آم دل اور کینسر کے امراض کے خلاف انسانی جسم میں مضبوط قوتِ مدافعت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا انسان کے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔آم کھانے کا سب سے اچھا وقت کھانا کھانے کے بعد ہے۔ سہ پہر کو بطور کھانا کھایا جائے۔
آج کل آموں کا موسم ہے، بازاروں میں ، پھلوں کی مارکیٹوں میں اور بس سٹاپس پر کھڑے ٹھیلوں پر آم ہی آم نظر آرہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں آم شاید واحد پھل ہے جو اس قدر اہتمام اور اجتماعی انداز میں کھایا جاتا ہے۔گٹھلیوں کے دام:آم کے پتے، چھال، گوند، پھل اور گٹھلیاں سب بطور دوا استعمال کئے جاتے ہیں۔ نرم خشک پتوں کا سفوف اسہال اور ذیابیطس میں دیا جاتا ہے۔ نرم تازہ پتوں کا جو شاندہ، ارنڈی کے درخت کی چھال اور سیاہ زیرے کے سفوف کے ساتھ کھانسی دمے اور امراض سینہ کے لئے مفید ہوتا ہے۔ پتوں کی دھونی سے امراضِ حلق اور ہچکی کو فائدہ ہوتا ہے۔ جلائے ہوئے پتوں کی راکھ جلی ہوئی جلد پر لگائی جاتی ہے۔ پتوں اور چھال کے غرارے سے امراضِ دہن ، گلے کی خراش ، دانت کے درد وغیرہ کو فائدہ ہوتا ہے۔آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر نمایاں مقوی اثر کرتی ہے، اس لئے یہ سیلان الرحم آنتوں اور رحم کی ریزش ، پیچش ، خونی بواسیر اور اسہال وغیرہ کے لئے بہترین دوا سمجھی جاتی ہے۔ ان امراض میں چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر اسے انڈے کی سفیدی یا گوند کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ آم، جامن اور انجیر کے درختوں کی چھال کو پانی میں بھگو کر چھان کر پینے سے اندرونی اعضا سے خون کے رسائو کو فائدہ ہوتا ہے۔چھا ل کا رس، چونے کے پانی کے ساتھ سوزاک میں ایک تیر بہدف دوا سمجھی جاتی ہے۔ تازہ چھال کے رس کو دافع آتشک سمجھا جاتا ہے اور اسے پیچش اور اسہال، خارش اور دوسرے جلدی امراض میں بھی دیا جاتا ہے۔ امراض حلق اور خناق میں چھال کا گاڑھا سیال متاثرہ حصے پر لگایا جاتا ہے اور اس کے غرارے بھی کئے جاتے ہیں۔ چھال کا جوشاندہ غرارے کے لئے اور سیلان الرحم اور نزلے میں دواکے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
چھال سے نکلا ہوا گوندھ پھٹے ہوئے تلوئوں پر لگایا جاتا ہے۔ تیل اورعرق لیموں کے ساتھ بنایا ہوا مرہم خارش اور دوسرے امراض جلد میں استعما ل کیا جاتا ہے۔ آم کے خشک پھول قابض ہوتے ہیں۔ ان کا سفوف یا جو شاندہ اسہال، پرانی پیچش ، ورم مثانہ اور جریان میں مفید ہوتا ہے۔ ان کی دھونی سے مچھر دور ہو جاتے ہیں۔آم کا کچا پھل (کیری) ترش اور مسہل ہونے کے علاوہ اسکروی کو دورکرتا ہے۔ اس کے گودے کو خشک کرکے امچور بنایا جاتا ہے جس میں سائٹرک ایسڈ موجود ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بھی مرض اسکروی کے لئے مفید ہوتا ہے بلکہ آب لیموں سے زیادہ کار گرثابت ہوتا ہے۔ کیری کے چھلکے کو گھی میں تل کر شکر ملا کر کھانے سے حیض کی شدت کو کم کرتا ہے۔ یہ چھلکا قابض اور مقوی ہوتا ہے۔ اس کا سفوف شہد اور دودھ کے ساتھ خونی پیچش میں دیا جاتا ہے۔ کیری کا مربہ بھی بہت لذیذ اور مقوی ہوتا ہے۔آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے۔ چونکہ اس میں بہ کثرت گیلک ایسڈ ہوتا ہے، اس لئے پرانی پیچش، اسہال، بواسیر، سیلان الرحم وغیرہ میں بہت مفید ہوتی ہے۔ آنتوں کے گول کیڑوں (کیچوئوں) کو مارنے کے لئے یہ بہت کارگر ہوتی ہے، (مقدار خوراک 20 تا 30 گرین سفوف‘ شہد کے ساتھ) بالغوں میں اسہال روکنے کے لئے اسے سونٹھ اور بیلگری کے ساتھ جوش دے کر یا سفوف کی شکل میں دیا جاتا ہے۔ حاملہ عورتوں میں اسہال کے علاج کے لئے اسے تل کردیا جاتا ہے۔ پیچش میں آنوئوں کو روکنے کے لئے گری کا سفوف دہی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ نکسیر بند کرنے کے لئے گری کا رس ناک میں ٹپکا یا جاتا ہے۔
آم دل اور کینسر کے امراض کے خلاف انسانی جسم میں مضبوط قوتِ مدافعت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا انسان کے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔آم کھانے کا سب سے اچھا وقت کھانا کھانے کے بعد ہے۔ سہ پہر کو بطور کھانا کھایا جائے۔ صبح کو نہار منہ مناسب وقت نہیں ہے۔ آم کھانے سے پہلے آموں کو ٹھنڈا کرلیں۔ آم تخمی ہو تو ان کے کھانے کا بہترین طریقہ ، ان کا رس چوسنا ہے۔ پانی میں ڈال کر ٹھنڈا کرلیا جائے۔ اس کے بعد ہاتھوں سے دبا دبا کر پلپلا کرلیا جائے۔ہر روز دوپہر کے کھانے کے بعد چند میٹھے آم کھا کر اوپر سے دودھ پی لیں۔ چند دنوں میں ہی بدن قوی ہو جائے گا۔روزانہ خوب پکے ہوئے میٹھے آم چوسیں اوراوپر سے دودھ پی لیں۔ جسم مضبوط ہوگا اور طاقت بڑھے گی۔ دودھ کو بھی آم کی اصلاح خیال کیا جاتا ہے۔ اس لئے آم کھانے کے بعد دودھ کی کچی لسی پینی چاہیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں