یہ قصائی کی دکان ہے
سنار حضرات صبح دیر سے دکان کھولتے ہیں کیونکہ زیورات کی خریدو فروخت کا کام دیر سے شروع ہوتا ہے اور زیورات کے بنوانے یا اٹھانے میں کوئی خاص جلدی نہیں ہوتی۔ ہمارے علاقے میں ایک سنار تھا جس کا بہت نام تھا اور اس کے زیورات بہت خالص شمار ہوتے تھے ۔ علاقے کے لوگ اس پر پورا اعتماد کرتے تھے ۔ اس کی پیٹی میں ہر وقت 100تولے سونا موجود ہوتا تھا اور کافی تعداد میں زیورات تیار ہوتے تھے اور روزانہ کا لین دین اس کے علاو ہ تھا۔ ایک دن اپنی دکان پر آیا ہی تھا اور اپنی سیف سے زیورات نکال کر شوکیس میں لگا رہا تھا کہ ایک سائل آیا اور اس نے صدا لگائی اور خیرات کیلئے بار بار کہا۔ اس سنارنے تنگ آکر اور طنزاً کہا کہ کیا یہ قصائی کی دکان ہے کہ جس میں صبح صبح آمدنی ہو جاتی ہے اور کہا کہ ابھی جائو کوئی آمدنی نہیں ہوئی۔ بس یہ تکبر، غرور اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کو قتل کر دیا گیا۔ اولاد سنار کے کاروبار کو سنبھال نہ سکی۔ حتیٰ کہ سارا کاروبار تباہ ہو گیا، دکان بند ہو گئی۔ دکان بھی ایسی بنی ہوئی تھی کہ اس کے ساتھ کی دکان علاقے میں نہیں تھی۔ سنگ مرمر لگا ہوا۔ درمیان میں سیف/ پیٹی کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ شیشہ لگا ہوا تھا۔ پیچھے کاریگروں کے بیٹھنے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ جب جائیداد کی تقسیم ہوئی تو یہ دکان بڑے بیٹے کے حصہ میں آئی۔ بڑا بیٹا کچھ نہیں کرتا تھا اور اس کے دوست بھی اچھے نہیں تھے۔ بڑے بیٹے کے دوستوں میں ایک قصاب بھی تھا۔ اس نے کہا کہ دکان بند پڑی ہوئی ہے۔ مجھے دے دواور بڑے بیٹے نے اپنے قصاب دوست کو دکان دے دی۔ اب اسی سنار کی دکان میں قصاب کی دکان ہے۔ سیف/ پیٹی ویسی پڑی ہے۔ جہاں کاریگر بیٹھتے تھے وہاں ہڈیاں/ گوشت کاٹتے ہیں۔ اللہ کو غرور پسند نہ آیا۔ واقعی اسی دکان میں اب قصائی بیٹھا ہے۔ سنار نے سائل کو کہا تھا کہ کیا قصائی کی دکان ہے؟ اللہ نے کر دکھایا کہ اب وہاں گوشت فروخت ہو رہا ہے۔
صحت مند بیوی چل بسی
میاں بیوی کا رشتہ بڑا نازک ہوتا ہے اور خاص طور پر جب دونوں بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اولاد اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہے تو دونوں ایک دوسرے کے بڑھاپے کا سہارا ہوتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں بوڑھے میاں بیوی رہتے تھے ۔اولاد کراچی میں کمانے کیلئے گئی ہوئی تھی۔ ہمسائے نیک دل تھے جو ہر قسم کی امداد کرتے تھے اور اولاد کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔ میاں کا نام خدا بخش تھا۔ خدا بخش بڑی عمر کا تھا جبکہ اس کی بیوی قدرے جوان تھی اور بیوی ہر وقت لڑتی جھگڑتی رہتی تھی اور ہر وقت گلہ کرتی رہتی کہ اس نے کچھ نہیں کمایا۔ کوئی بندوبست نہیں کیا۔ میاں کہتا کہ نیک بخت شکر کرو کہ محنت مزدوری میں سے اللہ تعالیٰ نے اس مہنگائی کے دور میں سر چھپانے کے لئے چھت دی ہے، اولاد دی ہے مگر بیوی ہر وقت اپنے خاوند کو طعنے دیتی رہتی تھی۔ جب بھی خدا بخش گھر واپس آتا بیوی کی جھاڑ سننا پڑتی تھی لیکن اسکے باوجود خاموشی سے گزارہ کرتا رہتا اور بیوی کی کڑوی باتوں کے جواب میں ہمیشہ اسے نیک بخت کہہ کر ہی پکارتا تھا۔ روز روز کی باتوں نے خدا بخش پر ایسا اثر کیا کہ وہ بیمار رہنے لگا اور حتیٰ کہ بیماری ایسی بڑھی کہ وہ چارپائی کیساتھ لگ گیا۔ اب بیوی کا غصہ مزید بڑھ گیا۔ میاں کی خدمت کرتے ہوئے ہر وقت بڑبڑاتی رہتی تھی۔ خدا بخش اٹھ نہیں سکتا تھا، چل پھرنہیں سکتا تھا۔ پیشاب وغیرہ چارپائی پر کرنا پڑتا تھا اور اس کام کیلئے اسکو بیوی کی مدد لینا پڑتی تھی۔ جب بھی خدا بخش بیوی کو بلاتا تو بیوی یہی جواب دیتی کہ ”ابھی تک تو مرا نہیں ہے“ میں تو روزانہ انتظار کرتی ہوں کہ تو مر جائے جبکہ خدا بخش کہتا تھا کہ تو میری خدمت کر کے ثواب کمالے۔ مگر بیوی یہی کہتی تھی کہ ”مجھے ثواب کی ضرورت نہیں ہے تو جلدی مر“ اور خدا بخش خاموش ہو جاتا۔ قریب کے تمام ہمسائے خدا بخش کی بیوی کو سمجھاتے تھے کہ بیماری اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس میں خدا بخش کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ معذور ہو گیا ہے تو بیوی کو ہی خدمت ودیکھ بھال کرنی چاہئے مگر الٹا بیوی گھر آکر خدا بخش کو گالیاں دینے لگتی کہ تو نے ہمسایوں کو میری شکایت کی ہے اور دن رات خدا بخش کے مرنے کی دعائیں مانگنے لگتی۔ ایک رات سونے سے پہلے خدا بخش کی بیوی نے کہا کہ اگر اس نے رات کو کسی حاجت کیلئے اٹھایا تو وہ نہیں اٹھے گی کیونکہ اس کی نیند خراب ہوتی ہے۔ خدا بخش اچھا کہہ کر سو گیا۔ صبح ہو گئی صبح کے سات بج گئے مگر اس کی بیوی نہ اٹھی۔ خدا بخش نے ڈرتے ڈرتے بیوی کو آواز دی مگر کوئی جواب نہ آیا۔ منہ سے رضائی ہٹائی تو دیکھا کہ اس کی بیوی مری پڑی تھی وہی بیوی جو ہر وقت اپنے خاوند کے مرنے کی دعائیں مانگتی تھی۔ جس کو غرور تھا کہ ابھی جوان ہے وہ خود مر گئی جبکہ اس کا خاوند جو بیمار تھا وہ زندہ ہے اور تندرست ہو گیا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں