Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

جنات کا پیدائشی دوست‘علامہ لاہوتی پراسراری

ماہنامہ عبقری - مئی 2018ء

جنات کہاں رہتے ہیں؟ کیسے رہتے ہیں؟ :جنات کہاں رہتے ہیں؟ کیسے رہتے ہیں؟ کس طرح رہتے ہیں؟ ایک سوچ ہے‘ ایک خیال ہے ‘ایک گمان ہے‘ صدیوں اس پر بہت لکھا گیا‘ پڑھا گیا ‘سوچا گیا‘ مفروضے‘ افسانے‘ خیالات‘ تصورات‘ حد سے کہیں زیادہ‘ لیکن کوئی اس نتیجے پر نہیں پہنچا کہ جنات رہتے کہاں ہیں؟ اور جنات کا مسکن کیا ہے؟ قارئین! جنات ہر اس جگہ رہتےہیں جہاں انسان رہتے ہیں‘ اور ہر اس جگہ رہتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کا نظام ہے۔ فضاؤں میں‘ ہواؤں میں‘ پہاڑوں میں‘ دریاؤں میں‘ غاروں میں‘ پانی کے اندر‘ پانی کے نیچے‘ زمین کے اندر‘ زمین کے نیچے‘ ہر اس جگہ جہاں آپ کا گمان اور خیال نہیں اور تصور نہیں‘ آئیے! پھر آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔مریدین کا شیخ سے شکوہ:ایک درویش کا کسی گاؤں میں آنا جانا تھا‘ اللہ والے تھے‘ خدا رسیدہ تھے‘ سال کے بعد اپنے مریدین کے ہاں تشریف لاتے تھے‘ انہیں اللہ اللہ سکھاتے‘ اعمال کی تلقین دیتے‘ ایک دفعہ مریدین نے شیخ سے شکوہ کیا کہ دریا کا پانی بہت چڑھا ہوا ہے‘ بند جتنے بھی ہیں سب ٹوٹ چکے ہیں‘ اردگرد کے تمام علاقے زیرآب آگئے‘ مکان گر گئے‘ جانور بہہ گئے‘ کئی انسانی جانیں ختم ہوگئیں اب دریا کا رخ ہماری طرف ہے‘ آپ دعا فرمائیں اور کوئی ایسی ترتیب بتائیں کہ ہم دریا کے پانی اور طغیانی سے بچ جائیں۔ شیخ سر جھکا کر مراقبہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہوئے بہت دیر کے بعد سر اٹھایا تو فرمانے لگے کہ مجھے کوئی ایک جوان چاہیے‘ اس کو کشتی میں بٹھا دیں اور کشتی جس طرف چلے چلتی جائے ‘آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔نہ پوچھتے تو اچھی بات تھی: ایک مرید نے جرأت کرتے ہوئے پوچھا کہ شیخ یہ فرمائیے کہ جوان پھر جائے گا کہاں؟ فرمایا: نہ پوچھتے تو اچھی بات تھی اب پوچھ لیا تو تمہیں بتائے دیتا ہوں‘ دراصل ہم اس جوان کو شاہ جنات کے پاس بھیجنا چاہتےہیں جو دریاؤں کی تہہ کے نیچے تخت بچھائے‘ محفل لگائے‘ مخلوق خدا کے مسائل میں مسلسل فکر مند ہیں‘ جب ان کے پاس ہم اپنا قاصد بھیجیں گے تو یقیناً پانی کی طغیانی میں ٹھہراؤ آئے گا اور طوفان تھم جائے گا۔ انہوں نے ایک جوان کو تیار کیا‘ چوبیس پچیس سال کا ایک جوان‘ وہ نہایا دھویا‘ صاف ستھرے کپڑے پہنے خوشبو لگائی۔ شیخ کی تھپکی اور دم:شیخ نے اسے تھپکی دی اور دم کرکے اسے کشتی پر بٹھا دیا تمام بستی دیکھتی رہی کہ کشتی جارہی اور وہ بیٹھا ہوا حتیٰ کہ اتنا دور کہ کشتی نظر آنا بند ہوگئی اور وہ واپس چلے گے‘ کئی سوچیں‘کئی باتیں مگر تین دن کے بعد وہ جوان اپنے گھر واپس آیا‘ آنکھیں پھٹی‘ زبان بند‘ وہ فضاؤں اور خلاؤں میں گھور گھور کر دیکھتا تھا آتے ہی وہ سو گیا بہت لمبی نیند سویا‘ جب لمبی نیند کے بعد اٹھا تو اس نے اپنے جسم کو پرسکون محسوس کیا‘ سب اکٹھے اس انتظار میں تھےکہ یہ کہاں گیا تھا؟ کیونکہ واقعی اس کے جانے کے بعد دریا کی طغیانی میں کمی آئی اور تین دن کے اندر اندر دریا کی سطح نیچے چلی گئی اور طوفان تھم گیا بلکہ ختم ہوگیا۔ تین دن کی آپ بیتی:تین دن کے اس وقفے نے ان کی طلب‘ تڑپ‘ توجہ کو اور بڑھا دیا‘ وہ جوان بولا: کشتی میں جاتے جاتے ایک جگہ مجھے غنودگی محسوس ہوئی اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں پانی کے اندر نیچے ڈبکی لگانے کے انداز میں نیچے ہی نیچے جارہا ہوںاور اتنا گہرا جارہا ہوں کہ شاید میں نے میلوں سفر کیا دریا تو اتنے گہرے نہیں ہوتے شاید سمندر اتنے گہرے ہوں گے اچانک مجھے آوازیں آنا شروع ہوئیں اور ایک دم میری آنکھ کھلی میں نے محسوس کیا کہ میں کرسی نما نشست پر بیٹھا ہوں‘ ہرطرف عجیب وغریب شکلوں والے لوگ بیٹھےہیں‘ سامنے تخت پر بھی ایک عجیب و غریب شکل کے شخص تھے جن کی آواز میں رعب اور گرج تھی‘ ان کی گفتگو چلتی رہی‘ مختلف موضوعات پر باتیں ہورہی تھیں اور آخرکار ایک صاحب نے کھڑے ہوکر شہنشاہ اعظم سے عرض کیا فلاں درویش نے فلاں گاؤں سے ایک قاصد آپ کی خدمت میں بھیجا ہے دریا کی طغیانی سے ان کے گاؤں اور بستی کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور انسانی جانوں کونقصان حد سے زیادہ بڑھنے والا ہے اور پورا گاؤں ڈوب سکتا ہے آپ توجہ اور مہربانی فرمائیں کہ جنات کی حفاظت کا ایک دستہ ایسا ہو کہ جو پانی کے رخ کو ان کے گاؤں کی طرف سے موڑ دے‘ اس طرح کی فریاد کی‘ درخواست کی اور شہنشاہ اعظم سے عرض کیا‘ ان کی اس فریاد اور درخواست پر شہنشاہ اعظم نے سر ہلایا اور ایک اشارہ سے اپنا حکم سنایا اور ساتھ یہ کہا کہ یہ ہمارا مہمان ہے‘ اسے تین دن اپنے پاس مہمانی اور میزبانی کا اچھا شرف دو اور تین دن کے بعدبہترین تحائف کے ساتھ اسے اس کے گاؤں پہنچاؤ کیونکہ وہ درویش ہمارے بہترین دوست ہیں اور ان کا ہر حکم ہمارے سر آنکھوں پر ہے اور ایک رعب دار اور وزن دار لہجے میں ان شاء اللہ کہہ کر فرمانے لگے کہ اللہ نے چاہا تو وہاں طوفان اور طغیانی نہیں آئے گی۔وہ جوان کہنے لگا: مجھے کچھ عجیب و غریب مخلوقات کے لوگوں نے وہاں سے اٹھالیا اور میں وہاں سے چلا ایک شاہی محل نما مہمان خانہ تھا‘ اس شاہی محل نما مہمان خانہ میں مجھے ٹھہرایا گیا ایسے اعلیٰ کھانے‘ ایسے بہترین بستر اور ایسا اچھا نظام کے میں نے دنیا میں شاید نہ کبھی دیکھا‘ نہ سنا‘ واقعی میری وہاں زندگی جو تین دن گزری‘ بادشاہوں اور شہزادوں کی طرح گزری‘ نہ وہاں غم تھے‘ نہ روگ تھے‘ نہ پریشانیاں‘ دکھ نام کی چیز وہاں بالکل نہیں تھیں ‘غم اور مشکلات وہاں بالکل نہیں تھیں۔تین دن میں میں نےوہ کھانے کھائے جو شاید مغل بادشاہوں نے بھی نہ کھائے ہوں اور تین دن میں مجھے وہ پوشاکیں پہنائی گئیں اور ایسے بہترین لباس سجائے گئے کہ میری عقل اور سوچ حیران اور تین دن میں میں نے اپنی زندگی میں شہنشاہیت دیکھی ہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو کچھ خدام میرے پاس آئے کہ آپ کے جانے کا وقت ہے اور روانگی ہے۔ آپ ہمارے ساتھ چلیں‘ جب میں ان کے ساتھ گیا تو کچھ ایسا سامان تھا جو بطور ہدیہ کچھ میرے لیے اور کچھ اس درویش اور شیخ کیلئے تھا۔ بس پھر اسی طرح میں نے محسوس کیا کہ میں پانی کا سفر طے کررہا ہوں اور پانی کے سفر سے پھر میں نے اپنے آپ کو اپنے گھر دیکھا۔مکلی کا قبرستان اور بوڑھاجن: قارئین! جنات پانی کے نیچے بہت رہتے ہیں‘ پانی کے کنارے رہتے ہیں‘ کھلی قبروں میں رہتے ہیں۔ مکلی ٹھٹھہ کے سفر کے دوران میری ایک بوڑھے جن سے ملاقات ہوئی مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ بوڑھا جن ہے‘ میں بیٹھا سورہ ٔفاتحہ پڑھ رہا تھا اور خاص جذبے اور کیفیت کے ساتھ خاص وجد اور وجدان کیساتھ میں پڑھ رہا تھا‘ اسی طرح پڑھتے پڑھتے میرے سامنے ایک جوگی آیا جو بین بجا رہا تھا اور میرے سامنے آکر بیٹھ گیا‘ ادھر میری سورۂ فاتحہ ادھر اس کی بین‘ میں محسوس کررہا تھا کہ اس کی بین کی آواز بڑھتی چلی جارہی تھی اور ایسے ہے کہ اس کی بین کے سورخوںسے بجلیاں نکل رہی ہوں اور حیرت انگیز لہریں نکل رہی تھیں پھر تھوڑی دیر کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ شاید یہ اپنی بین کی آواز کے ذریعےمیری سورۂ فاتحہ کا ربط ختم کرنا چاہتا ہے۔ نامعلوم اچانک میرے اندرکیا خیال آیا اور میں نے یکایک سورۂ فاتحہ کی توجہ اس کی بین کی طرف کردی اور بین کے تصور کے ساتھ سورۂ فاتحہ کو وجد ‘وجدان‘ کیف‘ کیفیات اور سچے جذبے کے ساتھ پڑھناشروع کردیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر پڑھی تھی تو دھماکہ کے ساتھ اس کی بین پھٹی اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور کچھ ٹکڑے میرے سامنے بھی آکر گرے‘ اس نے دونوں ہاتھ منہ پر مارے اور کہنے لگے کہ کس بندے کے سامنے میں آگیا اور اپنے آپ کو کوسنے لگا‘ حتیٰ کہ اپنے آپ کو گندی گالیاں دینے لگا‘ میں مسلسل سورۂ فاتحہ پڑھ رہا تھا اور اللہ کے نام کے سچے جذبے کے ساتھ پڑھ رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں میرے سامنے آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا مجھے معاف کردیں۔ میں اللہ تعالیٰ کے کلام سے واقف تھا مگر اس کی طاقت سے واقف نہیں تھا۔ میں دراصل ایک جن ہوں اور میں جوگی کے روپ میں یہاں لوگوں کو بین بجا کر نیولے اور سانپ کی آپس میںجھڑپ دکھا کر لوگوں کی جیبیں صاف کرتا ہوں اور اچھے خاصے پیسے روز کما کر جاتا ہوں۔ میں نے آپ کو ایسے بیٹھے ہوئے دیکھا کہ میں نے کہا کہ آپ سے بھی مال حاصل کروں لیکن میں نے بین بجائی آپ نے توجہ کی پھر میں نے اپنی بین کو اپنی خاص طاقت کے ساتھ بجایا اور جب میری خاص طاقت ہوتی ہے تو بین سے بجلیاں نکلتی ہیں حتیٰ کہ میں خاص طاقت اور استادی کے ساتھ بین بجاتے ہوئے اس بات کا خیال رکھتا ہوں کہ میرے قریب خشک لکڑیاں اورگھاس پھوس نہ ہو‘ کئی بار میرا تجربہ ہوا ہے کہ بین کی آواز کی بجلیاں خشک لکڑیوں اورگھاس پھوس کو آگ لگا دیتی ہیں‘ بین کی آواز سے خود میرا اپنا لباس جلا اورکئی لوگوں کے لباس جلے‘ پھر میں نے اپنی طاقت کے ساتھ بین بجانی شروع کی لیکن آپ جو پڑھ رہے تھے اس پڑھنے نے مجھے ناکام کردیا اور حتیٰ کہ میری بین پھٹ گئی اور یہ میری زندگی کا سرمایہ تھا۔ کسی فقیر سے نہ الجھنا:میں نے اس بین پر بہت مشق اور ریاض کیا ہوا تھا اور یہ بین ایسی تھی جس کے ذریعے سے میں نے بہت مال کمایا‘ آپ نے بین کو توڑ دیا پہلے مجھے آپ پر غصہ آیا‘ پھر پیر استاد کا ایک قول یاد آیا کہ کسی فقیر سے الجھنا نہیں‘ ورنہ تمہاری زندگی بہت مشکل ہوجائے گی۔ بس! پھر میں آپ کے قدموں میں گرگیا اب مجھے بتائیں کہ اب میں کیا کروں‘ میری بین ٹوٹ گئی ہے‘ میری روزی کا ذریعہ ختم ہوگیا ہے‘ اگریہ روزی کا ذریعہ تھا تو میں اپنا نظام چلا رہا تھا۔ آج وہ روزی کا ذریعہ ختم ہوگیا‘ اب میں کروں تو کیا کروں؟ وہ مجھ سے بیٹھا باتیں کررہا تھا اور میں مسلسل بیٹھا سورہ ٔفاتحہ پڑھ رہا تھا‘میں نے اس کی کسی بات کا جواب نہ دیا پھر اچانک شاید سورۂ فاتحہ کی برکت تھی میرے دل میں خیال آیا یہ جن ہے اور کافر جن ہے‘ کیوں نہ سورۂ فاتحہ کی توجہ اور اثر اس کے دل پر ڈالا جائے اور اس کے دل میں ایمان داخل ہو‘ اور کفر ختم ہو اور کفر ٹوٹ جائے۔ بس خیال آتے ہی میں سورۂ فاتحہ پڑھ کر اس کے تصور کو اس کے دل پر ڈال دیا اور بہت ڈالا تھوڑی ہی دیر میں اس نے اپنا سینہ پکڑ لیا ایسے جیسے کسی کو دل کا دورہ پڑتا ہے‘ لوٹ پوٹ گیا تڑپ گیا۔ آوازیں تھیں جو نکل رہی تھیں لیکن سمجھ نہیں آرہی تھیں کہ وہ آوازیں کیا ہیں؟ بس اس کےاندر ایک ہلچل تھی‘ اس کے اندر ایک بے چینی تھی‘ میں مسلسل سورۂ فاتحہ پڑھتا رہا اور سورۂ فاتحہ کے ہی تصور کو توجہ بنا کر اس کے دل پر ڈالتا رہا اور اس تصور کے ساتھ کہ اس کے اندر کا کفر ٹوٹ جائے اور وہ تالا کھل جائے جو ہدایت کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے میرا تجربہ کامیاب ہوا۔جوگی نے کلمہ پڑھ لیا: یہ جوگی جو کہ جن بھی تھا تھوڑی ہی دیر میں ہوش میں آیا اور پریشان ہوکر کہنے لگا جو آپ پڑھ رہے ہیں‘ وہ مجھے بھی پڑھا دیں‘ اسکی لذتیں آپ لے رہے ہیں‘ وہ لذت میں بھی چاہتا ہوں اب میں بولا اور میں نے اس سے کہا اس لذت کو لینے کیلئے ایمان کا کلمہ پڑھنا پڑے گا اور ہدایت کی زندگی پر آنا ہوگا۔ بے تاب اور بے چین ہوکر کہنے لگا: جو چاہیں گے میں کروں گا‘ اور میں بس! آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور جو آپ پڑھ رہے ہیں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا‘ مجھے یہی تسبیح‘ یہی ذکر‘ یہی منتر‘ یہی جاپ‘ یہی جپن چاہیے‘ میں نے اس کو ساتھ لیا‘ ایک جگہ پانی کا انتظام تھا اس سے کہا کہ غسل کرو‘ اس سے پوچھا کوئی اورکپڑے ہیں‘ کہا: نہیں‘ میں نےکہا: انہی کپڑوں سمیت غسل کرو کہ جسم بھی دھل جائے اور کپڑے بھی دھل جائیں۔ غسل کے تین فرض اس سے پورے کروائے اور اس کے بعد اسے کلمہ شہادت پڑھایا‘ پھر میں نے اس سے کہا کہ آپ سورہ ٔفاتحہ سیکھیں‘ حیرت انگیز طور پر چند بار سورۂ فاتحہ دہرانے سے وہ سورۂ فاتحہ سیکھ گیا اور سورۂ فاتحہ کو اس نے یاد کرلیا۔ مجھ سے کہنے لگا اب مجھے کیا کرنا ہے ‘ میں نے کہا:بس تو اللہ کا نام لیتا جا‘ تیرا رزق روزی غیب سے تجھے ملتی جائے گی اور تجھے اور تیرے بچوں کو اللہ غیب سے پال کر دکھائے گا۔ وہ بہت خوش ہوا‘ میں نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں اس کے سامنے رکھیں‘ اس کا جسم دراصل توجہ کی وجہ سے نڈھال ہوچکاتھا‘ وہ کھاتا چلا گیا حتیٰ کہ میری تمام چیزیں کھا گیا پانی پی گیا‘ مجھے کوئی پریشانی نہ ہوئی مجھے اک بات کی خوشی تھی کہ میری تھوڑی سی محنت اور کاوش سے اس کو کلمہ نصیب ہوگیا۔ قارئین! اللہ کی توفیق سے ایک بات کہہ رہا ہوں کہ اب تک میرے ہاتھوں ہزاروں لاکھوں جنات مسلمان ہوئے ہیں۔  کوئی بھی ڈنڈے کے زور پر مسلمان نہیں ہوتا‘ محبت اور کلام الٰہی کی تاثیر کی برکت سے ہوتا ہے۔ میں پرانی قبر میں رہتا ہوں: میںاس سے باتیں کرنے لگا: میں نے اس سے پوچھا تو کہاں رہتا ہے ؟ دور اشارہ کر کے کہنے لگا میں اس قبر کے اندر رہتا ہوں‘ میں نے پوچھا: نئی ہے یا پرانی کہنے لگا صدیوں پرانی قبر ہے۔ یہاں کے بادشاہ کے ایک وزیر کی قبر ہے۔ میں نے کہا آپ لوگ کہاں کہاں رہتے ہیں۔ کہنے لگا:جہاں انسان رہتے ہیں‘ وہاں بھی رہتے ہیں‘ جہاں پرندے رہتےہیں وہاں بھی رہتے ہیں‘ جہاں مچھلیاں رہتی ہیں وہاں بھی رہتےہیں اور جہاں کائنات کی کوئی ذی روح مخلوق نہیں رہتی وہاں بھی
رہتے ہیں۔ہر درز میں‘ ہر درخت میں‘ جب درخت میں کہا تو میں چونک پڑا۔ ہم درختوںاور عبادت گاہوں میں بھی رہتے ہیں: میں نے پوچھا :درخت سے مراد‘ میں نے اس کا موجودہ نام واسع رکھا تھا۔ یعنی عبدالواسع‘ میں نے پوچھا کہ درخت میں کیسے رہتے ہیں؟ کہا: درخت کے تنوں کے اندر بھی ہم رہتے ہیں اوردرخت کی جڑوں کے اندر بھی ہم رہتے ہیں‘ پھر وہی درخت خود ہماری غذا ہوتی ہے اور ہم ہر طرح کی غذا کھاتے ہیں بعض جنات ایسے ہیں جو صرف ہواؤں اور فضاؤں میںرہتے ہیں بعض جنات ایسے ہیں جوصرف مساجد کے میناروں ‘ مندروں میں‘ کلیساؤں میں‘ چرچوں میں یا مذہبی عبادت گاہوں میں رہتے ہیں۔ ان کی عبادت گاہیں رہائش ہوتی ہیں‘ ان کے بیوی بچے وہاں رہتے ہیں‘ ہاں اس بات کا ہم نے خیال کیا ہوتا ہے جو جس مذہب کا فرد ہوتا ہے‘ وہ اسی مذہب کی عبادت گاہوں میں رہتا ہے۔ میں نے اچانک سوال کیا مسلمانوں کی بڑی عبادت گاہ کعبہ اورمکہ ہے کیا جنات وہاں رہتے ہیں؟ مجھ سے کہنے لگا: میں آج تک وہاں گیا نہیں لیکن چونکہ ہم جنات ہر جگہ آتے جاتے رہتے ہیں ‘اسی مکلی کے قبرستان میں مکہ سے آئے ہوئے بے شمار جنات اپنے رشتہ داروں سے ملنے آتے جاتے ہیں‘ اچانک چونک کر کہنے لگا کہ دور فلاں بادشاہ کے گنبد کے نیچے خاندان آباد ہے اب بھی وہاں مکہ سے ان کے رشتہ دارآئے ہوئے ہیں جو صرف اور صرف مکہ میں ہی رہتے ہیں اور ان کا قیام مکہ اورکعبہ کے اردگرد ہے۔ (جاری ہے)

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 667 reviews.