عید ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ وہ خوشی خوشی نہیں جس میں پورے سماج کو شامل نہ کیا جائے آپ کے گھر میں مسرت کا چراغ جلے بلکہ چراغاں ہو اور آپ کا پڑوسی غم کی تاریکیوں میں ڈوبا ہو‘ اس سے زیادہ نا مبارک کوئی مسرت نہیں ہوتی
الحمدللہ!عید کا دن قریب آرہا ہے‘ خوشیوں اور مسرتوں کا دن‘ نئے خوبصورت رنگارنگ کپڑے ایک سماں باندھ دیتے ہیں‘ بڑے ‘ چھوٹے ‘ جوان ‘ بوڑھے ‘ معصوم ‘ بچے ‘ مرد ‘ اور عورت ہر ایک کے چہرے کھلے ہوتے ہیں‘ایک دوسرے کو مسکراہٹوں کی سوغات پیش کرتے ہوئے سویاں اور شیر خورما کی تو گویا برسات آجاتی ہے‘ بڑے ایک د وسرے سے بغل گیر ہیں اور ننھے منھے بچے گلی کوچوں میں کوئل کی طرح چہچہا رہے ہوتے ہیں اور رنگین و خوبصورت تتلیوں کی طرح اڑتے پھر رہے ہوتے ہیں لیکن عید کا حصال کیا صرف یہی ہے ؟ کیا عید محض ایک ساعت مسرت ہے جو آئے اور گزر جائے ؟ شاید ایسا نہیں۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ ہر عمل سے پیغام دیتا ہے عبرت و موعظت کے پہلوئوں کی طرف انسان کو متوجہ کرتا ہے اور زندگی کے ہر واقعہ کو مشعل راہ بنا دیتا ہے جس کی روشنی سے اندھے بھی دیکھنے لگیں اور لنگڑے بھی چلنے لگیں عبادت و بندگی ہو یا لوگوں کے باہمی معاملات اسلام کا ہر طریقہ بولتا ہوا عمل ہے کہ بہرہ بھی اس کو سننے سے محروم نہ رہے ۔
عید بھی سراپا پیغام ہے دعوت ہے‘ عید سب سے پہلے ہمیں اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ مسلمانوں کو خوشی اور مسرت کے لمحات کس طرح گزارنے چاہئیں غور کیجئے کہ مسلمان کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کا کوئی دن نہیں لیکن نہ رقص و سرور ہے‘ نہ نغمہ و رباب ہے اور نہ مستی و شراب ‘ نہ پٹاخوں کی اودھم ‘ نہ نعروں کا شور و غوغا ‘ نہ آتش بازیوں کا سیلاب بلکہ ہر مسلمان صبح دم اٹھتا ہے ‘نماز فجر ادا کرتا ہے پھر نہاتا ہے‘ صاف ستھرے اوراگر میسر ہوں تو نئے کپڑے بدلتا ہےا ور شانہ بشانہ نماز عید کے لئے رواں ہے‘ آنکھیں جھکی ہوئی اور زبان پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور حمد و ثنا کے کلمات عید گاہ پہنچ کر دوگانہ ادا کرتا ہے اور اپنی پیشانی اللہ تعالیٰ کے سامنے مٹی پر رکھ کر اپنے عجز و نیاز کا اظہار کرتا ہے‘ خوشی کے مواقع پر آدمی میں کسی قدر کبر کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اس لئے باربار اپنی بڑائی کی نفی اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اقرار و اعتراف کرتا ہے ۔
معلوم ہوا کہ اصل صاحب ایمان وہ ہے کہ جو خوشی و مسرت کے وقت اترانے نہ لگے اس کی گردن مارے کبر کے اونچی نہ ہو‘ اس کی زبان پر اپنی بڑائی کا کلمہ نہ ہو بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہوا ہو خوشی نے اس کے تواضع و انکسار کو بڑھایا اور اپنی بڑائی کے احساس کو گھٹایا اور اس وقت بھی اس کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اور اس کی پیشانی اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر خم ‘ شادی ‘ بیاہ ہو ‘ بچہ کی پیدائش ہو ‘ نیا مکان اللہ تعالیٰ نے دیا ہو ‘ دکان اور روزگار کا سامان میسر آیا ہو ‘ کوئی بات خوشی کی پیش آئی ہو تو مسرت کے اظہار کا وہی طریقہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے کہ مومن کا سر شکر کے جذبے سے سرشار ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جائے اور اس کی زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر اور حمد و ثنا سے تر ہو ۔ عید مسلمانوں کے لئے اجتماعیت اور وحدت کا بھی پیغام ہے‘ مال دار ہو یا غریب ‘ آقا یا غلام ‘ فرمانروا ہو یا رعایا ‘ سماج کا معزز اور معروف شخص ہو یا کوئی معمولی اور غیر معروف آدمی ‘ گورا ہو یا کالا اور عربی ہو یا عجمی ایک ساتھ شانہ بشانہ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہیں اور اس کے کرم کے سوالی ہیں یہاں کوئی امتیاز نہیں اللہ تعالیٰ کے دربار میں سب برابر ہیں ۔علامہ اقبال ؒ کے الفاظ میں :
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اس سے بڑھ کر مسلمانوں کے لئے وحدت کا اور کیا پیغام ہوگا؟یہ سب مسلمان ہیں کلمہ توحید پڑھنے والے رسول اللہ حضرت محمد ﷺ کے دامن نبوت سے وابستہ آخرت میں سب کا یقین قرآن مجید پر ایمان رکھنے والے ‘ جیتے اور مرتے ایک قبلہ کے حامل ‘ فکر و نظر کا کچھ اختلاف ضرور ہے لیکن اس کے باوجودعید کے دن یہ شانہ بشانہ اور قدم بقدم کھڑے ہوں گے ۔ کاش دوسرے دنوں میں بھی اس وحدت ملی کو محسوس کریں اور سوچیں کہ کس قدر دین کی بنیادی باتوں میں ان کے درمیان اشتراک و اتفاق ہے اور اگر کچھ اختلاف ہے تو اس لائق ہے کہ ان کو نظر انداز کیا جائے اور ایک دوسرے کی رائے کے احترام کے ساتھ ان کو برداشت کیا جائے ۔
عید ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ وہ خوشی خوشی نہیں جس میں پورے سماج کو شامل نہ کیا جائے آپ کے گھر میں مسرت کا چراغ جلے بلکہ چراغاں ہو اور آپ کا پڑوسی غم کی تاریکیوں میں ڈوبا ہو‘ اس سے زیادہ نا مبارک کوئی مسرت نہیں ہوتی اسی حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے پیغمبر اسلام ﷺ نے نماز عید الفطر کے ساتھ ساتھ ’’ صدقۃ الفطر ‘ذکر بھی حکم دیا ہے کہ ہر صاحب گنجائش مسلمان اپنی اور اپنے زیر پرورش لوگوں کی طرف سے گیہوں کی ایک خاص مقدار یا اس کی قیمت اپنے غریب بھائی کو پہنچائے اور عید سے پہلے پہلے پہنچا دینے کی کوشش کرے تاکہ سماج کے غریب اور پریشان حال لوگ بھی عید کی خوشی میں شامل ہو سکیں ۔ صدقۃالفطر ایک علامتی عمل ہے یہ صرف عید ہی کے دن کے لئے مخصوص نہیں یہ اس بات کی تعلیم ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ہر خوشی میں سماج کے غریب بھائیوں کو بھی شامل کرنا چاہیے وہ خوشی ادھوری اور ناکام ہے جو اپنے گھر تک محدود ہے اور جس میں اپنے پڑوسیوں کو شامل نہ کیا گیا ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی نگاہ لطف کا محتاج بنایا ہے ۔اس لئے اسلام میں بچہ کی پیدائش کے ساتھ ’’ عقیقہ ‘‘ اور شادی کے موقع سے ’’ ولیمہ ‘‘ رکھا گیا ہے اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں سماج کے غریب لوگوں کو شریک نہ رکھا جائے مسلمان وہ ہے جسے دوسروں کی فکر تڑپاتی ہو جس کے لئے دوسروں کا غم اپنا غم بن جاتا ہے جو دوسرے بھائیوں کے درد کی کسک اپنے دل میں پاتا ہو اسے اپنی لڑکیوں کے ساتھ دوسرے غریب بھائیوں کی لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ بھی متفکر رکھتا ہو‘ اسے اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ قوم کے دوسرے بچوں کی تعلیم کی فکر بھی بے چین رکھتی ہو جو ان بیوائوں ‘ یتیموں اور بیماروں کے لئے بھی اپنے دل کو بے سکون پاتا ہو ‘ جن کے یہاں رات فاقوں سے گزرتی ہے اور جو اپنی بنیادی غذا اور دوا کے لئے بھی کسی نگاہ کرم کے منتظر ہیں عید اپنی زبان سے بے زبانی سے ہر شخص کو یہ پیغام دیتی ہے کاش ہم اسے دل کے کانوں سے سن سکیں اور اس پر عمل کریں ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں