اللہ کا فضل اور اللہ کا عدل: اللہ والو!قیامت کے دن ایک بندہ اللہ سے کہے گا کہ یااللہ میرے ساتھ عدل والا معاملہ کیا جائے۔ اللہ پاک فرمائیں گے’’ میرا فضل مانگ ،میری رحمت مانگ ، میرا عدل نہ مانگ۔‘‘وہ بندہ پھر کہے گا :’’یا اللہ میرے ساتھ عدل والا معاملہ کیا جائے توپھر اللہ پاک فرمائیں گے’’ کہ اس کی آنکھ والی نعمت جو ہم نے اسے دی تھی اس کا حساب کیا جائے۔ جب اس کی آنکھ کا حساب کیا جائے گا تواس کی ساری نیکیاں ذرہ بن جائیں گی اور وہ نیکیوں سے خالی کھڑا ہوا ہوگا اور پھر اللہ پاک سے کہے گا :’’یااللہ تو رحمت فرما اور فضل فرما۔‘‘ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا ۔اس نے بہت عبادت کی ۔یہاں تک کہ اس کے تن کے کپڑے پھٹ گئے اوراس کے سر میں پرندوں نے گھونسلے بنا لیے۔صدیو ں عبادت کی،اس وقت عمریں لمبی ہوا کرتی تھیں۔ اللہ پاک نے اس کی عبادت سے خوش ہو کرفرشتوں سے کہاکہ اس بندے سے جاکر پوچھو کیا مانگتاہے میں عطا کروں گا۔اس عابد نے پیغام لانے والے فرشتوں کوبڑی بے اعتنائی سے کہا کہ’’ اللہ پاک سے عرض کریں کہ میرے ساتھ عدل کریں۔ میں نے اتنی عبادت کی ہے کہ صدیاں اس عبادت میںبیت گئیں۔‘‘پھر اللہ پاک نے فرشتے کو بھیجا اس سے جاکر پوچھ’’ کیا مانگتاہے ‘‘وہ کہنے لگاکہ’’ اللہ سے عرض کریںکہ مجھ سے عدل کریں‘‘اس پر اللہ کی قہاری کو جلال آیا ، اللہ پاک نے فرمایا’’ٹھیک ہے اتنی صدیاں اس نے زمین کے اوپرجو سواری کی ہے، اب زمین اس کے اوپر سواری کرے گی۔‘‘ اس کو پلٹ دیاگیا اور اب زمین کو اس کے اوپر ڈال دیاگیا۔
نعمتوں کی فراوانی بطور آزمائش: بعض اوقات انسان برے حالات میں ہوتاہے،سخت مشکلات میں ہوتاہے ، مسائل و مصائب میں ہوتاہے۔ پھر اللہ کچھ نعمتیں عطافرماتا ہے ۔اب اگروہ شکر سے محروم رہتا ہے تووہ نعمتیں تھوڑے عرصہ کیلئے ہوتی ہیں، اللہ ان نعمتوں کو پھر چھین لیتاہےاوراللہ فرماتاہے کہ میں نے یہ نعمتیں تجھے آزمانے کیلئے دی تھیں تاکہ معلوم ہو کہ تو شکر کرتاہے یا وہی نا شکری کرتاہے، تیرا ہر پل، ہر سانس شکر گزاری کرتا ہے یا ناشکری کرتاہے؟ اوراگر اس کا ہر ہر سانس ان نعمتوں پرشکرگزاربن جاتاہے اوردل کی گہرائیوں سے اپنی تنہائیوں میں بھی اور اپنے ظاہر وباطن میں بھی ،توپھر اللہ پاک اس کیلئے اور اس کی نسلوںکیلئے بھی برکتوں اوررحمتوںکے دروازے کھول دیتاہے۔ توعافیت ملنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ جو یہ چاہتاہے کہ اُس کو عافیت کی نعمت میسر ہو،تو اسے چاہیے کہ وہ ہر وقت شکر کرے۔
مسنون دعاؤں کا اہتمام اور صدقات:ایک تو ہم سب مسنون دعاؤں کا اہتمام کریںاور دوسرا سبب عافیت کا نظام پانے کا میں نے یہ عرض کیاہے کہ: صدقات کا اہتمام کریں۔ میں لاہورسے سات دن باہر رہا اس دوران میںنے اسّی سال سے زائدعمرکے درویش تلاش کیے۔ ایک تو میرے والد صاحب کے دوست مل گئے جو ابّا جی سے بھی بڑے تھے۔ تین دفعہ میں ان کے گھرگیا۔ایک دفعہ ان کے ہاں گیاوہ نہیں ملے ،کسی جنازے پر گئے ہوئے تھے۔ دوسری دفعہ ان کے ہاں گیا تو معلوم ہوا کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مزارات پر گئے ہوئے ہیں(صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے مزارات قلعہ ڈیر اور بہاولپور کے پاس واقع ہیں)جب تیسری دفعہ گیا تو وہ بزرگ مل گئے ۔رات کا وقت تھا۔ میں نے ان سے پوچھا ’’کہ جب پاکستان بنا تھاتب آپ کی عمر کیا تھی ؟وہ درویش کہنے لگے تب میںتئیس سال کا تھا۔‘‘اب ان کی عمراسّی سال سے زیادہ ہے۔ میں نے انہیں ایک حدیث سنائی کہ میرے آقا سرورکونین ﷺ نے فرمایا:جب بندہ چالیس سال کا ہو تو یہ فضیلت ہے ، پچاس سال کا ہو، پھرساٹھ سال کا ہو، پھر ستر سال کا ہو، جب اسّی سال سے اوپرچلا جائے توپھر جودعا مانگے گااللہ عطافرماتے ہیںاور پھر میں نے ان سے کہا ’’میرے لیے تین دعائیں آپ کریں ۔‘‘ وہ درویش کہنے لگے ’’یہ تو بات تیری ٹھیک ہے۔‘‘ اس طرف تو آج تک میرا بھی ذہن نہیں گیا کہ بھئی اسّی سال کے بندے کو تلاش کرے اس سے دعا کروانی چاہیے آخرت کیلئے اور دنیاکیلئے۔خود میری نانی امّا ںاسّی سال سے زائد عمر کی ہیں سو سال کے قریب ہیں۔ان سے میںنے بہت دعائیںکرائیں۔عافیت کا ایک نظام ہے۔ دعاؤں کے ذریعے بھی عافیت ملتی ہے اوربددعا سے بچنابھی عافیت کا نظام پانے کا ذریعہ ہے ۔
جادہ ٹونہ یا اپنے اعمالِ بد:بعض لوگ کہتے ہیںہم پر جادو ہے،ہم پر جنات ہیں،ہم پراثرات ہیں،الٹے تعویذات ہیں۔ جو صاحب نظر لوگ ہیں وہ اصل سبب کو دیکھ لیتے ہیں۔ تو کہنا یہ چاہ رہاہوں کہ کوئی جادو نہیںہوتا، کوئی جنات نہیںہوتے،کوئی اثرات نہیںہوتے۔اس کے پیچھے اصل میں کچھ اور چیزیں ہوتی ہیںجو میں آپ کو آج بتا رہاہوں اور جومیں نے صاحب نظر لوگوں سے سنی ہیں،جن لوگوںکو اللہ پاک نے دل کی نظر دی ہے، کشف کی نظر دی ہے، وہ فرماتے ہیںکہ اس کے پیچھے جادو ،جنات نہیں ہوتے ،اس پر کسی نے کچھ نہیں کیا ہوتاہے۔ ۱۔فرمایا کہ اس کے پیچھے کوئی بددعاہوتی ہے وہ نظر آجاتی ہے۔۲۔یا اس کے گناہ ،اس کی برائیاںاور اس کی بدکاریاںہوتی ہیںوہ نظر آجاتی ہیں۔ ۳۔ یااس کے پیچھے سود ہوتاہے بلکہ ایسے اللہ والے جن کو اللہ نے نظر دی ہوتی ہے وہ ہر گناہ کو پہچان لیتے ہیں۔ ہرگناہ کی اپنی ایک شکل ہوتی ہے،اس گناہ کا اپنا ایک رنگ ہوتاہے، جیسے ٹائرجلے تودھواں اور رنگ کا ہوتاہے اور لکڑی جلے تودھواں اور رنگ کاہوتا ہے، پھر اگرشیشم کی لکڑی جلے تو اس کااپنا دھواں ہوتاہے ،کیکرکی لکڑی کا اپنادھواں ہوتاہے، اس طرح دھوئیں کی اپنی شکلیں ہوتی ہیں ۔پھر روشنیاں بھی مختلف ہوتی ہیں،ٹیوب لائیٹ کی اپنی روشنی ہوتی ہے، بلب کی اپنی روشنی ہوتی ہے۔اللہ والو!! یہ مثال میں آپ کو سمجھانے کیلئے دے رہاہوں۔ بالکل ایسے ہی وہ صاحب نظر بزرگ کہتے ہیںکہ: ہرعمل کی ایک روشنی ہوتی ہے ،اور ظلمت کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں،جس سے ہمیں پتہ چل جاتاہے کہ یہ سود کی ظلمت ہے جو اس کا تعاقب کررہی ہے ،اس کے ہرکام کو بگاڑ رہی ہے، اس کی ہر آسانی کو مشکل میں بدل رہی ہے،اور یہی ظلمت اس کی ہر سہولت کو امتحان میں ،اور پریشانیوں میں،اور ذلت میں بدل رہی ہیں۔
یا تواس کے پیچھے کوئی بددعا کا اثر ہے۔یا پھراس کے پیچھے کوئی بدکاری یا کوئی گناہ ہے۔یہ تین چیزیں تعاقب کرتی ہیں۔کسی کے پیچھے تینوں اکٹھی ہوتی ہیں، کسی کے پیچھے دو اکٹھی ہوتی ہیں، کسی کے پیچھے ایک ہوتی ہے ۔ اور وہ مصائب کا مارا دنیا جہاںکے سارے عمل کرتا ہے اورپھرتھک ہار کر کہتاہے مجھ پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ جبکہ یہ تین چیزیں مسلسل اس کا تعاقب کررہی ہوتی ہیں۔ تو معلوم ہو ا کہ یہ تین چیزیں عافیت کے نظام کو چھین لیتی ہیں۔۔۔۔ کہتے ہیں میری بنتے بنتے بگڑ جاتی ہے ۔بے شما ر لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا کام بنتے بنتے بگڑکر رہ جاتا ہے ۔ منزل کے قریب پہنچتے پہنچتے دور ہوجاتے ہیں۔سہولتیںاور آسانیاں توہمارے مقدر میں ہی نہیں ہیں۔ سخت آزمائش میں مبتلا ہیں صبح مشکل میںہوتی ہے، شام مشکل شام ہوتی ہے ۔
آخری بات
لہذا ہم اپنے اعمال کی فکر کریں ،آخرت کی فکر کریں۔جن باتوں کا حکم شریعت نے دیا ہے ان پر عمل درآمد کریں،اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے اپنے آپ کو روکیں۔یاد رکھیں!! اللہ کا حکم ماننے میں ہی خیر ہے ،اور نہ ماننے میں ہر طرح سے شر ہی شر ہے ،یہ تمام مصائب و مشکلات اور پریشانیاں حکم خداوندی سے روگردانی کیوجہ سے ہی ہم پر آن پڑتی ہیں۔اللہ پاک سے عہد کریں کہ ہم آج ہی سے اپنے اعمال کی فکر کرینگے ،اور اللہ پاک آپ کی برکت سے مجھے بھی اس کی توفیق دینگے ۔اللہ مجھے اور آپ کو جو کچھ پڑھا سناہے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں