کو اور اپنے معاشرے کو پرسکون اور شفاف بنانا چاہتے ہیں تو ہم پہلے اپنے آپ کو احساس اور ایمان کی مشق اور محنت پر لے آئیں پھر ایک ایسی ’’الف‘‘ جس کو ہم اللہ کہتے ہیں‘ ملے گی جو موت تک اور موت کے بعد تک ہمارے ساتھ رہے گی۔ آئیے! احساس اور ایمان کو آواز دیں اور احساس اور ایمان کو زندگی اور حیات دیں۔ احساس زندہ باد ایمان پائندہ باد۔ نوٹ: مومن سب سے پہلے ایمان کو دل میں پاتا ہے پھر یہی ایمان ہے جو احساس سطح کو آہستہ آہستہ بلند کرتا ہے اگر ایمان ہے تو ایمان پر محنت کریں کہ ایمان روز بروز بڑھتا چلا جائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں