حضرت حبیبہ عدویہ رضی اللہ عنہ جب نماز سے فارغ ہو جاتیں تواپنے کپڑے کو ا پنے اوپر لپیٹ کر چھت پر کھڑی ہو جاتیں اور دعا میں مشغول ہو جاتیں اور کہتیں ”یا اللہ ستارے چھٹ گئے اور لوگ سو گئے.... بادشاہوں نے اپنے دروازے بند کر دیئے اور ہر شخص اپنے محبوب کے ساتھ تخلیہ میں چلا گیا اور میں تیرے سامنے کھڑی ہوں“ یہ کہہ کر نماز شروع کر دیتیں اور ساری رات نماز پڑھتیں۔ جب صبح صادق ہو جاتی تو کہتیں یااللہ ! رات چلی گئی اور دن کی روشنی ہو گئی۔ کاش مجھے معلوم ہو جاتا کہ میری یہ رات تو نے قبول فرما لی تاکہ میں اپنے آپ کو مبارکباد دوں یا تو نے رد کر دی تاکہ میں اپنی تعزیت کروں۔ تیری عزت کی قسم! میں تو ہمیشہ اسی طرح کرتی رہوں گی تیری عزت کی قسم! اگر تو نے مجھے اپنے دروازے سے دھکیل دیا تب بھی تیرے کرم اور تیری بخشش کا جو حال مجھے معلوم ہے اس کی وجہ سے تیرے در سے نہیں ہٹوں گی۔
حضرت عجرہ رحمتہ اللہ علیہ نابینا تھیں، ساری رات جاگتیں اور جب سحر کا وقت ہوتا تو بہت غمگین آواز سے کہتیں یا اللہ! عابدوں کی جماعت نے تیری طرف چل کر رات کے اندھیرے کو قطع کیا۔ وہ تیری رحمت اور تیری مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ یا اللہ! میں صرف تجھ ہی سے سوال کرتی ہوں۔ تیرے سوا کسی دوسرے سے میراسوال نہیں ہے کہ تو مجھے سابقین کے گروہ میں شامل کر لے اور اعلیٰ علین تک پہنچا دے اور مقرب لوگوں کے درجہ میں داخل کر دے اور اپنے نیک بندوں میں شامل کر لے تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ ہر اونچے درجے والے سے بلند ہے، سارے کریموں سے زیادہ کریم ہے۔ اے کریم ....کہہ کر سجدہ میں گر جاتیںاور ان کے رونے کی آواز سنائی دیتی اور صبح تک روتی رہتیں اور دعائیں کرتی رہتیں۔
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں ایک دن بازار جا رہا تھا اور میرے ساتھ میری حبشی باندی بھی تھی۔ میں اس کو ایک طرف بٹھا کر آگے چلا گیا اور اس سے کہہ گیا کہ یہیں بیٹھی رہ میں ابھی آتا ہوں۔ جب میں واپس آیا تو وہ اس جگہ نہ ملی۔ مجھے بہت غصہ آیا اور اسی حالت میں گھر گیا جب اس نے مجھے غصہ میں دیکھا تو کہنے لگی میرے آقا غصہ میں جلدی نہ کرو۔ ذرا میری بات سن لو آپ مجھے ایسی جگہ بٹھا کر گئے تھے جہاں کوئی اللہ کا نام لینے والا نہیں تھا۔ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ جگہ زمین میں نہ دھنس جائے۔ (جس جگہ اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ ہو اس جگہ جتنی جلدی عذاب آجائے قرین قیاس ہے) اس کی اس بات سے مجھے بڑا تعجب ہوا میں نے اس سے کہا کہ تو آزاد ہے۔ کہنے لگی آقا تم نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا۔ میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگی کہ پہلے جب میں باندی تھی تو مجھے دوہرا ثواب ملتا تھا (جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جو غلام اللہ کی اطاعت کرے اور اپنے مالک کی خدمت کرے اس کیلئے دوہرا اجر ہے) اب آپ نے آزاد کر کے میرا ایک اجر ضائع کر دیا۔
حضرت خواص رحمتہ اللہ علیہ جو مشہور بزرگ ہیں ‘فرماتے ہیں کہ ہم حضرت رحلہ عابدہ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس گئے۔ وہ روزے رکھتے رکھتے کالی پڑ گئیں تھیں اور نمازیں پڑھ پڑھ کر (پاﺅں شل ہو گئے تھے جس کی وجہ سے ) اپاہج ہو گئی تھیں، بیٹھ کر نماز پڑھتی تھیں اور روتے روتے نابینا ہو گئی تھیں۔ ہم نے جاکر اللہ جل شانہ، کی رحمت اور معافی کا ذکر کیا کہ شاید ان کے مجاہدہ میں کچھ کمی آجائے۔ انہوں نے میری بات سن کر بہت زور سے ایک چیخ ماری پھر کہنے لگیں کہ جو مجھے اپنی حالت معلوم ہے اس نے میرے دل کو زخمی کر دیا ہے اور میرے جگر کو چھلنی کر دیا ہے۔ کاش! میں تو پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی۔ یہ کہہ کر انہوں نے نماز کی نیت باندھ لی۔ سبحان اللہ! کیا تقویٰ والی خواتین تھیں اللہ ہمارے معاشرے کی خواتین کو بھی ایسا ایمان نصیب فرمائے۔(آمین)
ایک آہ سے کنیز مر گئی
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ تجارت پیشہ تھے، لیکن ایک واقعہ سے متاثر ہو کر انہوں نے خلوت کی زندگی اختیار کر لی اور مال ودولت اللہ کی راہ میں خرچ دیا۔ کسب معاش کیلئے بغداد میں آئینہ سازی کی دکان قائم کر لی۔ وہ پردہ ڈال کر چار سو رکعت نماز اسی دکان میں روزانہ ادا کرتے رہے اور کچھ عرصہ بعد دکان کو خیرباد کہہ کر حضرت ”سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ“ کے مکان کے ایک حجرے میں گوشہ نشین ہو گئے اور تیس سال تک عشاءکے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے اور رات بھر عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ چالیس سال کے بعد یہ خیال ہو گیا کہ اب میں کامیابی تک پہنچ گیا ہوں۔ چنانچہ غیب سے ندا آئی کہ ”اے جنید اب وہ وقت آگیا ہے کہ تیرے گلے میں زنار ڈال دی جائے۔“ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کی کہ ”اے باری تعالیٰ مجھ سے کیا قصور سرزد ہو گیا ہے؟“
جواب ملا کہ تیرا وجود ابھی تک باقی ہے یہ سن کر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا کہ جو بندہ وصال کا اہل ثابت نہ ہوا اس کی تمام نیکیاں باطل ہو گئیں۔ اس کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کو فتنہ پردازوں نے سخت سست بھی کہا اور خلیفہ وقت سے بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شکایتیں کیں، لیکن خلیفہ نے کہا کہ جب تک ان کے خلاف جرم ثابت نہ ہو جائے سزا دینا مناسب نہیں۔ ان شکایات کی تصدیق کیلئے اورامتحان کی غرض سے ایک خوبصورت کنیز کو لباس اور زیورات سے سجا کے یہ ہدایت کر دی کہ ان کے سامنے پہنچ کر نقاب الٹ کر کہنا کہ ”میں امیر زادی ہوں، اگر آپ میرے ساتھ ہم بستر ہو جائیں تو میں آپ کو دولت وثروت سے مالا مال کر دونگی۔“ اور موقع کی نوعیت معلوم کرنے کیلئے ایک غلام بھی اس کنیز کے ہمراہ بھیج دیا۔
جب خلیفہ کی ہدایت کے مطابق اس کنیز نے اظہار مدعا کیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے سرجھکا کر ایک ایسی سرد آہ کھینچی کہ اسی وقت کنیز نے دم توڑ دیا۔ غلام نے آکر جب یہ واقعہ خلیفہ کو بیان کیا تو اس کو سخت صدمہ ہوا کیونکہ اس طرح کی بات اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی چونکہ وہ خود اس کنیز سے محبت کرتا تھا اس لئے بہت آزردہ اور دل گیر ہوا۔ اس نے کہا کہ جو فعل میں نے حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ سے کیا ہے وہ مجھے نہیں کرنا چاہئے تھا جسکی وجہ سے ایک جان کا ضیاع ہوا اور خفت الگ اٹھانا پڑی ۔ پھر اس نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا کہ ”آپ نے یہ بات کیسے گوارا کر لی کہ ایسی خوبصورت اور حسین ہستی کو دنیا سے رخصت کر دیا۔“ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ ”امیر المومنین کی حیثیت سے تمہارا فرض تو مومنین کے ساتھ مہربانی کرنا ہے۔ لیکن تم نے مہربانی کے بجائے میری چالیس سالہ عبادت کو ملیامیٹ کرنا کیسے گوارا کر لیا؟“ منقول ہے کہ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مراتب میں اضافہ ہوتا گیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے وعظ وتبلیغ کو اپنا شیوہ بنا لیا اور ایک مجمع میں فرمایا کہ میں نے وعظ گوئی اپنے اختیارات سے شروع نہیں کی بلکہ تین ابدالوں کے بے حد اصرار پر یہ سلسلہ شروع کیا اور میں نے تقریباً دو سو بزرگوں کے جوتے سیدھے کئے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 889
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں