ہمارے علاقہ کے ایک بڑے زمیندار جن کا ہم سے خاندانی تعلق ہے۔ تین دفعہ پنجاب اسمبلی کے ممبر بنے ہیں۔ یہ واقعہ دس بارہ سال پہلے کا ہے ۔ان کی رہائش لاہور میں تھی اپنے علاقے کی ایک غریب بچی کو انہوں نے گھر میں خادمہ رکھا ہوا تھا۔ چھوٹی بچی تھی جو کافی عرصہ سے اپنے والدین کو ملنے گھر نہیں گئی تھی۔اس کے عزیزوں میں شاید کوئی شادی وغیرہ کی تقریب تھی اس لئے اس بچی کی نانی اسے لینے کیلئے لاہور آئی تو ملک صاحب نے بچی کو گھر بھیجنے سے انکار کر دیا۔ کافی منت سماجت کی مگر موصوف نہ مانے تو اس کی نانی نے کہا کہ میں نے نوکری نہیں کروانی۔ بچی کو زبردستی ساتھ لانے لگی تو ملک صاحب نے راستہ روک لیا وہ بچی کو اوپر والی منزل سے ساتھ لا رہی تھی راستہ روکنے پر اس عورت نے ملک صاحب کو دھکا دیا۔جسم کافی بھاری تھا، لڑکھڑا کر گر پڑے اور ٹانگ ٹوٹ گئی مگر دوسرے ملازموں کی مداخلت سے بچی کو نہ جانے دیا۔ مجبوراً اس لڑکی کی نانی نے پولیس سے رجوع کیا بڑا آدمی ہونے کی وجہ سے اس عورت کی بات کسی نے نہ سنی تو اس نے عدالت عالیہ میں درخواست بھیج دی اور اخبارات کے دفتر میں بھی جاکر اپنی کہانی سنائی۔ عدالت کی مداخلت پر پولیس کو کارکردگی دکھانی پڑی۔ یوں پولیس بچی کو ڈھونڈنے لگی۔ اس عورت نے بھی کمر کس لی اور جہاں کہیں پتہ چلتا وہاں ہی پولیس کو لے کر جاتی۔ ملک صاحب ہر روز نئی نئی جگہ پر بچی کو چھپاتے رہے۔ کمال دلیری سے وہ اکیلی عورت بھی کوشش میں لگی رہی۔ اسی دوران بی بی سی لندن والوں کو بھی واقعہ کا علم ہوا تو انہوں نے بھی خصوصی طور پر اس واقعہ کو اپنی رات کی نشریات میں شامل کیا یوں سرکاری طور پر بھی بچی کو ڈھونڈنے میں تیزی آگئی۔ آخر کار کئی مہینوں کی کوشش کے بعد اس بچی کی نانی نے سکھر سے اس بچی کو بازیاب کروایا۔ وہ لوگ اتنے غریب تھے کہ لاہور تک کا کرایہ بھی مشکل تھا۔ لوگوں سے مدد مانگ کر اس کام میں لگی رہی۔ عدالتی یا انتظامی طور پر تو ملک صاحب کو کچھ نہ ہوا مگر اللہ کی طرف سے سزا شروع ہو گئی۔ پہلے ٹانگ ٹوٹی تھی پھر اپنی زمین ٹھیکہ پر دی ہوئی تھی ٹھیکیدار بیچارے نے رات کے وقت گندم تھریشنگ کر کے رکھی تھی کہ راتوں رات ملک صاحب نے اٹھوا لی اور کسی بیوپاری کو بیچ دی۔ مطالبہ پر دھمکیاں دینے لگا۔ بات دھمکیوں سے آگے بڑھی تو ملک صاحب موصوف نے ان ٹھیکیداروں پر چوری کا الزام لگایا کہ میری والدہ کے گھر انہوں نے چوری کی ہے جبکہ خلق خدا کی زبان پر یہ بات تھی کہ ملک صاحب چونکہ بھوکے ہیں۔ انہوں نے خود چوری کروائی ہے ورنہ ان کے ہاں آناچوروں کی جرات نہیں ہے۔
ایک بات اور عرض کروں کہ 1988کے الیکشن میں موصوف نے جہانیاں میں تین مرلہ سکیم کے نام سے پوری کالونی کو بیچا اور لوگوں سے فائلوں کے عوض بہت رقم کمائی۔ اس وقت ان کے پاس بڑی لمبی لمبی گاڑیاں ہوتی تھی اور آج کل سائیکل پر ہوتے ہیں۔ کچھ معززین نے ٹھیکیداروں کے ساتھ معاملہ طے کروایا کہ جتنے عرصے کا ٹھیکہ ادا کیا ہے وہ فصل کاشت کریں جب کپاس کی فصل تیار ہو گئی تو ملک صاحب پھر زبردستی چنوائی کروانے لگے۔ وہاں پر جھگڑا ہوا۔ ان کی فائرنگ سے ٹھیکیداروں کا آدمی زخمی ہوا۔ انہوں نے پرچہ درج کروایا، ملک صاحب حوالات سے ہوتے ہوئے جیل چلے گئے تین چار ماہ تک ضمانت نہیں ہو رہی تھی۔ ہر پندرہ دن بعد پولیس جوڈیشل ریمانڈ کیلئے جہانیاں لاتی کچھ لوگ دیکھ کر ہنستے اور کچھ سنجیدہ لوگ اللہ کا عذاب سمجھ کر توبہ کرتے۔ آخر کار پھر چند معززین علاقہ نے صلح کروائی اور ان کی ضمانت ہوئی۔
ایک دفعہ مجھے انہوں نے کسی کام کیلئے ڈیرے پر بلایا۔ جب میں وہاں گیا تو ڈیرے کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ایک وہ وقت تھا جب رات دن وہاں لوگوں کا ہجوم رہتا تھا اور ایک یہ دن کہ بلا مبالغہ کم از کم ایک مہینہ سے ڈیرے میں کسی نے جھاڑو نہیں دیا ہو گا۔ جو لوہے کی کرسیاں اور چارپائیاں بیٹھنے کیلئے پڑی تھیں۔ ان پر کتے بیٹھے ہوئے تھے۔ اطلاع کرنے پر ملک صاحب تشریف لائے۔ باتوں کے دوران انہوں نے اپنے ملازم کو کہا کہ جائو بنیادی مرکز صحت سے پتہ کر کے آئو کہ ڈاکٹر آگیا ہے یا نہیں۔ پھر خود ہی کہنے لگے کہ بچے شرارتوں سے باز نہیں آتے۔ کل ابراہیم گھر کی چار دیواری پر چڑھ کر دوڑ رہا تھا تو گر گیا۔ کافی چوٹیں آئی ہیں، ان کی پٹی کروانی ہے۔ (ابراہیم ان کے بیٹے کا نام ہے) ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ دو دن بعد پتہ چلا کہ ابراہیم گرا نہیں تھا بلکہ باپ بیٹا لڑے تھے۔ باپ نے اسے بہت مارا تھا۔ بیٹے نے تھانے میں FIR درج کروائی۔ باپ کو جیل بھجوا دیا کئی ماہ تک پھر ضمانت نہ ہوئی اسی دوران بیٹی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ہمارا باپ بہت ظالم ہے۔ ہمیں مارتا ہے۔ میں سکول کا خرچ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکی۔ ایسے ظالم باپ سے کسی اور کو بھلائی کی کیا توقع ہے۔ملک صاحب نے زرعی ٹیکس سے بچنے کیلئے زمین اپنی اولاد کے نام بھی کروا رکھی تھی۔ جب جیل میں کچھ وقت گزرا تو ملک صاحب کے ماموں جان جو اس وقت غالباً MPA تھے۔ ابراہیم کو منا کر صلح کروائی۔ اس شرط پر کہ جو زمین ہمارے نام ہے اس کو ہم خود ٹھیکہ پر دیں گے۔ بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ اس کی بیوی نے عدالت کے ذریعے خلع لے لیا۔ اب وہی ملک صاحب جب بائیسکل پر اپنے گھر سے اڈے پر آتے ہیں تو اکثر دکاندار ان کو آتا دیکھ کر ادھر ادھر ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جہاں بیٹھتے ہیں گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ مزید ذلت یہ کہ اپنے ماموں کے خلاف الیکشن میں مخالفین کی سپورٹ کرتے ہیں۔ وہ شخص جس نے ان کا عروج بھی دیکھا ہو اور اب زوال بھی دیکھا ہے تو ضرور خدا سے پناہ مانگتا ہے مگر موصوف کو اللہ نے شاید توفیق ہی نہیں دی کہ نماز اور توبہ کی طرف آسکیں۔ اللہ ان کی حالت پر رحم فرمائے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 783
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں