Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

جنات کا پیدائیشی دوست علامہ پراسراری

ماہنامہ عبقری - نومبر 2016ء

میری زندگی میںجنات آخر کیوں ہیں؟:اس بات کا مجھے خود بھی اندازہ نہیں کہ میری زندگی میں جنات کا رہن سہن‘ جنات کی چہل پہل اور جنات کا آنا جانا آخر کیوں لگا رہتا ہے؟ نہ تو میں نے جنات کو تابع کرنے کیلئے زیادہ چلے کیے‘ نہ بہت وظیفے پڑھے‘ بہت!!! مجاہدوں اور قربانیوں والے عمل کیے‘ نہ ہی میں اپنے آپ کو اتنا زیادہ باکمال عامل کامل سمجھتا ہو۔میرا بچپن اور جنات کا ساتھ: بس بچپن ہی سے جس وقت مجھے جنات کے وجود کا احساس بھی نہیں تھا اس دن سے جنات میرے اردگرد محسوس ہونا شروع ہوگئے تھے‘ کبھی ایسا ہوتا کہ میری والدہ رحمۃ اللہ علیہ مجھے سوتا چھوڑ کر جاتیں والدہ رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتی تھیں کہ ایسے محسوس ہوتا کہ تو رو رہا ہے اور جب میں قریب آتی تو مجھے سخت سردی میں میرے اوپر ڈالی ہوئی کمبل ایسے ہلتی ہوئی محسوس ہوتی جیسے کوئی بچے کو دونوں ہاتھوں سے تھپکی دے رہااور والدہ صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتیں کہ جب میں کمبل اٹھا کر دیکھتی تو بچہ پرسکون سورہا ہوتا تھا کئی بار ایسا ہوا میں نے محسوس کیا کہ بچہ اتنے گھنٹوں سے کچھ کھا پی نہیں رہا‘ بھوکا ہوگا‘ میں نے اس کو کھلانے کی کوشش کی تو اس کے منہ میں دودھ محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کو دودھ پلا دیا ہو اور منہ سے خوشبو نکل رہی تھی‘ والدہ صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتی تھیں کہ بعض اوقات میں بچے کو اکیلا چھوڑ کر جاتی‘ ایسے محسوس ہوتا کہ بچہ ہنس رہا ہے‘ مسکرا رہا ہے اور جس انداز سے بچہ قہقہے لگاتا ہے اسی طرح بچہ قہقہے لگا رہا ہے اور پتا چلتا ہے کہ کوئی اس سے کھیل رہا ہے‘ لیکن میں جب کمرے کے اندر جاتی‘ کوئی نہیں ہوتا تھا لیکن بچہ ایک سمت میں دیکھ کر مسکرا رہا ہوتا تھا اور کھلکھلا رہا ہوتا تھا جیسے کوئی اس سے کھیل رہا ہو اور میرے آنے سے اس نے اپنا رخ بدل دیا ہو۔ میرا شعور اور جنات کی سرگوشیاں:جب میں بڑا ہوا اور شعور احساس اور ادراک نے میرا ساتھ دیا تو مجھے محسوس ہوا کہ رات کو سوتے ہوئے میرے کانوں میں کوئی سرگوشی کررہا ہے اور کہہ رہا دیکھ کلمہ پڑھ کر سو اور سونے کی دعا یاد کر بلکہ سونے کی دعا خود مجھے انہی پراسرار چیزوں نے یاد کروائی‘ سوتے ہوئے کتنے اعمال بتاتے تھے‘ کتنی تسبیحات بتاتے تھے مجھے یاد نہ ہوتی تھیں تو مجھے یاد کرواتے بس میں یاد کرتے کرتے سو جاتا اور صبح اٹھتا تو سب یاد ہوتا اور اگر اس میں کوئی غلطی ہوتی تو پھر دوسری رات وہ پیار محبت سے مجھے یاد کرواتے۔ بعض اوقات بڑی اچھی اچھی کہانیاں سناتے اب تو روز کا یہ معمول بن گیا تھا کہ میں سوتے ہوئے ان کا انتظار کرتا‘ ایک بار مجھے کہنے لگے: اگر باوضو سو گے تو کلاس میں پوزیشن حاصل کرو گے بس پھر کیا تھا میں باوضو سونے لگا سخت سردی ہوتی تھی بستر میں چلا جاتا تھا ایک دم بستر سے نکلتا والدہ صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ حیران ہوتیں کیا ہوا؟ پھر کچھ عرصہ کے بعد انہیں پتہ چلنا شروع ہوگیا کہ اب یہ اٹھے گا اور وضو کرے گا‘ مجھے ڈانٹ دیتیں ٹھنڈا پانی ہے‘ کون سا فرض ہے‘ لیکن میں لجاحت منت کرکے انہیں منا لیتا اور میں جاکروضو کرلیتا۔ یہ وضو کا سلسلہ مسلسل چلتا رہا سالہا سال چلتا رہا اور میں چھوٹے چھوٹے وظائف سونے کی دعا‘ کلمہ پڑھ کر سونا‘ اعمال‘ ذکر اور تسبیحات ان حضرات کی زیرنگرانی‘ کرتا رہا‘ سلسلے چلتے رہے‘ پھر جب میں سکول میں جانے لگا تو یہ حضرات مجھے بہت زیادہ پڑھنے کی تلقین کرتے تھے اور ان کی چاہت ہوتی تھی کہ میں خوب دل لگا کر پڑھوں‘ اپنی کتابوں پر توجہ دوں‘ اپنے استاد کو توجہ دوں‘ اپنے کلاس کو توجہ دوں اور اپنے علم کو توجہ دوں‘ زیادہ کھیل کود اور باہر ادھرا دھر دوڑنا نکلنا‘ بھاگنا‘ چھیڑچھاڑ‘ شرارتیں اس سے بہت زیادہ منع کرتے تھے اور مجھے اکثر اس کی تلقین کرتے اگر بچپن کی کوئی شرارت میں کربھی لیتا تو مجھے احساس ہوتا کہ آج رات سونے سے پہلے سرگوشیاں مجھے اس کے بارے میں پیار محبت سے تنبیہ کریں گی اور ایسا ہی ہوتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مجھے جینا سکھایا:پیار محبت سے مجھے سمجھایا جاتا اور بتایا جاتا ایسا نہیں کرنا تھا‘ ایسا کرنا تھا اور اگر آپ ایسا کرلیتے یعنی اس کا اچھا حل بتایا جاتا تو بہتر ہوتا۔ یقین جانیے! وہ میری خوشیوں کے دن تھے اور میری راحتوں کا سامان تھا‘ میرا ہر پل‘ ہر سانس‘ خوشیوں اور راحتوں کے ساتھ چل اور ڈھل رہا تھا‘ یہی لوگ تھے جنہوں نے مجھے والدین کا ادب سکھایا‘ یہی لوگ تھے جنہوں نے والدین سے بولنے کا سلیقہ سکھایا۔ یہی سرگوشیاں تھیں جنہوں نے مجھے والدین کو کس نظر سے دیکھنا ہے‘ کس لہجے سے پکارنا ہے‘ کس انداز سے ان سے بات کرنی ہے‘ یہی لوگ تھے جنہوں نے بہن بھائیوں کے ساتھ پیار محبت کا سامان اور سلیقہ دیا تھا‘ یہی لوگ تھے جنہوں نے زندگی میں اوڑھنے‘ بچھونے کا‘ زندگی گزارنےکا طریقہ بتایا اور یہی لوگ تھے جو ہر سانس‘ ہر پل میرے ساتھ تھے۔ میری زندگی کی نوک پلک سنوارتے تھے۔ آج بھی یہی لوگ ہیں‘ جو ہر سانس میرے ساتھ ہیں‘ اسے میں خدائی عطیہ کہوں گا‘ اسے میں اپنا کمال کہتا ہوں نہ کہوں گا اور مجھے خطرہ بھی ہوتا ہے کہ اگر میں اسے اپنا کمال کہوں گا تو یہ نیک ہستیاں کہیں مجھ سے روٹھ نہ جائیں اور مجھ سے ناراض نہ ہوجائیں۔وظیفہ اور دماغی خشکی:پچھلے دنوں کی بات ہے رمضان المبارک کا انیسواں روزہ تھا میں اپنے معمولات کرکے مراقبہ میں بیٹھا تھا تو میرے کانوں میں سرگوشی سنائی دی اور میں چونک پڑا یہ شناسا سرگوشی تھی جسے میں بچپن سے اب تک سنتا آرہا ہوں‘ کہنے لگے: آج فلاں ذکر چھوٹ گیا‘ آپ کو یاد ہے؟ میں چونک پڑا: میں نے مراقبہ چھوڑ دیا‘ اگلی سرگوشی ہوئی: نہیں مراقبہ نہ چھوڑنا‘ اس ذکر کو بعد میں کرلینا لیکن کہنے لگے دیکھو کبھی اس ذکر کو چھوڑنا نہیں۔ کوئی عمل چھوٹ بھی جائے تو اس کی قضا کرلیا کرو‘ عمل کی قضا بہت اثر رکھتی ہے۔ پھر مجھ سےکہنے لگے: کہ کیا آپ نے اپنے کھانے میں کچھ چکنائی استعمال کی ہے‘ کیونکہ آج کل آپ نے چکنائی چھوڑی ہوئی ہے‘ اتنا جلالی ذکر کرتے ہیں‘ اتنے جلالی وظیفے کرتے ہیں اور اتنے جلالی آپ کے معمولات ہیں‘ اس کیلئے چکنائی تو بہت ضروری ہے ورنہ دماغ میں خشکی ہوجائے گی اور مختلف امراض عوارضات اور تکالیف شروع ہوں گی۔ اس سلسلے میں جنات نے اپنا ایک واقعہ سنایا: کہنے لگے کہ مجھے میرے رہبر نے ایک ذکر دیا تھا‘ وہ ذکر سارا کا سارا جلالی تھا اور اس جلالی ذکر کو کرتے کرتے ایک دفعہ میرے ساتھ ایسا ہوا کہ میں سوتا تھا تو نیند نہیں آتی تھی ‘اٹھتا تھا تو چکر آتے تھے‘ بولنا کیا ہوتا تھا بول کیا دیتا‘حافظہ کمزور ہوگیا‘ چیزیں بھولنا شروع ہوگئیں‘ غصہ جلال بڑھ گیا‘ میں نے اپنے رہبر کو اس چیز کی اطلاع کی تو مجھ سے فوراً فرمانے لگے: لگتا ایسا ہے کہ تم نے سر پر تیل لگانا‘ پاؤں میں تیل لگانا‘ مکھن یا بالائی یا گھی کا استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے‘ میں نے ایسا کیا اور کچھ عرصہ کیا تو یہ چیزیں آہستہ آہستہ مجھ سے دور ہوگئیں۔
جنات کو تابع کرنے والوں کا کچھ نہ بچا:قارئین! جنات کی دنیا بہت انوکھی زندگی ہے‘ ان سےدوستی اچھی نہیں‘ ان سے دشمنی تو بہت بُری ہے آپ سوچیں گے ان سے دوستی کیوں اچھی نہیں‘ اگر تو یہ خود دوست بن جائیں تو ہمیشہ ہر نیک جن دوست ہی رہتا ہے اور وفا کرتا ہےاگر ان کو تابع کیا جائے تو یہ شاید بڑی مشکل سے تابع ہوجائیں لیکن کوئی بھی چیز کبھی تابع ہونا پسند نہیں کرتی۔ کوئی بھی چیز تابع نہیں ہوتی اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ نے ہر چیز کو آزاد پیدا کیا ہے اور کوئی چیز غلامی میں چاہے وہ انسان ہو‘ جانور ہو یا جن
ہوکبھی غلام بننا قبول نہیں کرتا۔ میرے پاس ایسے کتنے بے شمار لوگ آتے ہیں جنہوں نے ہمزاد ‘جنات جو کہ ایک ہی چیز ہے کو تابع کرنے کے بڑے چلے‘ عمل کیے‘ نہ جسم بچا‘ نہ جان بچی‘ نہ روح بچی‘ نہ ایمان بچا‘ بہت کم ہوں گے جن کا ایمان سلامت ہے‘ ورنہ تو میں نے اپنی آنکھوں سےا ن کو کفریہ عمل‘ کفریہ کام اور کفریہ عقائد اپناتے دیکھا‘ ان کی زندگی میں میں نے راحتیں نہیں دیکھیں‘ خوشیاں نہیں دیکھیں‘ ان کی زندگی میں تکلیفیں‘ مسائل اور مشکلات دیکھیں‘ کسی کی اولاد نہیں‘ اولاد ہے تو اپاہج ہے‘ لولی لنگڑی ہے‘ کسی کی بیٹا بیٹی نہیں اگر ہے تو بدکردار‘ نافرمان اور باغی ہے۔ دولت‘ خوشیاں‘ کامیابیاں‘ رزق سے تو میں نے اکثر کو محروم دیکھا‘ بات پھر وہی جنات کو تابع کرنا اور اس کی کوشش کرنا بہت بڑی نادانی ہے‘ ہاں خود دوست بن جائیں تو ان کی دوستی کو نبھانا بھی بہت بڑی حکمت بصیرت اور حوصلہ کا کام ہے‘ لیکن دوست جنات کوئی شرائط نہیں رکھتے‘ کوئی سختیاں نہیں کرتے اور دوست جنات کوئی پریشان نہیں کرتے‘ جن جنات کو آپ تابع کریں وہ شرائط بھی رکھتے ہیں‘ مال کی شکل‘ یا غذا کی شکل میں کوئی چیز بھی لیتے ہیں اور ان کی سختیاں بھی بہت ہوتی ہیں‘ پابندیاں بھی بہت ہوتی ہیں اور اچھا خاصا انسان ان سختیوں اور پابندیوں کو برداشت کرتے کرتے خود گھل جاتا ہے یا برداشتک کرہی نہیں پاتا۔ یوں انسان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے اب اگر ان کو چھوڑ دیتا ہے تو وہی چیزیں بعد میں اس کیلئے وبال جان بن جاتی ہیں اور اگر ان کا ساتھ دیتا ہے تو وہ زندگی بھر اسے سکھ کا سانس نہیں لینے دیتی۔آئیے ہم جنات کوتلاش کرنا چھوڑ دیں: آئیے! کیوں نہ ہم جنات کو تلاش کرنے کی جستجو کرنا چھوڑ دیں ہم وہ احتیاطیں کریں کہ جس سے ہم جنات کی کسی بھی تکلیف سے بچ سکیں۔جانوروں کےبلوں میں پیشاب ہرگز ہرگز نہ کیجئے: حضور اقدس ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں دو بڑے قبائل تھے ایک اوس ایک خزرج، ایک جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہٗ جو کہ خزرج کےبڑے سرداربھی تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ کسی جانور کے بل میں بھول سے پیشاب کردیا کیونکہ حدیث کے مطابق بلوں میں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے‘ انہوں نےیہ عمل جان بوجھ کر نہیں کیا‘ جنات ان کے دشمن ہوگئے‘ جنات کا ایک گروہ ہے جس کو ’’غول‘‘ کہتے ہیں یہ وہی گروہ ہے جنہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو( احادیث میں اس کا بے شمار جگہ تذکرہ ہے) تنگ کیا اور ان کو رات کو آکر گلے سے دباتے تھے‘ یہ وہی ’’غول‘‘ کا گروہ ہے جنہوں نے اللہ کے نبی ﷺ کو حالت نماز میں غلط فہمی ڈالنے کی کوشش کی‘ جبکہ وہ اس میں ناکام رہے کیونکہ نبی ﷺ کے ساتھ براہ راست اللہ کی حفاظت کا نظام تھا۔ یہی وہ ’’غول‘‘ ہے جو ہر اس دیندار کو پریشان کرتے ہیں مختلف تکالیف‘ بیماریوں‘ دکھوں‘ مشکلات‘ مسائل اور ناکامیوں میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں جو مسنون اعمال یا حفاظت والی دعاؤں سے غفلت کرے۔ خزرج کے سردار حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے ان جنات نے بدلہ لیا اور انہیں شہید کردیا۔ لہٰذا کوشش کریں کہ جانوروں کے بلوں میں ہرگز ہرگز پیشاب نہ کریں۔ حتیٰ کہ ان کی طرف رخ بھی نہ کریں اور ان سے ہٹ کر اپنی حاجت کو پورا کریں۔ مجھے کئی انسانوں نے بتایا جو جنگلوں‘ گاؤں‘ دیہاتوں اور صحراؤں کے رہنے والے تھے کہ جب بھی ہم نے کسی بل کی طرف منہ کیا یا بل کے اندر پیشاب کیا کسی نہ کسی پریشانی‘ دکھ‘ تکلیف‘ مصیبت یا آزمائش کا ہم نے ضرور سامنا کیا اور وہ آزمائش بھی اتنی زیادہ تھی کہ ہمارے بس سے بالاتر تھی اور ہم نےزندگی میں آج تک ایسی آزمائش کے بارے میں کبھی سنا اور سوچا نہیں تھا۔
جنات سے بچنے کیلئے چند احتیاطیں:قارئین! ایک اور احتیاط یہ کریں کہ جب بھی سانپ دیکھیں اسے حدیث کے وہ الفاظ یاد دلائیں کہ اے جن تو نے حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام سے عہد لیا تھا اگر تو واقعی سانپ ہے تو ٹھیک ہے اگر تو جن ہے تو راستہ چھوڑ دے یہ تین بار کہیں اس کے بعد اسے مار دیں۔ آپ مجرم نہیں ہوں گے۔ تجربات مشاہدات اور مسلسل فقہاء ،محدثین، مؤرخین اور بڑے بڑے روحانی دانشوروں کے تجربات میں یہ بات آئی ہے کہ ہر سانپ جن نہیں ہوتا لیکن کچھ سانپ جن ہوتے ہیں۔ اگر ان کو مار دیا جائے تو انتقام ضرور لیتے ہیں اور موت کا بدلہ موت ہوتا ہے۔ وہ مارنے والے کو یا ان کے قریبی کسی فرد کو ضرور تکلیف دیتے ہیں۔ یا پھر اسے مار دیتے ہیں۔ بلوں میں جان بوجھ کر پیشاب کرنے والے کا انجام: اس سلسلے میں مجھے ایک جن نے بہت پہلے ایک واقعہ سنایا جو آج اچانک یاد آیا جن کہنے لگا: کہ ایک بار کا ذکر ہے میں اپنے والد کے ساتھ تجارت کی غرض سے چین کے سنگلاخ پہاڑی علاقے میں جارہا تھا ہمیں ایک فرد ملا جو محسوس ہورہا تھا کہ پیشاب کرنا چاہتا ہے میرے والد نے کہا لگتا ہے کہ اس کی موت کاوقت قریب آگیا ہے‘ اور یہ ابھی پیشاب کرے گا اگر تو اس نے کسی بل میں پیشاب کردیا تو یہ مارا جائے گا اور اگر اس نے ایسی جگہ پیشاب کیا جہاں بل نہیں تو اس کی زندگی ابھی باقی ہے‘ ہم یہ دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک اس نے ایک بل کا رخ کیا جو ڈھلوان کی طرف تھا اس میں پیشاب کرنے لگا پیشاب کرتے ہی بل میںرہنے والے حشرات میں ہلچل مچی۔وہ پیشاب کرکے چل پڑا‘ وہ تین دن مسلسل ان پہاڑوں کے سفر میں رہا اس کے ساتھ خچر تھے کچھ اور لوگ بھی تھے وہ ان خچروں پر سامان لادے جارہا تھا‘ اسے پھر پیشاب آتا تھا تو وہ پھر کسی بل کا رخ کرتا اس طرح اس نے کئی بار مختلف بلوں میں پیشاب کیا‘ میرے والد کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ اتنی بار بلوں میں پیشاب کرچکا ہے اور اسے ابھی تک کچھ نہیں ہوا اور یہ بالکل زندہ سلامت ہے‘ آخر وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا‘ جا ہی رہا تھا کہ ایک پہاڑ کے ایک چھوٹے سے پتھر سے اس کا پاؤں پھسلا وہ پیشانی کے بل گرا اسے ماتھے پر چوٹ آئی ‘خون نکلا اور وہ بے ہوش ہوگیا معلوم ہوا وہ قافلے کا سردار تھا لوگوں نے اسے اٹھایا اورایک خچر پراس کا سامان سیدھا کیا ‘ اسے بستر کی شکل دی اور اسے اس پرڈال دیااور چلنے لگے‘ وہ اپنے تمام طریقے آزما چکے‘ جو ان کے پاس صحرائی جنگلی اور دیسی طریقے علاج معالجے کے تھے لیکن ان کاکوئی بھی طریقہ صحت یابی کی طرف نہ لے جاسکا۔ ایک دن اور ایک رات کے بعد آخر وہ صبح وفات پاگیا۔ ہم خود آنکھوں سےدیکھ رہے تھے جس چیز کو انہوں نے پتھر کہا تھا وہ پتھر نہیں تھا وہ جن تھا جس کا گھر تھا سب سے پہلےجس بل میں اس نے پیشاب کیا تھا اور جس سے کیڑے مکوڑے نکلے تھے اس نے پتھر کی شکل میں اس کے سامنے آکر اس کی ٹانگ کو مروڑا اور بے دردی سے اٹھا کر سامنے پتھر پر پٹخ دیا اور پھر اس کا سربہت طاقت سےزمین پر مارا کہ وہ بیہوش ہوگیا اور اپنی جان کو سنبھال نہ سکا اور اسی بیہوشی میں ان جنات نے اس کو قتل کردیا۔ (جاری ہے)

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 282 reviews.