سیرت پاک کا مطالعہ کرنے اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ زندگیوں کی تفصیل سامنے آنے سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ جس انسان پر نگاہ ڈال دیتے ہیں یا جس کے حق میں دعائیہ کلمات آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکل جاتے ہیں تو اس کی زندگی میں باری تعالیٰ ایسی برکتوں کو نازل فرماتے ہیں کہ جس کا وہم و گمان اور تصور نہیں کیا جا سکتا ۔حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں کچھ کھجوریں اور گھی پیش کیا جناب رسول اللہ ﷺ نے تناول فرمایا اور اس کے بعد گھر کے ایک کونہ میں مصلٰی بچھا کر نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے اور نماز کے بعد آپ ﷺ نے اہل خانہ کے لئے دعا فرمائی‘ اُم سلیم رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے بیٹے ’’انس ‘‘ کو لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! یہ میرا بیٹا ہے اور آپ ﷺ کا خادم ہے اس کے حق میں دعا فرما دیجئے حضرت محمد مجتبیٰ و مرتضیٰ ﷺ نے فورا ً دعا فرمائی
(صحیح البخاری : 1982) ۔یہ تین دعائیں آپ ﷺ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں اپنی زبان مبارک سے ادا فرمائیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں پیغمبر علیہ الصلٰوۃ و السلام کی دعائوں کی قبولیت کے بڑے نمایاں آثار دیکھے اللہ تعالیٰ نے مالی اعتبار سے اتنی فراخی اور وسعت عطا فرمائی کہ قبیلہ انصار میں مجھ سے زیادہ مال دار اور صاحب ثروت کوئی دوسرا نہیں تھا اور فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی دعا کی برکت سے میرے باغ میں سال میں 2 مرتبہ پھل آیا کرتے تھے جبکہ عام لوگوں کے باغات میں سال میں ایک ہی مرتبہ آتے تھے اور جہاں تک اولاد میں برکت کا تعلق ہے فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے اولاد میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ اب تک 12 سے زائد اپنی اولاد کو دفن کر چکا ہوں ۔ جناب رسول کریم حضرتمحمد ﷺ کی ان دعائوں کی برکت سے مال میں بھی غیر معمولی برکت ہوئی اولاد میں بھی اور عمر میں بھی ۔
اونٹ تیز رفتار ہو گیا:اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر سے واپس آ رہا تھا نبی کریم ﷺ بھی ساتھ تھے میرا اونٹ تھک گیا اور اتنا تھک گیا کہ وہ چلنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا تھا فرماتے ہیں‘ میرا جی چاہا کہ اس اونٹ کو چھوڑ دوں اور کسی دوسری سواری کا انتظام کروں تاکہ قافلہ کے ساتھ چل کر اپنی منزل تک پہنچ سکوں‘ نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ میں پریشان ہوں‘ پوچھا کہ جابر کیا وجہ ہے ؟ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ایسی صورت حال ہے‘ اونٹ لاغر اور کمزور ہو گیا ہے چلنے کی سکت اور ہمت اس کے اندر نہیں جناب رسول اللہ محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور پھر حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اونٹ کے پیچھے گئے اور آپ ﷺ نے دعا فرمائی۔
سیدنا حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پیغمبر علیہ الصلٰوۃ و السلام کا دعا فرمانا تھا کہ قافلہ میں سب سے تیز رفتار میرا اونٹ ہو گیا جو اب تک لاغر ہونے کی وجہ سے چلنے کی سکت نہیں رکھتا تھا آپ کی دعا کی برکت سے اس کے اندر روانی اور تیز رفتاری آ گئی (سنن النسائی ‘ 4651) ۔
لا علاج مریض شفا یاب ہو گیا:حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو اُن کے والد حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی خدمت میں لے کر گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ محمد ﷺ ! میرے اس بیٹے کے حق میں دعا فرما دیجئے حضورنبی کریم ﷺ نے ان کے لئے دعا کے کلمات ارشاد فرمائے ‘اللہ تعالیٰ تمہاری زندگی میں برکت عطا فرمائے عمل میں برکت عطا فرمائے‘ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی اس دعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے میرے ہاتھ میں یہ تاثیر پیدا فرما دی کہ لاعلاج مریض پر بھی اگر میں اپنا ہاتھ رکھ دیا کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی شفا عطا فرما دیا کرتے تھے‘ فرماتے تھے کہ بعض ایسے مریض آئے کہ جن کا جسم متورم ہو گیا تھا اور کوئی دوا ان کے لئے کار گر نہیں ہو رہی تھی میں نے ان کے جسم پر ہاتھ رکھا فورا ً ان کا ورم دور ہو گیا ۔ (مسند احمد 20941 ‘ ص 1498) ۔اس طرح کے واقعات سیرت طیبہ میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی میں کثرت کے ساتھ ملتے ہیں جن کے لئے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے دعائیہ کلمات نکل گئے دنیا و آخرت میں کامیابی ان کا مقدر بن گئی اور اگلے ہی لمحے انہوں نے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دعا کااثر اور نتیجہ بھی دیکھا ۔دل کی دنیا بدل گئی:حضرت ابو مخدورہ رضی اللہ عنہ مشہور مؤذن ہیں پیغمبر ﷺ نے ان کو مسجد حرام کا مؤذن متعین کر دیا تھا اور ایک عجیب واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا نبی کریم ﷺ غزوئہ حنین سے واپس آ رہے تھے راستہ میں ایک جگہ قافلہ کا پڑائو ہوا‘ نماز کا وقت آیا تو اذان دی گئی جب اذان ہوئی تو بچوں نے اذان کی نقل اتارنی شروع کر دی‘ آپ ﷺ کو علم ہوا کہ اس طرح کچھ نو عمر بچے ہیں جو اذان کی نقل اتار رہے ہیں‘ نبی اکرم ﷺ نے سب کو بلوایا پیغمبر ﷺ نے ایک ایک کر کے سب سے اذان کے کلمات سنے آپ ﷺ نے محسوس کیا کہ سب سے بلند آواز ان میں ابو مخدورہ رضی اللہ عنہ کی ہے بقیہ کو آپ ﷺ نے چھوڑ دیا اور ابو مخدورہ رضی اللہ عنہ کو روک لیا اور جناب رسول اللہ محمد ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم اذان کے کلمات اپنی زبان سے ادا کرو ۔ چنانچہ انہوں نے دبائو میں آ کر اذان کے کلمات ادا کر لئے ۔ شروع کے کلمات تو انہوں نے آسانی کے ساتھ ادا کر لیے کیونکہ ان میں اللہ کی کبریائی اور بڑائی کو بیان کیا گیا ہے لیکن جب اگلا جملہ آیا ’’اشھدُ ان لا الہ الا اللہُ ‘‘ تو ابو مخدورہ رضی اللہ عنہ کے دل میں چونکہ ابھی ایمان کا نور نہیں آیا تھا اس لئے ان کلمات کو ادا کرنے کی اندر سے ان کی طبیعت اجازت نہیں دے رہی تھی آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دبائو میں وہ کلمات کیوں نہ دہراتے‘ مجبور تھے اس لئے جب’اشھدُ ان لا الہ الا اللہُ ،اشھدُ ان مُحمدا رسولُ اللہ حضرت ابو مخدورہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب محمد ﷺ کا میری پیشانی پر ہاتھ رکھنا تھا اور اپنی زبان سے کچھ ادا کرنا تھا ۔ میں نے اپنے دل کو بالکل تبدیل محسوس کیا اب تک جو دل ان کلمات کو زبان سے ادا کرنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا نبی کریم ﷺ کی اس توجہ کا یہ نتیجہ ہوا کہ مجھے ان کلمات کی ادائیگی میں شرح صدر ہو گیا اور اللہ نے مجھے پیغمبر ﷺ کے دامن سے وابستہ کر دیا آپ ﷺ کا غلام بن گیا ایمان دل کے اندر اتر گیا اب بڑی بلند آواز سے انہوں نے اشھدُ ان لا الہ الا اللہ کہا اور حضرت ابو مخدورہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اس واقعہ سے پہلے پیغمبر ﷺ کی شخصیت میری نگاہ میں نہایت نا پسندیدہ تھی لیکن سرکار دو عالم ﷺ کی اس توجہ کا یہ اثر ہوا کہ اس واقعہ کے بعد آپ ﷺ سے زیادہ محبوب شخصیت اس روئے زمین پر دوسری نہ تھی پھر جب اذان دے دی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جائو اللہ تعالیٰ کے گھر میں جاکر اذان دو وہاں پر اذان دینا تمہاری ذمہ داری ہے تو آپ ﷺ کی ایک توجہ اور ایک دعا نے ابومخدورہ رضی اللہ عنہٗ کے دل کی دنیا بدل دی اور فرش سے عرش پر اُن کو پہنچا دیا اور پھر جناب رسول اللہ محمد ﷺ سے)
ابو مخدورہ رضی اللہ عنہ کو اتنی محبت و عقیدت ہو گئی تھی کہ وہ محبت و عقیدت مثال تھی اتنی محبت کہ سر کے جن بالوں پر پیغمبر ﷺ کا دست مبارک لگ گیا تھا اخیر عمر تک انہوں نے ان بالوں کو کٹوایا نہیں کہ میرے آقا ﷺ کا ہاتھ ان بالوں پر لگا ہوا ہے اور اخیر عمر تک جو اذان دیتے رہے اس میں وہ چار مرتبہ ’’اشھدُ ان لا الہ الا اللہُ ‘‘ کہتے اور چار مرتبہ ’’اشھدُ ان مُحمدا رسُولُ اللہُ ‘‘ کہتے اور وہ چار مرتبہ اس لئے کہتے تھے کہ حضور ﷺ نےابتدا ء میں ان کو اذان سکھلائی تھی تو اس میں آپ ﷺ نے چار مرتبہ کہا تھا (سنن النسائی ‘ 232 ‘ 233) ۔
مثالی تربیت:آپ ﷺ کی تربیت اور توجہ فرمائی کا انداز لاجواب و بے مثال تھا۔ ایسے ایسے لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں آیا کرتے تھے کہ جو سر سے پیر تک معاصی میں غرق اور گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے اور ایسے ایسے سوالات آپ ﷺ سے کیا کرتے تھے کہ مجلس میں بیٹھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو غصہ آ جاتا لیکن حضور نبی کریم ﷺ ایسی محبت کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے اور ایسی شفقت سے ان کو جواب دیا کرتے کہ مجلس سے تائب ہو کر جاتے۔ ایک صاحب حاضر ہوئے اور خدمت اقدس ﷺ میں حاضر ہو کر بڑا عجیب سوال کیا کہ ’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے زنا کی اجازت دے دیجئے ۔ ‘‘حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ سن کر غصہ میں بھر گئے کہ یہ کیا گستاخی کر رہے ہیں‘ نبی کریم ﷺ سے ایسی چیز کی اجازت طلب کر رہے ہیں جس کو قرآن کریم میں ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ان صاحب کو اس سوال سے باز رکھنے کے لئے کھڑے ہوگئے جناب رسول اللہ محمد ﷺ نے سب کو بٹھا دیا آپ ﷺ نے بہت توجہ کے ساتھ اس نوجوان سے گفتگو فرمائی سب سے پہلے آپ ﷺ نے اس نوجوان سے سوال کیا۔پوچھا کیا تو اپنی ماں کے لئے اس عمل کو پسند کرو گے۔اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں کوئی بیٹا کیسے گوارہ کر سکتا ہے کہ اس کی ماں کے ساتھ یہ عمل کیا جائے ؟حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم اپنی ماں کے ساتھ یہ عمل گوارہ نہیں کر سکتے تو جس سے زنا کی تم اجازت مانگ رہے ہو اس کا رشتہ بھی تو کسی کے ساتھ ماں کا ہوگا؟ پھر آپ ﷺ نے پوچھا: کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ تمہاری بیٹی کے ساتھ یہ کیا جائے۔ انہوں نے جواب دیا:۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں کوئی شخص یہ گوارہ نہیں کرسکتا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ یہ عمل ہو تو حضور ﷺ نے فرمایا جس عمل کی تم اجازت مانگ رہے ہو تو اس عورت کا رشتہ بھی تو کسی کے ساتھ بیٹی کا ہوگا؟ کیسے اس کا باپ اس کو گوارہ کرے گا؟ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم اپنی بہن کے لئے یہ گوارہ کرو گے؟ کیا تم اپنی بیوی کے لئے اور اپنی خالہ وغیرہ کے لئے اس کو گوارہ کرو گے؟ اس طرح بالترتیب جتنے رشتے تھے آپ ﷺ ان کو ذکر فرمایا اخیر میں آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور ارشاد فرمایا: ۔’’اللہ العالمین ! اس نوجوان کے گناہ کو معاف فرما اس کے دل کو پاک و صاف فرما اور اس کی شرم گاہ کو محفوظ فرما۔‘‘وہ صحابی فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی اس دُعا کا اثر یہ ہوا کہ زناکی نفرت دل میں پیدا ہو گئی اور اس کے بعد کبھی بھی دل کے اندر گناہ کا ارادہ پیدا نہ ہوا ‘‘ (مسند احمد ‘ 22211) ۔یہ زبان نبوت کا کمال تھا کہ جو مجرم ہے جرم کا عادی ہے اور جرم کی محبت اس کے اندر رچی اور بسی ہوئی ہے اس کی اجازت لینے کے لئے آقاﷺ کے دربارعالیہ میں آیا ہے اور اللہ کے رسول ﷺکی زبان کے دُعائیہ جملے اور آپﷺ کا انداز تربیت اس مجرم کے لئے ہدایت کا باعث اور ذریعہ بن جاتا ہے اس میں بھی یہ تعلیم دی کہ بڑے سے بڑا گنہگار ہو پاپی ہو بدعمل ہو اس کی ذات سے نفرت نہیں کرنی چاہئے بلکہ جس بیماری کے اندر یہ مبتلا ہے اللہ اسے اس سے محفوظ فرمائے۔ اس کی ہر حکمت تدبیر ہونی چاہیے جس طرح مریض جسمانی مریض ہوتا ہے بیمار ہوتا ہے تو اس کے دوستوں اور متعلقین کو اس مریض کے اوپر رحم آتا ہے۔ ہمدردی کے جذبات دل میں پیدا ہوتے ہیں اسی طرح جو انسان گناہوں کی نجاست کے اندر ڈوبا اور غرق ہے وہ بھی روحانی مریض ہے اس کی حالت بھی قابل رحم اور قابل ترس ہے اور اگر یہ سمجھ کر اس کو اپنے سے دُور کردیں کہ یہ تو گناہوں میں غرق ہے وہ بھی روحانی مریض ہے اس کی حالت بھی قابل رحم اور قابل ترس ہے اور اگر یہ سمجھ کر اس کو اپنے سے دُور کردیں کہ یہ تو گناہوں میں غرق نافرمانی کے اندر ڈوبا ہوا ہےتو پھر اس کا علاج میں کامیابی نہیں مل پائے گی حضور پاک ﷺ کا یہ عمل امت کو یہی سبق دیتا ہے اور لوگوں کو ہدایت پر ڈالنے کا راستہ دکھاتا ہے تو یہ کمال ہے آپ ﷺ کی زبان مبارک کا ۔یہ تمام واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب ﷺ کو جو زبان عطا فرمائی تھی وہ غیر معمولی تاثیر کی حامل تھی ۔ زبان سے جو نکل گیا بار گاہ الٰہی میں قبول ہو گیا ۔نشانہ بھی نہ چوکا: ایک صحابی ہیں سیدنا حضرت سعد رضی اللہ عنہ ان کے لئے آپ ﷺ نے دُعا فرمائی کہ اللہ العالمین ! سعد کی دُعائوں کو قبول فرما اور اس کے نشانے کو راست فرما ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے حق میں آپ ﷺ کی دونوں دُعائیں قبول ہوئیں اور نشانے کی درستی کا معاملہ تو یہ ہے کہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی دُعا کے بعد کبھی ایسا نہ ہوا کہ تیر چلایا ہو اور نشانے نے خطا کی ہو جس چیز پر تیر چلاتا وہیں جا کر پیوست ہو جاتا تھا (مجمع الزوائد) تو یہ کمال ہے زبان رسالت کا اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے حبیب نبی کریم ﷺ سے سچی محبت کرنے والا بنائے ۔ آمین ۔ (بشکریہ!ماہنامہ الاحرار)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں