جادو کی تعریف
ابتدا میں زندگی موت اور کائنات کی ہر شے کے اسرار و رموز کو جاننے اور سمجھنے کے علم کو جادو کا نام دیا گیا لیکن بعد میں اس فطرت کے راز و نیاز کو جانتے ہوئے اس کے مدمقابل اور اس کے بین بین ایسے ایسے طریقے ایجاد کئے جس سے جادو کی ماہیت ہی بالکل بدل دی گئی۔ اس لیے جادو کی تعریف کچھ یوں ٹھہرائی گئی۔ ’’ایک ایسا فن جس میں ہر وہ کام اپنی حسب منشاء پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے خواہ اس کے ذرائع جائز ہوں یاناجائز۔ خواہ منشاء خداوندی کےتابع ہوں یا اس سے بعید۔‘‘ لیکن درحقیقت انسان راہ حق سے بھٹک کر شیطانی راہ پر جانکلا۔ کیونکہ ہر کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کا واحد راستہ ظلم و ستم اور ایذا رسانی پر مشتمل تھا اور یہ راہ ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا اورمنشاء سے متصادم ہے۔ اس لیےاس کو شیطانی افعال کا نام دیا گیا ہے۔ جادو کے فن میں جوں جوں ترقی ہوتی گئی اسی قدر اس کے درجات طے کئے جاتے رہے اور اس طرح اس کی مختلف صورتیں رواج پاتی چلی گئیں۔ بقول سرپال ہاردے! ’’جادو ایک ایسا جھوٹا فن جو قدرتی واقعات پر اثرانداز ہوتا ہو‘‘
تعریف سحر (علماء کی نظر میں)
علمائے شریعت نے سحرکی جو تشریح و تعریف بیان کی ہے۔ مختصراً درج ذیل ہے۔کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کا نام ہی سحر ہے۔ (الازہری رحمۃ اللہ علیہ)۔ ساحر(جادوگر) باطل کو حق بنا کر پیش کردیتا ہے اور کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دیتا ہے اور یہی کام یا شے سحر کہلاتا ہے۔ (ابن منظور رحمۃ اللہ علیہ)۔ ایک ایسا علم جو تندرستی کو بیماری میں بدل دے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
باطل کو حق کی شکل میں پیش کرنے کا نام سحر ہے۔ (ابن فارس)۔کسی شےکوبہت خوبصورت بنا کر اس طرح پیش کرنا کہ لوگ اس سے حیران رہ جائیں۔ (محیط المحیط)
سحر اس کام کے ساتھ مخصوص ہے جس کا سبب مخفی ہو اور اسے اصل کی حقیقت سے ہٹ کر پیش کیا جائے اور دھوکہ دہی اس میں نمایاں ہو۔ (امام فخر الدین رازی)
’’جادو‘‘ ایسی گرہوں اور ایسے دم اور الفاظ کا نام ہے جنہیں بولا یا لکھا جائے یا یہ کہ جادوگر ایسا عمل کرے جس سے اس شخص کا بدن یا دل یا عقل متاثر ہوجائے‘ جس پرجادو کرنا مقصود ہے۔ (امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ)
جادو ارواح خبیثہ کے اثر و نفوذ سے مرکب ہوتا ہے جس سے بشری طبائع متاثر ہوتے ہیں۔ (امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ)
ایسا باریک بین اور لطیف فن جس میں دھوکہ دہی کا عنصر غالب ہو اور بے حقیقت توہمات سے واقع ہوتا ہو۔ ستاروں سے مخاطب اور شیاطین کی مددو معاونت سے حاصل کیا گیا ہو۔ (امام راغب رحمۃ اللہ علیہ)
جادو کے بارے میں فرمان رسول اللہ ﷺ
جس نے ستاروں کا علم سیکھا گویا اس نے جادو کا ایک حصہ سیکھ لیا پھر وہ ستاروں کے علم میں جتنا آگے بڑھتا جائے گا اتنا ہی جادو کے علم میں اضافہ ہوگا۔ (عن حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ)وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے خود فال نکالی یا اس کیلئے فال نکالنے کا کام کیا اور جس نے غیب کے علم جاننے کا دعویٰ کیا اور جس نے جادو کیا یا کسی کیلئے جادو کرایا اور جو شخص نجومی کے پاس گیا یا جو کچھ وہ کہتا ہے اس نے اس کی تصدیق کی تو اس نے اللہ کے نبی ﷺ کی شریعت سے کفر کیا۔ (عن عمر ابن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ)وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا۔ جو جادو پر یقین رکھنے والا ہوگا۔ (عن ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ)۔جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرنے والے کے پاس یا جادوگر کے پاس یا نجومی کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھا اور پھر اس نے جو کچھ کہا اس نے اس کی تصدیق کردی تو اس نے اللہ کے رسول (ﷺ) پر اتارے گئے دین سے کفر کیا اور اس کیلئے جنت میں داخلہ نہ ہوگا۔ (عن انس ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)
جادو کی تصدیق قرآن پاک سے
جادو فی الحقیقت دنیا میں موجود ہے۔ اس کے متعلق قرآن پاک میں ارشاد ربانی کچھ یوں ہے ’’یعلمون الناس السحر‘‘ (وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے) (البقرہ)
’’ومن شر النفثت فی العقد‘‘ (اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکتی ہیں) (الفلق)
’’انما صنعوا کیدسحر‘‘ اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں یہ تو جادو کا تماشا ہے‘‘ (الاعراف)وما ھم بضارین بہ من احدالا باذن اللہ(البقرہ)اور وہ جادوگر کسی کو جادو کےذریعے نقصان نہیں پہنچاسکتے سوائے اس کے کہ اللہ کا حکم ہو‘‘
آج کا دور اور جادو
جادو درحقیقت فریب نظر کا ایک لامتناہی جال ہے جس میں اس قدر کشش پیدا کردی گئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیاوی کوئی بھی کام کروانے کا آسان راستہ یہی ہے اور اس بات کو پروان چڑھانے میں آج کے دور کے نام نہاد ملاؤں‘ پیروں‘ فقیروں‘ سفلی علم والے ہیں جن کے پاس علم تو برائے نام ہوتا ہے لیکن عوام کو بے وقوف بنانے کا فن اور ڈھنگ انہیں بخوبی آتا ہے۔ جو ماسوائے معاشرہ میں تباہی و بربادی پھیلانے، بدسکونی، بے چینی اور نفرت پھیلانے کا کام زر کے لالچ میں انجام دے رہے ہیں اور جو کوئی ان کے جال میں ایک مرتبہ پھنس جاتا ہے تو پھر اس سے نکلنے کا نام نہیں لیتا۔ زیادہ تر جاہل عامل وہ ہیں جواس علم کے اسرار و رموز سے ذرا برابر بھی لگا نہیں کھاتے لیکن اپنی بڑائی نت نئے کارناموں کے تحت جتلاتے رہتے ہیں یا پھر بے بنیاد اور الٹے سیدھے الفاظات کے تعویذ دھاگے وغیرہ بنا کر عوام کو لوٹنےکا وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اول تو جادو ایک ایسا فن ہےجو کسی بھی باعمل‘ پڑھے لکھے انسان اور بالخصوص امتی رسول ﷺ کو زیبا نہیں دیتا کیونکہ اس سے سب سے پہلی زد مسلمان کے ایمان پر پڑتی ہے اور وہ راہ حق سے بھٹک کر گمراہی اور ضلالت میں پڑجاتا ہے۔ پھر یہ کہ جادو بذات خود فنا اور نقصان کا عمل ہے اس سے برائی کی توقع تو کی جاسکتی ہے کسی اچھائی کی نہیں۔ جادو صریحاً گمراہی اور ضلالت کا عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ ضلالت اور گمراہی سے بھرپور باتیں پھیلاتے رہتےہیں جن کا حقیقت احوال سے ذرہ برابر بھی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس پر مصداق یہ کہ باعمل لوگ ایسے لوگوں کی کماحقہ بازپرس نہیں کرتے اور نہ ہی ان پر گرفت کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ اس برائی کو بہت زیادہ پھیلانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بابت قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ’’یہ لوگ ایک دوسرے کو اس برائی سے نہیں روکتے جس کو وہ کرتے ہیں‘ یہ لوگ بہت بُرا کام کرتے ہیں۔‘‘ (المائدہ ۷۹)۔آج کے جادوگر نے ہمیشہ آدمی کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس نے کچھ برا بھی نہیں کیا ہے۔ اس نے سب کچھ اپنی جان جوکھوں پر ڈال کر کیا وگرنہ اس عالم رنگ وب میں ان آدمیوں کی فہرست شیطانوں سے بڑھ کر طویل ہے۔ جنہوں نے مذہب و سیاست کی آڑ میں انسان کی فلاح و بہبود میں نہ جانے کس کس کے نام پر آدمی کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا ہے اور اٹھا رہا ہے۔ وگرنہ حقیقی طور پر نگاہ ڈالی جائے تو انسان کی اپنی ذہنی قوت بے پایاں ہونے کے ناطے کسی کو بھی اپنی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ سادہ لوح انسان جادو گروں کے جال میں پھنستے رہتے ہیں اور اپنی ساری جمع پونجی ضائع کرتے رہتے ہیں۔
جادوگروں کے جال
جادوگر مختلف قسم کے جھوٹے سچے کارناموں اورلامتناہی سوچوں اور وہم سے کام لیتے ہیں۔ ہر انسان کی اصل کمزوری سے آگاہ ہوکر اس کے ذریعے اس کو رنگا رنگ باتوں سے نوازتے ہیں اور ایسی ایسی کہانیاں گھڑتے ہیں جن کا وجود بالکل نہیں ہوتا اچھے بھلے انسان کو وہم میں ڈالنا ان کے بائیں ہاتھ کا کمال ہوتا ہے اور وہم ایک ایسی شے ہے جس کا توڑ حکیم لقمان علیہ السلام کے پاس بھی نہیں تھا۔ اس طرح نام نہاد عامل کامل، بڑے بڑے دعویدار لوگوں کو اپنے اپنے لایعنی کمالات کے اتنے قصے بیان کرتے ہیں اور ایسے ایسے سنہری خواب دکھلاتے ہیں کہ جس سے ایک اچھا بھلا سمجھ دار انسان بھی ان کے جال میں پھنس جاتا ہے اور پھر ان کے اشاروں پر ناچتا ہے اوراپنی اچھائی و بھلائی کو پس پشت ڈال کربرائی کی راہ پر چل نکلتا ہے اور بلاوجہ شکوک کے سمندروں میں غوطے کھانے شروع کردیتا ہے۔
جادو کی اقسام
جادوکو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک قسم تخیلی ہے جس کا دارومدار شعبدہ بازی اور ہاتھ کی صفائی ہے‘ دوسری قسم وہ ہے جس میں فی الحقیقت مردو زن میں جدائی ڈالنا اور لوگوں کو پریشان کرنا ہے۔ ماہرین فن جادو نے اس کو دوشاخوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک سحر بالمثل۔ اور دوسری سحر لمسی ان دونوں کا تعلق تسلسل خیال سے ہے۔ ایک میں مماثل خیال پائے جاتے ہیں اور دوسری میں مربوط و متصل خیالات۔ پہلی قسم کا تعلق سحر بالمثل ہے اور دوسری کا تعلق سحر لمس سے ہے۔ سحربالمثل میں عملی اقدام اور نتیجے میں مماثلت پائی جاتی ہے کہ جیسا کہ ایک عام کہاوت مشہور ہے۔ کالی اینٹیں کالے روڑ، اللہ میاں مینہ برسا زورو زور یہ ایک سحر بالمثل کی عملی شکل ہے اور اس قسم میں کسی بھی شے کے مماثل سے ہی جادوٹونے کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جیسے کسی کوذہنی تکلیف پہنچانے کیلئے جادوٹونے میں سوئیاں سی چبھ رہی ہیں وغیرہ وغیرہ اور اس سلسلے میں پتلے اور گڈے وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں جو جادو کے شکار کے ہم شکل اور ہم مثل ہوتے ہیں اور اس ضمن میں بدستور عام ہے جس سے عام جادو میں کام لیاجاتا ہے۔ اس طرح بعض معاملات میں مختلف جانوروں کی بھینٹ بھی لی جاتی ہے غرضیکہ طرح طرح کے ایسے طریقوںسے کام لیا جاتا ہے جس میں باہمی مماثلت کارگر ہوتی ہے جبکہ دوسرے طریقے میں عموماً ہپناٹزم جیسا طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے اور ہاتھوں کے لمس اور باتوں سے دوسرے کو کسی وہم میں شدید حد تک ملوث کردیا جاتا ہے جس سے چھٹکارا پانا اس کیلئے ناممکن ہوجاتا ہے یا پھر انسان کے کپڑوں، یا کسی اعضاء یا مردوں کی راکھ وغیرہ جس کو عرف عام میں مسان کہاجاتا ہے اس سے کام لیا جاتا ہے۔
جادو اور حضور نبی کریمﷺ
اکثر ہمارے ہاں یہ کہاوت مشہور ہے کہ جب خدا کے رسولﷺ جادو سے (معاذ اللہ) نہیں بچ سکے تو ہم کس شمار میں ہیں۔ اس طرح دلی طور پر جادو کو اپنے اوپر محیط کرلیا جاتا ہے اور بلاوجہ ہر بات کو جادو سے تعبیر کردیا جاتا ہے، لیکن کوئی بھی اس بات کا ادراک نہیں کرتا کہ اس معاملہ میں حقیقت احوال کیا ہے، اور یہ کہ اس کا سیاق و سباق کیا ہے، سیاق و سباق یہ ہے کہ عرب معاشرہ میں اسلام سے پیشتر جادو اس قدر ترقی کرچکا تھا اورلوگوں کے روز مرہ کے معمولات میں رچ بس چکا تھا کہ حضور سرور کائناتﷺ کی آمدو بعثت اور معجزات نے جادو گروں کی جادوگری کو مات کرنا شروع کردیا تھا اور ان کے جھوٹ کا پول اور ان کی قدر افزائی میں روز افروں کمی ہوتی جارہی تھی، چونکہ حضور نبی کریمﷺ کی بعثت سے قبل یہودیوں کافن جادوگری میں طوطی بولتا تھا اور وہ جو کہتے لوگ بلا چون و چراں ان کی بات کو حق تسلیم کرتے تھے‘ ایسے میں اسلام ایک حقیقت بن کر ابھرا اور اس کی وجہ سے ان یہودیوں کا کاروبار حیات بے حد متاثر ہوا۔ اور پورے معاشرہ میں مسلمان دن بدن پھیلنے اور پھلنے پھولنے لگے۔ جس سے ان کو بے حد ذہنی صدمہ پہنچا، انہوں نے حضور سرور کائناتﷺ کے معجزات اعمال کوجادوگری سے موسوم کرنا شروع کردیا تاکہ لوگ (معاذ اللہ) آپ ﷺ سے بدظن ہوجائیں اور آپﷺ کی تعلیمات نہ پھیلنے پائیں اور اس طرح تبلیغ اسلام کا کام رک جائے۔ ایسے میں اللہ کا حکم آزمائش آن پہنچا جس پر آپﷺ نے سرتسلیم خم کردیا اور یہودیوں کو آپﷺ پر جادو کرنے کا موقع مل گیا اور اس طرح آپﷺ کسی حد تک بیمار ہوگئے، بروایت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (ازبخاری و مسلم) بنوزریق کے نامی گرامی جادوگر لبیدبن اعصم نے آپﷺ پر جادو کردیا، آپﷺ کو یوں محسوس ہوتا کہ آپﷺ کچھ کررہے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہ ہوتی۔ ایک دن آپﷺ نے اپنے رب سے کئی مرتبہ دعا مانگی۔ پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے عائشہ! کیا تم جانتی ہوں کہ میں نے اللہ سے جس معاملے میں دعا مانگی ہے، اس نے میری دعا کو قبول کرلیا ہے، میرے پاس دو آدمی (فرشتے) آئے ہیں ایک میرے سرہانے بیٹھا اور دوسرا میری پائنتی اور انہوں نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے، پائنتی والے کے اصرار پر سرہانے والے نے کہاکہ ان پر لبید بن اعصم نے جادو کیا ہے، تاکہ تبلیغ اسلام کا عمل رک جائے۔
اس نے پھر استفسار کیا کہ ’’کس چیز میں؟‘‘۔ دوسرے نے کہا کنگھی کے بالوں اور کھجور کے کھوکھلے شگوفے میں۔ اس نے کہا کہ یہ کہاں ہیں۔ دوسرے نے جواب دیا کہ ذی اروان کے کنوئیں میں۔ آپﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اوردوسرے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لے کر اس کنوئیں کے پاس گئے اور اس کو دیکھا۔ آپﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اس کنوئیں کا پانی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مہندی کا آمیزہ ہو، اس کے کھجور کے درخت ایسا لگتا تھا گویا شیطانوں کے سر ہوں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: آپﷺ نے اس کو (بال اور کھجور کے شگوفے کو جس میں جادو کیا گیا تھا) کیوں نہیں جلاڈالا؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں! مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفادے دی میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ لوگوں کو فتنوں میں مبتلا کردوں اس لئے اس کو دفن کروادیا۔ بعض روایات کے مطابق آپﷺ اس جادوگر کے پاس گئے اورپوچھا کیا تم نے مجھ پر جادو کیا تھا۔ تو اس نے ہاں میں جواب دیا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: اگر میں تم میں سے کسی پر جادو کروں تو کیا تم کروالو گے۔ اس نے کہا جو ایسا کرے گا ہم اس کا کیا ہوا جادو واپس اسی پر پلٹ دیں گے۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: تمہاری نگاہ میں جادوگر، شعبدے باز یا مردان غیب میں سے ہوں لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے تمہارا جادو تم پر واپس پلٹ جائے اور تمہیں نقصان بھی پہنچے حالانکہ تم نے میرے اوپر جادو کے ذریعے مجھے نقصان پہنچایا لیکن میری طرف سے کوئی بھی ایسا کام نہیں ہوا۔ اب بھی تم مجھے پیغمبر حق نہ مانو تو تمہاری مرضی ہے اور آپﷺ واپس تشریف لے آئے۔
اگر بنظر غائر اس واقعہ پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ حقیقت بین طور پر سامنے آتی ہے کہ رضائے الٰہی کے تحت حضور سرور دو کائناتﷺ کو راہ حق سے باز رکھنے کیلئے یہ جرم لبید بن اعصم سے سرزرد ہوا۔ وگرنہ دنیا کی کوئی طاقت اللہ کے پیارے رسولﷺ اور محبوب پر کسی بھی طرح کا جادو ٹونہ، ٹوٹکا نہیں آزماسکتی ہے اور نہ ہی سرے سے کائنات میں پیدا ہوئی ہے کیونکہ یہ ایک ایسا نام کائنات میں ہے جس کے طفیل سے پیغمبروں اور نبیوں کی توبہ نہ صرف قبول ہوئی ہے بلکہ جس سے کائنات کے ہر مرض میں شفائے کاملہ ملتی ہے اور جادوٹونے اپنی حقیقت احوال کھودیتے ہیں، آسیب اور جنات بھاگ جاتے ہیں، شیطان ابلیس جس سے پناہ مانگتا ہے اور گمراہی و ضلالت اپنے ہی سمندر میں غرق ہوکر معدوم ہوجاتی ہے۔
جادو کی حقیقت
جادو کی ماہیت پر اگر غور کیا جائے تو پتا چلے گا کہ اس میں بین خرابی پائی جاتی ہے جہاں یہ سمجھنا غلط ہے کہ ہم شکل، ہم رنگ اور مشابہ اشیاء یکساں ماہیت رکھتی ہیں وہاں یہ خیال بھی درست نہیں ہے کہ جو اشیاء کبھی متصل نفیس الگ ہونے کے بعد باہمی رشتہ قائم رکھتی ہیں، جادو اور قلوب کی تسخیرو تالیف کا اسلوب ایک ہی ہے کوئی جادو سے دل موہ لیتا ہے اور کام نکالتا ہے، اور کوئی پیار سے اسی بناء پر جادو کا نہایت اہم شعبہ اصول تالیف پر قائم ہے، بعض کے نزدیک یہ محض تخیل ہے اور اس میں کوئی حقیقت موجود نہیں اور ان کا استدلال قرآن پاک کی سورۃ طہٰ آیت 66 سے ہے: یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں‘‘۔ اور کچھ لوگ اس کو حقیقت احوال جانتے ہیں۔
اقسام جادو حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں
1۔ سات ستاروں کی پوجا کا علم السحر( جدید دور میں اسے علم البروج قرار دیا گیا ہے)۔2۔ اصحاب و ادہام اور نفوس قویہ کا سحر (جسےکالا جادو جیسے کہا جاتا ہے)۔3۔ گھٹیا ارواح اور شیطان و جنات کے ذریعہ سحر (سفلی اعمال والا جادو)۔4۔ شعبدہ بازی اور برق رفتاری سے آنکھوں کو مسخر کرنا (ہپناٹزم)۔5۔ عجائب الاشیاء سے سحر (نظر بندی وغیرہ)6۔ ادویاتی جادو (ادویات کے ذریعے انسانوں کو زہر وغیرہ دینا یا مسان ڈالنا)۔7۔ چغل خوری اور نفرت بھرا سحر (حسد اور نظربد)8۔ مختلف دعوئوں والا سحر(مختلف جنات، دیو، پری، بھوت وغیرہ کو قابو کرکے کام لینا)۔شیطان کے لشکر اور دل میں داخل ہونے کے چور دروازے ۔شیطان کے لشکر جن سے وہ قلب میں بنی آدم پر حملہ آور ہوتا ہے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیطان کے پانچ لڑکے پانچ مختلف بڑے بڑے کاموں پر مامور ہیں۔ ان لڑکوں کے نام یہ ہیں: بثر،اعور، داسم، زلنبوز۔ 1۔ بثر: اس خدمت پر مامور ہے کہ لوگوں کو جاہلیت کے کاموں کی ترغیب دے، مصیبت میں مبتلا لوگوں کو گریبان چاک کرنے منہ پر چانٹے مارنے نوحہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ 2۔ اعور: زنا پر مامور ہے لوگوں کو زنا کی ترغیب دے کر زنا میں مبتلا کرتا ہے۔ 3۔ داسم: اس کام پر مامور ہے کہ وہ گھر والوں میں پھوٹ ڈلواکر ایک کودوسرے کا دشمن بنا دے۔ 4۔ مبسوط: لوگوں کو جھوٹ بولنے پر اکساتا ہے۔ 5۔ زلنبوز: بازارپر مامور ہے، ناپ تول میں کمی اور دوسری برائیوں میں لوگوں کو مبتلا کرتا ہے، ان کے علاوہ ایک شیطان نماز پر مسلط ہے جس کا نام خنزنب ہے اور ایک شیطان وضو پر مسلط ہے اس کا نام دلہان ہے۔
بے لگا م جادوکے چند اسباب
آج کے دور میں جادو اور جنات جس قدر پھیل چکے ہیں کہ محتاج بیان نہیں‘ آپ کو ہرگلی، ہر محلے میں کوئی نہ ایسا ضرور مل جائے گا جو اس مکروہ دھندہ میں شامل ہےاورناسور کی طرح ہماری جڑوں کو کھوکھلا کررہا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ پہلے دور میں جادو کا عروج اتنا کیوں نہیں تھا اور آج یہ کیوں بے لگام ہوچکے ہیں۔ آئیے اس کے چند اہم اسباب کو پڑھیں۔
دل میں داخل ہونے کے شیطان کے چور دروازے
شیطان کے لشکر چونکہ 24 گھنٹے انسان کو گمراہ اور اغوا کرنے کی تاک میں لگے رہتے ہیں اس سے شیاطین کی مدافعت سے ایک آن غفلت بھی انتہائی مضر ہے پھر چونکہ شیطان کا حملہ انسان پر ظاہری دشمن کی طرح کھلم کھلا نہیں ہوتا اس لئے سب سے پہلے ان دروازوں اور راستوں کو تاخت و تاراج کردیتا ہے یوں تو انسان کے دل میں گھسنے کیلئے شیطان کے واسطے بہت سے راستے ہیں پھر بھی ان میں چند اہم راستوں کا ذکر حسب ذیل ہے۔
حسد و حرص
حسد اور حرص میں انسان اندھا اور بہرا ہوجاتا ہے شیطان جب ان دونوں میں کسی ایک یا دو نوں کا احساس کسی قلب میں پاتا ہے تو اسے دل کو تباہ کرنے کیلئے موقع مل جاتا ہے اور وہ انسان کے دل کو گناہوں کے میدان میں گیند کی طرح لڑھکاتا پھرتا ہے، روایت ہے کہ جس وقت حضرت نوح علیہ السلام کشتی میں سوار ہوئے تو شیطان بھی موجود تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا تو یہاں کیوں آیا؟ شیطان نے جواب دیا اس واسطے کہ یہ لوگ دل سے تو میرے ہمنوار ہیں اور ظاہر میں آپ کا کلمہ پڑھیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا نکل مردود کہیں کے۔ شیطان نے کہاکہ دنیا میں لوگ پانچ باتوں سے ہلاک ہوئے ہیں تین باتیں آپ کو بتائے دیتا ہوں فوراً وحی آئی کہ شیطان سے دو باتیں پوچھ لو باقی تین باتیں آپ سے غیر متعلق ہیں۔ شیطان نے کہا ان میں سے ایک تو حسد ہے، حسد کی وجہ سے میں بارگاہ الٰہی سے مردود و ملعون ہوا، دوسری چیز حرص ہے۔ اگر (حضرت) آدم (علیہ السلام) جنت میں ہمیشہ رہنے کی حرص نہ کرتے تو ان کو جنت سے نہ نکالا جاتا۔
غضب و شہوت
یہ دونوں چیزیں بھی قلب بنی آدم علیہ السلام سے شیطان اور جنات کے داخلے کے اہم دروازے ہیں غضب اور غصہ کی وجہ سے انسان کی عقل کمزور ہوجاتی ہے شیطان غصہ کرنے والے آدمی سے اس طرح کھیلنے لگتا ہے جس طرح بچے گیند سے کھیلا کرتے ہیں، شیطان نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بارگاہ الٰہی میں توبہ کیلئے سفارش کرائی تھی توبہ کی مقبولیت حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ پر موقوف رکھی گئی۔ شیطان نے غضب ناک ہوکر جواب دیا تھا جب میں نے زندہ آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا تو مردہ کو تو کیا کروں گا۔ شیطان نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس موقع پر کہا تھا کہ جب انسان غصہ ہوتا ہے میں اس کے جسم میں خون کی طرح دوڑا دوڑا پھرتا ہوں۔
سامان زیب و زینت
اگر شیطان کسی انسان کے دل میں مکان، لباس اور گھر کے سازو سامان کی محبت دیکھتا ہے تو وہ انسان کے دل میں ان چیزوں کی محبت کے انڈے دے دیتا ہے، ان انڈوں سے جب بچے نکل آتے ہیں تو مکان کی تعمیر کرنے مکان کی آرائش کی دھن میں لگ جاتا ہے یہاں تک کہ اس حالت میں اسے موت آکر پکڑ لیتی ہے۔ مزید سے مزید کی خواہش جادو کی طرف مائل کرتی ہے۔
شیطان کا دل پر تسلط اور اس کا دفعیہ
وسوسہ اور الہام کا فرق:انسان کے نیک یابداعمال کی صدور کی نوعیت یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے دل میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے، خیال کے بعد اس کام کی رغبت پیدا ہوتی ہے، رغبت عزم اور نیت کو حرکت میں لاتی ہے، آخر میں نیت اعضاء کو حرکت میں لاکر اس فعل کا واقع عمل میں لے آتی ہے، پھر جس طرح اعمال خیر و شر کی نوعیت مختلف ہیں اسی طرح انسان کے دل میں کسی کام کا خیال جو اولاً پیدا ہوتا ہے وہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہے، اگر وہ خیال کسی اچھے کام کا ہے تو اسے اصطلاح شر ع میں اس کا نام الہام ہے اور اگر وہ خیال بر ے کام سے متعلق ہے تو اس کو وسوسہ کہا جاتا ہے۔
الہام یا وسوسہ کا باعث کیا ہے
انسان کے دل میں شروع شروع میں جو خطرات یا خیالات پیدا ہوتے ہیں ان کے محرک قدرت نے جدا جدا پیدا کئے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے دل میں ہر قسم کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں فرشتوں کی طرف سے بھی اور شیطان کی طرف سے بھی۔ فرشتے کے وسوسہ سے خیر کی ترغیب ہوتی ہے اور شیطان کے وسوسہ سے برائی کی پس جس وقت شیطانی وسوسہ محسوس ہوتو اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھنا چاہئے۔ چونکہ دونوں قوتیں مساوی حیثیت سے قلب انسانی پر اثر انداز رہتی ہیں اس لئے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان قدرتی طور پر اسی کھینچا تانی میں مبتلا ہے، حدیث شریف میں اسی کھینچا تانی کی طرف اشارہ ہے’’ مومن کا دل اللہ تعالیٰ کی (قدرت کی )انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان رہتا ہے‘‘۔
وسوسہ دور کرنے کا طریقہ
ظاہر ہے کہ دل میں شیطانی وسوسہ ہر وقت آتا ہے جب اس وسوسہ کے سوا دل میں کوئی دوسری بات نہ ہو کیونکہ جب ایک بات کا گزر دل میں ہوتا ہے تو اس سے پہلے کی بات دل سے نکل جایا کرتی ہے، اس لئے شیطانی وسوسہ دور کرنے کی ایک تدبیر یہ ہے کہ جب کسی شخص کے دل میں کسی بری بات کا گزر ہوتو وہ دل کو کسی دوسری بات کی طرف متوجہ کرے یہ ترکیب اگرچہ دفعیہ وسوسہ کیلئے سہل ہے مگر پھر بھی یہ اندیشہ ہے کہ اس دوسری بات کا بھی وہی انجام نہ ہو جو پہلی بات کا ہوا ہے۔ اس لئے یہ صورت دفعیہ وسوسہ کیلئے سو فیصد کامیاب نہیں البتہ ذکر الٰہی ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے شیطان کی مجال نہیں کہ دل کے قریب قدم رکھ سکے، خدا تعالیٰ نے بھی دفعیہ وسوسہ کی یہی تدبیر بتلائی ہے۔
’’خدا سے ڈرنے والے لوگوں کو اگر شیطان مس کرلیتا ہے تو وہ خدا کا ذکر کرتے ہی صاحب بصیرت بن جاتے ہیں حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے ’’من شرالوسواس الخناس‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ شیطان انسان کے دل پر چاروں طرف سے چھایا رہتا ہے، جب قلب ذکر الٰہی کرتا ہے تو سکڑ کر دبک جاتا ہے ذکر اللہ اور وسوسہ میں دن یا رات یا روشنی اور اندھیرے کا سا تضاد ہے۔ ذکر الٰہی کے سامنے شیطان ٹک نہیں سکتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ حضور سرور دو عالم ﷺ نے فرمایا ہے ’’ شیطان اپنی سونڈ انسان کے دل پر رکھے ہوئے ہے، پس اگر وہ خدا کا ذکر کرتا ہے تو ہٹ جاتا ہے اور اگر خدا کو بھول جاتا ہے تو دل کو نگل لیتا ہے‘‘۔ حدیث میں ہے کہ حضرت عمر بن العاص نے حضور دو عالمﷺ سے عرض کیا کہ شیطان نماز اور قراءت قرآن میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ مجھ میں اور میری نماز میں حائل ہوجاتا ہے تو حضور انورﷺ نے فرمایا: اس شیطان کو خنزب کہتے ہیں جب وہ تجھ کو معلوم ہوتو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ اور اپنی بائیں طرف تین دفعہ تھوک دے) حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور انورﷺ کی فرمودہ ہدایات پر عمل کیا وہ بات جاتی رہی۔ اسی طرح دوسری حدیث میں وارد ہے: ’’وضو میں بہکانے والا ایک شیطان ہے، اس کا نام دلہان ہے،اس سے خدا تعالیٰ کی پناہ چاہو‘‘۔حدیث شریف میں یہ بھی آیا ہے:’’ایماندار اپنے شیطان کو ایسا لاغر کردیتا ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے اونٹ کو دبلاکردیتا ہے۔ قیس بن حجاج فرماتے ہیں کہ میرا شیطان مجھ سے کہنے لگا کہ میں تمہارے پاس اونٹ کی طرح توانا آیا تھا۔ اب دبلا ہوتے ہوتے چڑیا ہوگیا ہوں۔ میں نے پوچھا کس طرح؟ جواب دیا کہ تم ذکر اللہ سے مجھے ہر دم گھلاتے رہتے ہو۔
شیطان کے دفعیہ کی تدبیر کیا ہے
شیطان کے شر سے دل کو بچانے کی ترکیب یہی ہے کہ دل میں شیطان کےداخلہ کے تمام دروازے بند کردئیے جائیں اور دل کو تمام مذموم صفات سے صاف کرلیا جائے۔ اتنا جاننا ضروری ہے کہ دل جب تمام مذموم صفات سے پاک صاف ہوجائے گا تو پھر شیطان دل میں جم کر نہیں بیٹھ سکے گا۔ چونکہ اللہ کا ذکر شیطان کو قریب آنےسے روکتا ہے اس لیے شیطان ہیرا پھیری کرتا ہی نظر آئے گا۔ اخلاق ذمیمہ کے دفعیہ کے بغیر اللہ کے ذکر سے شیطان دفع تو ضرور ہوجاتا ہے مگر اللہ کا ذکر دل میں اسی وقت جاگزیں ہوجاتا ہے جب تقویٰ اور صفائی قلب سے آئینہ قلب کو صاف کرلیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ذکرالٰہی بھی ازقبیل خطرات ہوتا ہے چونکہ اس کو دل پر پورا قابو نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہ شیطان کو بھی دفع نہیں کرسکتا۔
ذکرالٰہی کو دافع شیطان صرف اہل تقویٰ کیلئے فرمایا ہے جس دل میں غذائے شیطانی و (صفات ذمیمہ) موجود نہ ہوگی‘ وہاں شیطان ذکر الٰہی سے ہٹ جائے گا اور اگر دل پر شہوت کا غلبہ ہوگا تو ذکر الٰہی دل کے چاروں طرف پھیل کر رہ جائے گا قعرقلب پر اثرانداز ہوکر دفعیہ شیطان کیلئے مؤثر ثابت نہ ہوگا۔ بہرحال جہاں شیطان کا
دفعیہ سے ہوجاتا ہے وہاں اور بھی دعائیں اس بارے میں منقول ہیں۔ حضرت محمد بن واسع ہر روز بعد نماز فجر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
محمد بن واسع فرماتے ہیں کہ ایک روز شیطان مجھے مسجد کے راستہ میں ملا اس نے کہا تم مجھے پہچانتے ہو‘ میں کون ہوں؟ میں نے کہا تو کون ہے تو اس نے جواب دیا میں ابلیس ہوں۔ میں تم سے یہ کہنے آیا ہوں کہ تم اس دعا کو کسی اور کو نہ بتانا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی تم سے مزاحم نہ ہوں گا۔ میں نے کہا میں کسی شخص کو اس دعا کے پڑھنے سے منع نہ کروں گا۔ جو تجھ سے ہوسکے کرلے۔ (امام مالک)
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بن لیلٰے فرماتے ہیں کہ ایک شیطان حضور سرور دوعالم ﷺ کے سامنے نماز کی حالت میں آگ کی مشعل لے کر کھڑا ہوتا تھا اور قرات و استغفار سے نہ جاتا تھا۔ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا آپ ﷺ یہ دعا پڑھیں۔
حضورانور ﷺ نے اس دعا کو پڑھا اس مردود کی شمع گل ہوگئی اور اوندھے منہ گر پڑا۔
شیطان کے مورچے
حضرت شیخ امام تقی الدین حنبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شیطان مومنوں کو گمراہ کرنے کیلئے 7 مورچوں پر بیٹھتا ہے۔ پہلا مورچہ کفر کا ہے‘ پس اگر مومن کفر سےمحفوظ رہا تو وہ بدعت کے مورچہ پر آکر بیٹھ جاتا ہے‘ پھر کبائر کے مورچہ پر بیٹھتا ہے پھر صغائر کے مورچہ پرآتا ہے۔ پس اگر مومن پر ان مورچوں سے شیطان ناکام رہتا ہے تو وہ مباحات کا مورچہ سنبھالتا ہے اور مومن کو اطاعت الٰہی سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے اگر اس مورچہ پر بھی ناکامی رہتی ہے تو مومن کو غیرافضل اعمال کی ترغیب دیتا ہے اس مورچہ پر اگر اسے کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو وہ سب سےآخری مورچہ سنبھالتا ہےاور وہ ہے بدکار دشمنوں کو ایذا رسانی پر لگادیتا ہے۔
شیطان کا کان میں پیشاب کرنا
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر آیا جو طلوع آفتاب کےوقت خواب سے بیدار ہوا تھا تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس شخص کےکان میں شیطان نے پیشاب کردیا تھا۔
شیطان انسان کے ساتھ کھانا کھاتا ہے
(سنن ابوداؤد نسائی میں ہے) حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک شخص کھانا کھارہا تھا۔ بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تھا‘ آخری لقمہ کھاتے وقت اس نے بسم اللہ اولہ وآخرہ کہا۔ حضور نبی کریم ﷺ مسکرا دئیے اور فرمایا کہ شیطان بھی برابر اس کےساتھ کھانا کھارہا تھا۔ جب اس نے بسم اللہ پڑھی تو شیطان نے قے کردی۔خود سوچیں جس شخص کے ساتھ شیطان کھانا کھائے اور خبیث جنات شامل ہوں وہ کھانا شفاء بنے گا یا بیماری؟
شیطان کی ایک چال
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان تمہارے پاس آکر پوچھتا ہے اس چیز کو کس نے پیدا کیا اس چیز کو کس نے پیدا کیا یہاں تک وہ یہ بھی پوچھ بیٹھتا ہے تیرے خدا کو کس نے پیدا کیا اگر ایسا موقع ہو تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے۔ دوسری روایت بخاری و مسلم میں ہے کہ سورۂ اخلاص پڑھ کر اور تین دفعہ بائیں تھتھکار کر
پڑھنا چاہیے۔
کن کن مواقع پر شیطان سے پناہ مانگنی چاہیے
قرات قرآن کے وقت۔ جس وقت مسلسل وسوسے آرہے ہوں۔ غصہ کےوقت۔ پیشاب یا پاخانہ کے وقت۔
شیطان ہمبستری میں بھی شریک ہوتا ہے
حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرو
پڑھ لیا کرو۔ اگر اللہ تعالیٰ کو بچہ پیدا کرنا منظور ہوگا تو اس کو شیطان کبھی نقصان نہ پہنچاسکے گا۔
شیطان دل میں کیونکر وساوس ڈالتا ہے
کسی شخص نے اللہ سے دعا کی کہ شیطان کو دل میں وسوسہ ڈالتے دیکھنا چاہتا ہوں‘ اپنی رحمت سے دکھلا دے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسے نیم بیداری کی حالت میں ایک جسم شفاف بلور جیسا دکھایا۔ شیطان مینڈک کی شکل میں اس کے بائیں کندھے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس نے اپنی لمبی سونڈ دل میں داخل کررکھی تھی اور اور اس کی یہ حالت تھی کہ جب وہ اللہ کا ذکر کرتا تھا شیطان بھاگ جاتا تھا۔
وساوس دل میں آتے ہی استغفار پڑھنا چاہیے
بنی آدم کے دل پر شیطان کی طرف سے بھی القا ہوتا ہے۔ اور فرشتے کی طرف سے بھی پس اگر وسوسہ حق کی تکذیب یا شر سے متعلق ہو تو اعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا چاہیے اور اگر وسوسہ فرشتے کی طرف سے حق کی اطاعت نیکی کے متعلق ہو تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
شیطان کن لوگوں سے خوش ہوتا ہے
حمدون القصارر کہتے ہیں کہ جب تمام شیاطین ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو وہ آپس میں باتیں کرکر کے تین باتوں سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ 1۔ اس مسلمان سے جس نے کسی مسلمان کو قتل کردیا ہو۔ 2۔ جس شخص کا خاتمہ کفر پر ہوا ہو۔ 3۔ اس دل سے جسے فقر وافلاس کا خوف لاحق ہو۔
سوتے وقت شیطان سے بچنے کی ہدایت
سوتے وقت گھر کا دروازہ بند کردیا کرو‘ پانی کے برتنوں کو ڈھک دیا کرو‘ چراغ گل کردیا کرو۔
شیطان اذان کی آواز سن کر بھاگ جاتا ہے
حضور سرور دو عالمﷺ نے فرمایا ہے کہ اذان کی آواز سن کر شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے اس کے گوز نکلتے رہتے ہیں اذان کے بعد پھر واپس آجاتا ہے پھر جب اقامت کہی جاتی ہے بھاگ جاتا ہے اقامت کے بعد واپس آجاتا ہے اور نمازیوں کے دل میں طرح طرح کی باتیں ڈالتا ہے یہاں تک کہ نماز پڑھنے والا بھول جاتا ہے کہ اس نے کتنی رکعت نماز پڑھی اور کیا پڑھا۔ اذان کی آواز سن کر شیطان کے بھاگنے کا سبب یہ ہے کہ وہ اس بات سے بچنا چاہتا ہے کہ اذان کی آواز سن کر قیامت کے دن گواہی نہ دینے پڑے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن جن انسان اور زمین کے ہر وہ چیز جو اذان کی آواز سنے گی گواہی دے گی۔
قارئین! شیطان نے آج ہمارے گھروں میں اودھم مچا رکھا ہے اس کا ایک بہت بڑا سبب اذان کا احترام نہ کرنا ہے۔ اذان ہورہی ہوتی ہے ہم اپنے ٹی وی کی آواز بند نہیں کرتے‘ اذان ہورہی ہوتی ہے ہم اپنی باتوں میں مشغول رہتے ہیں۔ ذرا غور فرمائیں کہ جس آواز کو سن کر شیطان بھاگ جاتا ہے‘ اسی مبارک آواز کی بے قدری کے ساتھ ساتھ ہماری پریشانیوں‘ مصیبتوں میں بھی دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور اصل علاج کے بجائے نام نہاد عاملین اور بابوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
بیماری اوردکھ گناہ کی وجہ سے آتے ہیں
انسان کو اکثر جو تکلیف پہنچتی ہے وہ انسان کے اپنے کیے ہوئے گناہوں کی وجہ سے ہی پہنچتی ہے لیکن وہ تکلیف انسان کو وارننگ ہوتی ہیں تاکہ انسان گناہوں کو ترک کرکے راہ راست پر آجائے۔ اس کے متعلق حدیث شریف ہے کہ ’’حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ بیشک نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی بندے کو تھوڑی ایذا نہیں پہنچتی یا اس سے کم یا اس سے زیادہ مگر گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور وہ گناہ جو اللہ معاف کردیتا ہے بہت زیادہ ہیں پھر یہ آیت پڑھی کہ تم کو جو مصیبت پہنچتی ہے وہ بسبب اس کے ہے جو تمہارے ہاتھوں نےآگے بھیجا ہے اور معاف کرتا ہے بہت سے گناہ۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو جو تکالیف اور بیماریاں آتی ہیں وہ ان کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں کیونکہ بعض لوگ برائیوں کو گناہ ہی شمار نہیں کرتے اس لیے گناہ پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ کہیں انسان روزی کمانے کی خاطر جھوٹ‘ فریب‘ دھوکہ اور بے ایمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کہیں لذت نفس کی خاطر زبان اور شکم سے کئی گناہ کر ڈالتا ہے۔ غرض یہ کہ انسان خود ہی طرح طرح کے بیشمار گناہ اپنی ذاتی اغراض کی خاطر کرلیتا ہے جب گناہ زیادہ ہوتے ہیں تو ان کی وجہ سے وہ پھر مصائب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر دم گناہوں سے بچے تاکہ تکالیف دور رہیں۔ البتہ وہ لوگ جو گنہگار نہیں ہوتے جب وہ کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس سے ان کی آزمائش اورامتحان مقصود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے درجات میں بلندی ہوتی ہے۔ اگرچہ خدا کے نیک اور برگزیدہ بندے کسی تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنے عجز وبیچارگی کے احساس کی وجہ سے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ ہماری شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ چوہے نے ان کے جوتے کے تسمے کو کتر لیا تو وہ اتنا متاثر ہوئے کہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ آہ! نامعلوم میں کس گناہ میں مبتلا ہوگیا تھا جس کی سزا میں نے یہ پائی ہے۔حضرت سعید بن وہب رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہےکہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ ان کے ایک دوست کے پاس گیا۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہٗ ان سے کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے مومن بندہ کو کسی آفت میں مبتلا کرتے ہیں اور پھر عافیت بخشتے ہیں تو یہ اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ اور آئندہ کیلئے معافی کا ذریعہ بن جاتا ہے لیکن اگر کسی گنہگار بندے کو مبتلا کرتے ہیں اور پھر عافیت دیتے ہیں تو یہ اس اونٹ کی طرح ہے جسے گھر والوں نے باندھ رکھا تھا پھر کھول دیا اسے کچھ پتہ نہیں کیوں باندھا اور کیوں کھولا تھا۔ آج کل ہمیں ذرا سی مشکل یا بیماری آئے بجائے ہم اپنے اعمال دیکھنے کے ہم جادو ٹونہ کے چکر میں پڑجاتے ہیں ہمیں یہی لگتا ہے کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ جادو نہیں ہوتا جادو برحق ہے مگر جادو کے علاج کے ساتھ اگر ہم اپنے اعمال پر بھی توجہ دیں‘ گناہوں سے بچیں تو انشاء اللہ پہلے تو کبھی آپ پر جادو ہوگا نہیں اگر ہوا بھی تو اس کے اثرات محدود ہوںگے اور نیک اعمال کی وجہ سے وہ بھی زائل ہوجائے گا۔ انشاء اللہ۔ (شہناز‘ گوجرانوالہ)
بیت الخلاء کی دعا اور جادو جنات
سے چھٹکارا پانے کا راز
قارئین! آپ یقین جانئے 90فیصد روحانی اور50 فیصد جسمانی بیماریوں کا تعلق صرف بیت الخلاء سے ہے ،اگر ہمارا صرف بیت الخلاء کی زندگی کا نظام ٹھیک ہوجائے تو ہم بڑی بڑی پریشانی‘ تباہی‘ جادو‘ جنات اورمشکلات سے بچ سکتے ہیں۔ہماری کتنی ہی ایسی مشکلات ہیںجو ہم بیان نہیں کر سکتے اور کچھ ایسی بھی ہیں جن کا علاج کروا کروا کے تھک چکے ہونگے اور شفا ہو ہی نہیںرہی ۔
جنات پربیت الخلاء کی دعاکے اثرات
جنات کے ڈسے افراد کے واقعات کا ذکر حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی مختلف کتب اور رسالہ عبقری میں ملتا ہے کہ کتنے ہی جنات لوگوں کو صرف اس لیے اذیت دیتے تھے کہ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ بیت الخلاء میں گیا تو اس نے ہمارے کھانے میں پیشاب کیا تھا، نجاست کردی تھی، خراب کردیا، اس لئے ہم ان سے ناراض ہیں۔ متاثرہ افراد نے کہا :کہ ہمیں کیا پتہ کہ یہاں جنات کا کھانا پڑا ہے ۔ اس پر جنات نے کہا:کہ اگر تم وہ دعا جو سرور کونین صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمائی ہے۔ پڑھ لیتے تو ہم خود بخودہٹ جاتے ،لیکن اب ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے ۔دیکھیں!ایک چھوٹی سی مسنون دعا چھوڑی اور بڑا نقصان ہوااور پریشانی شروع ہوئی
یاد رکھیئے گا! کہ جب بھی جہالت کا دورہوگا تو اس میں شراب،انتقام،موسیقی، عورت اور کتے عام ہونگے۔
بیت الخلاء سے لگنے والے روحانی امراض
70 فیصد جراثیم 90 فیصدبیماریاںبیت الخلاء سے لگتی ہیں۔ ۱)وساوس ۔۲) خشوع وخضوع کی کمی۔۳) اﷲ تعالیٰ کے دھیان کی کمی۔۴)گناہوں کی طرف مائل ہونا۔ ۵)گناہوں کا غلبہ۔۶)گناہوں کی خواہش و تقاضا،یعنی اﷲ تعالیٰ کی نا فرمانی کا تقاضا۔۷)اﷲ تعالیٰ کی نا فرمانی پر عروج اور ہر وقت اس طرف ذہن کا رہنا۔ یہ سب بیماریاں ہمیں بیت الخلاء میں دعا نہ پڑھ کر جانے کی وجہ سے لگتی ہیں ۔ اس کے علاوہ جنات کی طرف سے غضب و انتقام‘ معاشی پریشانیاں‘ جادو جنات‘ گھر میں لڑائی جھگڑے بھی صرف بیت الخلاء کی چھوٹی سی مسنون دعا نہ پڑھنے کی وجہ سے لگتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کے سچے مشاہدات ہیں جو پہلے یہ دعا نہیں پڑھتے تھے مگر اب پڑھتے ہیں کہ اس دعا کے پڑھنے سے ان کی سالہا سال کے گھریلو جھگڑے ختم ہوئے‘ معاشی پریشانیاں ختم ہوئیں‘ کاروبار رزق میں برکت ہوئی‘ پوشیدہ امراض کا خاتمہ ہوا‘ وساوس سے نجات ملی۔ حتیٰ کہ وہ جنہیں کالا جادو اور سفلی علم سمجھ بیٹھے تھے وہ صرف اس دعا کا اہتمام کرنے سے ختم ہوگئے۔ڈیپریشن سے آج کون واقف نہیں‘ ہر دوسرا شخص اس مرض میں مبتلا ہے‘ آپ کو یہ سن کو بھی حیرت ہوگی کہ ڈیپریشن کا علاج بھی یہی مسنون دعا ہے۔ لاتعداد نے آزمایا آپ بھی آزمائیے اور پرسکون زندگی گزارئیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں