ردا، آصف اور کاشف صفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کی صحت بھی اچھی ہے۔ روزانہ غسل کرتے ہیں۔ لباس کے ساتھ ساتھ ان کے دانت، ناخن اور بال بھی بالکل صاف ستھرے ہوتے ہیں ان کی اچھی صحت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ بازار کی چیزیں نہیں کھاتے جن پر مکھیاں بیٹھی ہوتی ہیں۔
’’آپ کو یاد ہے کہ ہم چہارم میں پڑھتے تھے۔‘‘ میں اس وقت قاسم کے پاس بیٹھا تھا۔’’ہم ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور پانچویں جماعت تک ہم اکٹھے پڑھتے آئے تھے۔‘‘
’’ہاں بھئی! یہ کوئی بھولنے والی بات ہے۔‘‘ قاسم نے مسکرا کر میری جانب دیکھا۔’’آپ کی لکھائی بہت اچھی تھی۔ جب استاد محترم تختی لکھواتے تو آپ کو انعام دیتے تھے۔‘‘ وہ جیسے اگلی بات سننا چاہتا تھا۔’’آپ کا قلم ایک دفعہ چوری ہوگیا تھا۔‘‘ میں ہچکچا رہا تھا۔’’ہاں ہوا تھا۔ اس کا اس بات سے کیا تعلق۔‘‘’’میں نے چوری کیا تھا۔‘‘ میں نے بڑی مشکل سے یہ بات کہی تھی۔’’کیا!!!‘‘ قاسم تقریباً چیخ پڑا۔’’جی ہاں! میں معافی کا طلب گار ہوں۔‘‘ میں نے قاسم کے چہرے کی جانب دیکھا۔’’مگر وہ تو پھر مل گیا تھا۔‘‘ قاسم کو کچھ یاد آرہا تھا، چونکہ بات بہت پرانی تھی۔’’رکھا بھی میں نے تھا۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔ ’’مگر یہ کیا! چوری بھی کی اور پھر رکھ بھی دیا۔‘‘اس کی حیرت ابھی کم نہیں ہوئی تھی۔میں جواب میں صرف مسکرا دیا۔’’پوری بات بتائیں احمد بھائی! میری الجھن میں اضافہ نہ کریں۔‘‘ اور پھر میں نے قاسم کو بتانا شروع کیا۔ ’’ہمارے استاد ہم سے تختی لکھواتے تھے۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ وہ بہت محنت کرواتے تھے۔ بہت شفیق اور مہربان تھے اور اچھا لکھنے والوں کو انعام بھی دیتے تھے۔ روپیہ یا دو روپے اور اپنے اس عمل سے وہ بچوں کے اندر شوق پیدا کیا کرتے تھے اور میری لکھائی بری نہیں تھی تو اچھی بھی نہیں تھی۔ بس واجبی سی تھی۔ کبھی انعام بھی مل جایا کرتا تھا لیکن بہت کم۔ آپ کی لکھائی بہت اچھی تھی اور اکثر انعام آپ ہی کو ملتا تھا۔ کیوں میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں۔‘‘ میرے جواب میں قاسم نے صرف ’’ہوں‘‘ کہا۔’’میرے اندر یہ شوق پیدا ہوا کہ میری لکھائی بھی آپ جیسی ہو جائے۔ بچگانہ ذہن تھا۔ مجھے خیال ہوا کہ آپ کا قلم بہت اچھا ہے اور یہ سارا کارنامہ مجھے قلم کا دکھائی دیا اور پھر ایک دن اپنی لکھائی کو اچھا کرنے کے شوق میں آپ کا قلم میں نے چرالیا۔ کلاس میں کوئی نہیں تھا اور میں نے قلم آپ کے بیگ سے نکال لیا تھا۔ اس دن میں بہت خوش ہوا کہ اچھا لکھنے والا قلم میرے پاس ہے اور میں جلدہی تختی لکھنے بیٹھ گیا’’یہ کیا‘‘ لکھائی ابھی بھی ویسی کی ویسی تھی، میں بہت پریشان ہوا۔‘‘ میں اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔ قاسم مسکرا رہا تھا۔ فوراً بولا:’’پھر کیا ہوا؟قلم رکھ کیوں دیا۔‘‘’’دوسرے دن یہ بات میں نے استاد محترم کو بتائی، انہوں نے کہا کہ قلم چپکے سے وہیں رکھ دو اورپھر انہوں نے میرے شوق کی خاطر مجھ پر محنت شروع کردی۔ آج الحمد للہ میں اچھا لکھ لیتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے قاسم کے چہرے کی جانب دیکھا۔’’آپ نے بہت اچھا کیا کہ رہنمائی کے لئے اپنے استاد محترم کو چنا۔ مجھے قلم چوری ہونے کا بڑا افسوس ہوا تھا، لیکن جب دوسرے دن مجھےوہ قلم مل گیا تو میں بہت حیران ہوا اور یہ معمہ آج تک نہ حل کرسکا تھا کہ قلم کسی نے اٹھا کر پھر رکھ کیوں دیا تھا۔ آپ نے میری الجھن دور کردی۔‘‘
مثالی زندگی گزارنے کا انداز ان بچوں سے سیکھیں
پیارے بچو!ردا ایک بہت پیاری بچی ہے۔ اس کے دو بھائی آصف اور کاشف بھی بہت ہونہار اور سمجھدار ہیں۔ تینوں بہن بھائیوں میں بہت پیار ہے۔ وہ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ کبھی ایک دوسرے سے نہیں لڑتے۔ ان کے والدین نے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ انہوں نے چھوٹوں سے محبت اور بڑوں کی عزت کرنا سکھایا ہے۔ خاص طور پر محلے میں سب ان کی مثال دیتے ہیں۔تینوں بچے اپنا کام خود کرتے ہیں۔ اپنا کمرہ خود صاف کرنا ان کا روز کا معمول ہے۔ اسی لئے گھر ہر وقت صاف ستھرا رہتا ہے۔ فالتو کاغذ یا فالتو چیزیں کوڑا کرکٹ وغیرہ ہمیشہ کوڑا دان میں ڈالتے ہیں۔ ان کے گھر میں کوئی چیز ادھر ادھر پھیلی ہوئی نظر نہیں آتی۔ تینوں بچے پڑھنے کے بعد اپنی کاپیاں اور کتابیں سنبھال کر رکھتے ہیں۔
ان کے کھلونے بھی شیشے کی الماری میں سجے ہوتے ہیں۔ تینوں بہن بھائی کھیلنے کے بعد کھلونوں کو الماری میں رکھ دیتے ہیں۔ اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں امی کو پریشان نہیں کرتے ہیں۔ردا گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں امی کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ کاشف اور آصف بھی کسی سے کم نہیں۔ وہ دوڑ دوڑ کر ابو کا کام کرتے ہیں۔ ان کے آفس بیگ کو احتیاط سے رکھتے ہیں۔ تینوں اپنے ابو کے آرام کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ کھیلتے وقت شور و غل سے پرہیز کرتے ہیں تاکہ ان کے آرام میں خلل نہ ہو۔ تینوں بہن بھائیوں کو باغبانی اور جانوروں سے محبت ہے۔ انہوں نے گھر میں ایک چھوٹا لان بنایا ہوا ہے جس میں بہت خوبصورت رنگ برنگے پھول لگے ہوئے ہیں۔ ایک طرف پھلدار درخت بھی ہیں۔ آم کے درخت میں تو جھولا بھی ڈالا ہوا ہے جس پر یہ باری باری جھولا جھولتے ہیں اور خوب خوش ہوتے ہیں۔ وہ پودوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں
کیونکہ پودے آلودگی کو ختم کرتے اور ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔انہوں نے آسٹریلین طوطے اور خوبصورت رنگ برنگی ننھی ننھی چڑیاں بھی پالی ہوئی ہیں۔ پرندے بھی ان سے بہت مانوس ہیں۔ ردا کے پاس بہت خوبصورت سفید بالوں والی بلی بھی ہے جس کی آنکھیں نیلی اور دم موٹی ہے۔ یہ بلی ردا کی ہر بات مانتی ہے۔ تینوں بچوں کے دوست جب بھی ان کے گھر آتے ہیں تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ انہیں ان کے گھر میں بہت مزا آتا ہے۔ ردا کی مما (والدہ)سب بچوں کے لئے کھانے کی بہت اچھی اچھی چیزیں بناتی ہیں۔ جنہیں سب مل کر مزے لے کر کھاتے ہیں اور مما کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ یہ سب مل کر پڑھتے اور کھیلتے ہیں۔ ان کی ماں نے ان کے لئے ایک چھوٹی سی لائبریری بھی بنادی ہے جس میں بچوں کی کہانیوں کی کتابوں کے علاوہ بہت سی معلوماتی کتابیں بھی موجود ہیں۔ ان سے بچوں کو نئی نئی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ بچے لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھتے ہیں اور پھر واپس اسی جگہ رکھ دیتے ہیں۔ ردا، آصف اور کاشف صفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کی صحت بھی اچھی ہے۔ روزانہ غسل کرتے ہیں۔ لباس کے ساتھ ساتھ ان کے دانت، ناخن اور بال بھی بالکل صاف ستھرے ہوتے ہیں ان کی اچھی صحت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ بازار کی چیزیں نہیں کھاتے جن پر مکھیاں بیٹھی ہوتی ہیں۔ان کی مما انہیں ہمیشہ گھر کی بنی ہوئی صاف ستھری چیزیں کھلاتی ہیں اور سکول کے لئے لنچ بکس بھی تیار کرکے دیتی ہیں کیونکہ باہر کی چیزیں بچوں کی صحت خراب کردیتی ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ گندے بچے ہمیشہ بیمار رہتے ہیں۔ جراثیم ہر وقت انہیں چمٹے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی صحت خراب رہتی ہے جو بچے بیمار رہتے ہیں وہ پڑھائی میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں اور جو صحت مند ہوتے ہیں وہ پڑھائی میں سب سے آگے ہوتے ہیں کیونکہ ان کا دماغ بھی صحت مند ہوتا ہے۔ ردا آصف اور کاشف کو صبح کی سیر‘ صبح جلدی اٹھنے کی عادت اوراسکے فوائد اور رات کو دیر سے سونے کے نقصانات بھی معلوم ہیں۔ یہ ہمیشہ اپنے دوستوں کو بھی بہت اچھی اچھی باتیں بتاتے ہیں۔ رات کو سونے سے پہلے ان کی مما انہیں سبق آموز کہانیاں سناتی ہیں جن سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ کہانیاں انہیں زندگی گزارنے کا طریقہ ، اٹھنے بیٹھنے اور بات چیت کرنے کے گر بھی سکھاتی ہیں۔ ان بچوں سے ان کے عزیز رشتے دار محلے دار اور اساتذہ بہت محبت کرتے ہیں۔بچوں یہ تینوں بہت پیارے بچے ہیں۔ ان کی مثالی زندگی ہے ہم سب کو چاہیے کہ بہترین زندگی گزارنے کے لئے ان کی طرح کی اچھی اچھی باتیں سیکھیں اور بڑے ہوکر ملک کے اچھے شہری بنیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں