جیسے اعمال ویسے احوال:محترم دوستو ! اللہ جل شانہٗ نے احوال عالم کو انسانوں کے اعمال کے ساتھ جوڑرکھا ہے۔ عالم میں جتنے بھی حال آئیں گے ،جتنے حال آئے تھے اور جتنے حال آرہے ہیں ان سب کا تعلق انسانوں کے اعمال کے ساتھ ہے ۔ان تمام حالات کے پیچھے انسانی اعمال ہیں اور پھرجیسے اعمال ہوں گے ویسے ہی احوال بھی ہوں گے ۔حال ویسے آئے گا حتیٰ کہ نیت کے فرق سے بھی اثر پڑتاہے، سوچوں کے فرق سے بھی اثرپڑتاہے ،انسان کی سمجھ کے فرق سے اثر پڑتاہے،انسان کے جذبے کے فرق سے اثر پڑتاہے ۔
نیت اور جذبے کا اثر جانوروںپر:نیت سے انسانوں پر ہی نہیں جانوروںکے اوپر بھی اثر پڑتاہے۔ مچھلیوں کاایک شکاری روز سمندر کنارے شکار کیلئے جاتاتھا ۔تھوڑا سا شکار ہاتھ آتا تھا۔ بڑی مشکل سے شام تک چند مچھلیاں پکڑی جاتی۔ایک دفعہ اس نے سوچا کہ آج شکار نہیں کرنا بس ویسے ہی سمندر کے کنارے پر جاکر جہاں روز شکار کرتا تھا وہاں بیٹھ گیا۔انتظار کرتے ہوئے دیکھا کہ مچھلیاں غول در غول اس طرف آرہی ہیں اورشکاری کے سامنے سے گزر کر جارہی ہیں۔شفاف پانی میں سارامنظرعیاں تھا ۔اسے کافی حیرانگی ہوئی کہ آج جب میں نے شکار نہ کھیلنے کافیصلہ کیا تویہ مچھلیاں سامنے سے گزر رہی ہیں جبکہ روز شکار کھیلنے کیلئے آتا تو عالم یہ ہوتاکہ مچھلیاں نظر ہی نہیں آتی تھیں ۔ آخراس کی وجہ کیا ہے؟ ایسا کیوں ہوتاہے؟ اس نے کسی دانا سے یہ بات کہی ۔وہ دانااللہ والے بھی تھے ۔تو انہوں نے فرمایا : جس دن مچھلیاں زیادہ تھیںکیااس دن آپ کی نیت شکار کی تھی ؟ مجھے تو لگتاہے کہ آپ اس دن شکار کی نیت سے نہیں گئے تھے ۔شکاری نے جواب دیا کہ ہاں اس دن شکار کی نیت نہیں تھی تو اللہ والے نے فرمایا: تیری نیت اور جذبے کا اثر مچھلیوں پر پڑگیا تھا اس لیے اس دن وہ بے خوف و خطر تیرے سامنے تیرتی رہیں۔اسی طرح یہ اثر انسانوں پر بھی پڑتاہے ۔ جس طرح تیرے جذبے کا اثر مچھلیوں پر پڑااور جانوروں نے بھی کہا کہ آج شکار کیلئے نہیں آیا ۔آج ہمارا راستہ ہماری راہ گزر یہی ہے ۔
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے:انڈیا کے بارڈر کے ساتھ چولستان میں صحراگردی کررہے تھے ۔ہزاروں میل پھیلا ہوا یہ بہت بڑاصحراہے۔ہمارے پاس فور بائی فور جیپ تھی، ڈرائیور ہمارا دوست تھا‘وہ شکار ی بھی تھا اورہرن کا شکا ر بخو بی کرلیاکرتاتھا۔چونکہ اس سفرمیں ہمارا جذبہ شکار کھیلنے کا نہیں تھا! بلکہ ہم نے سوچا تھاکہ وہاں دورصحرامیں رہنے والے لوگوں کو جا کر اللہ جل شانہٗ کی محبت اور اس کے کلمے کے چند الفاظ سنا دیئے جائیں اورکچھ ان سے بھی سن لیے جائیں۔ ہمارے اندر توقبر ،موت اور آخرت کا جذبہ موجزن تھا ۔ اسی وجہ سے ہرنوں کے ہرن ہماری آنکھوں کے سامنے بھاگتے جارہے تھے ۔وہ دوست مجھ سے کہنے لگے :ہم شکار کیلئے رات کے دو ،ڈھائی بجے آتے ہیں!وہاںہرن کا شکار ممنوع ہے‘ ہرن اکثر رات کے وقت نکلتے ہیں اور دن کو چھپ جاتے ہیں آج پتہ نہیں کیوں؟یہ ہرن دن کو ایسے نظر آرہے ہیں؟ میں نے کہاکہ ہمارے نیک جذبے کی وجہ سے نظر آرہے ہیں‘ ہمارا شکار کرنے کا جذبہ نہیں ہےاور ان ہرنوں کو ہمارا جذبہ پتہ چل گیاہے کیونکہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ،وہ بھی زندہ ہیں، ہم بھی زندہ ہیں، وہ کریم آقاﷺ کے امتی ہیں‘ ہم بھی انہی کے امتی ہیںاگر چہ وہ بولتے نہیں اورہم بولتے ہیں‘ تو معلوم ہوا کہ سارے عالم کے اندر جو بھی احوال آرہے ان کی وجہ خود ہم ہیں ۔اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے چند اعمال: اللہ کے غصے کو ٹھنڈ ا کرنے کے چند عوامل یہ ہیں ۔جب بندہ تنہائیوں میں بیٹھ کر ندامت کے آنسو بہاتا اور استغفار کرتاہے ،تو اس کے یہ آنسو اور استغفار اللہ جل شانہٗ کے غصے کو ٹھنڈا کردیتے ہیں !سورۃ فاتحہ اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کردیتی ہے ـــ!۔اللہ کے غصے کورات کے اندھیرے کی تنہائیوں کی تہجدبھی ٹھنڈا کردیتی ہے!۔اللہ کے غصے کو صدقہ ٹھنڈا کر دیتاہے!۔اللہ کے غصے کو صلہ رحمی بھی ٹھنڈا کردیتی ہے! اور کسی اللہ والے کی خدمت خالصتاًاللہ کی رضا کیلئے کر نا حتیٰ کہ کسی اللہ والے کی زیارت کرنا بھی اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کردیتی ہے !
ہماری بدحالی کا سبب ہماری بد اعمالی ہے:ہمارے اوپر جو احوال آرہے ہیں، ان احوال کے پیچھے جووجوہات ہیں وہ ہماری ہی بد اعمالیاں ہیں۔ہمارا رب توستر ماؤں سے زیادہ کریم ہےاورجو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والی عالی شان ذات ہے اس سے آپ ظلم کی امید رکھ سکتے ہیں! کیا ہمارا رب نعوذباللہ ظالم وبے وفا ہے؟ یہ ہرگز ہرگز ممکن نہیں‘ بے شک ہم خود اپنے اوپرظلم کرتے ہیں ۔مخلوق خدا سے جبرو زیادتی کرتے ہیں ۔اس کے باوجودہم پر آج بھی کریم کی شانِ کریمی ہے ۔قدرت کی پیش بہا نعمت پانی پیتے ہوئے احساس دامن گیر ہوا کہ ہمارا رب اگر پانی کو ختم کردے اپنی اس نعمت پانی کو ہم سے چھین لے یا پھرپانی زمین میںاتنا نیچے اتر جائے کہ اس تک ہماری رسائی نہ ہو سکے ، یہ اس کے اختیا ر میں ہے اوروہ ایسا کربھی سکتاہے ۔وہ دریا جن کے اندر طغیانی ہوتی تھی آج وہی دریاتشنہ بہ لب ہیں۔آج ان مقامات پر جہاں کبھی پانی نہیں آتا تھا وہاں بھی پانی آگیا ہے اور جہاں پانی کوآنا تھا یعنی دریا وہ سارے ویسے کے ویسے خشک پڑے ہوئے ہیں ۔پانی کوتو دریاؤں میں آنا تھامگروہ وہاں نہیں آیااور جہاں پانی نہیں آتا تھا آج وہاں آگیا ہے۔شہروں میں، بستیوں میں ،گاؤں میں ،دیہاتوں میں پانی آگیا ہے۔عالم میں جو کچھ ہورہاہے آخر یہ سب کس وجہ سے ہورہا ہے ،یہ سب کچھ ایسے نہیں ہورہا!ہر چیز کے پیچھے اللہ جل شانہٗ کا کوئی نہ کوئی امر ہوتاہے اور ہرامر کے پیچھے اللہ جل شانہٗ کی طاقت و حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔کوئی امر حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں