Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

سید الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ (مولانا محمد یونس قادری)

ماہنامہ عبقری - فروری 2009ء

مسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقا ضا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عا دت شریفہ اللہ کے بندو ں اور اپنے مخلصو ں سے ہمیشہ مسکر اکر ملنے کی تھی۔ ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رویہ اور بر تائو ان لو گو ں کے لیے کیسے قلبی و روحانی مسرت کا با عث ہوتا ہو گا اور اس کی وجہ سے ان کے اخلا ص و محبت میں کتنی تر قی ہو تی ہو گی۔ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرادینا بھی صدقہ ہے (تر مذی )“ ”حضرت جا بر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا صر ف تبسم ہو تا تھا ۔ (شمائل تر مذی ) ”حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیا دہ مسکرانے والا کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔ (جامع ترمذی ) “حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے تو تبسم فرماتے (یعنی خندہ پیشانی سے مسکرا تے ہوئے ملتے تھے ) (شما ئل ترمذی) “”حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ فجر کی نما ز جس جگہ پڑھتے تھے آفتاب طلو ع ہونے تک وہا ں سے نہیں اٹھتے تھے پھر جب آفتا ب طلو ع ہو جا تا تو کھڑے ہو جا تے اور (اس اثنا میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحا بہ رضی اللہ عنہ زمانہ جا ہلیت کی با تیں (بھی ) کیا کر تے اور اس سلسلے میں خو ب ہنستے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بس مسکرا تے رہتے ۔ (صحیح مسلم ) “”حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فرما یا کہ میں اس شخص کو خو ب جانتا ہو ں جو سب سے پہلے جنت میںداخل ہو گا اور اس سے بھی واقف ہو ں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جا ئے گا ، قیا مت کے دن ایک آدمی دربا ر الٰہی میں حاضر کیا جائے گا اس کے لیے یہ حکم ہو گا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کیے جائیں اور بڑے بڑے گنا ہ مخفی رکھے جائیں جب اس پر چھوٹے چھوٹے گنا ہ پیش کیے جائیں گے کہ تو نے فلا ں دن فلاںگنا ہ کیے ہیں تو وہ اقرا ر کرے گا ۔ اس کے لیے انکا رکی گنجا ئش نہیں ہو گی اور اپنے دل میں نہا یت خوفزدہ ہو گا کہ ابھی تو صغائر ہی کا نمبر ہے ، کبائر پر دیکھیں کیا گزرے ؟کہ اس دوران میں یہ حکم ہو گا کہ اس شخص کو ہر گناہ کے بدلے ایک ایک نیکی دی جائے تو وہ شخص یہ حکم سنتے ہی خو د بو لے گا کہ میرے تو ابھی بہت سے گنا ہ با قی ہیں جو یہا ں نظر نہیں آتے ، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مقولہ فرما کر ہنسے یہا ں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے ، ہنسی اس بات پر تھی کہ جن گنا ہو ں کے اظہا ر پر ڈر رہا تھا ان کے اظہا ر کا خود طا لب ہو گیا ۔(شمائل ترمذی ) ”حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں کہ میرے والد سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق کے دن ہنسے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے ۔ حضرت عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پو چھا کس با ت پر ہنسے ؟انہو ں نے کہا ایک کا فر ڈھا ل لیے ہوئے تھا اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ تو بڑے تیر انداز تھے لیکن وہ اپنی ڈھا ل کو ادھر ادھر کر لیتا تھا ، جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچائو کر رہا تھا ( گو یا مقابلہ میں سعد رضی اللہ عنہ کاتیر نہ لگنے دیتا تھا حالانکہ یہ مشہور تیر اندا ز تھے ) سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مر تبہ تیر نکالا (اور اس کو کما ن میں کھینچ کر انتظا رمیں رہے) جس وقت اس نے ڈھا ل سے سر اٹھا یا فوراً ایسا نشانہ لگا یا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور وہ فوراً گر گیا ۔ ٹانگ بھی اوپر کو اٹھ گئی پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قصے پر ہنسے ، میں نے پو چھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میںکو ن سی با ت پر ہنسے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سعد کے اس فعل پر (چونکہ اس قصے میں شبہ ہو گیا تھا کہ اس کے پا ئو ں اٹھنے اور ستر کھل جا نے پر تبسم فرما یا ہو ۔ اس لیے دوبارہ پو چھنے کی ضرورت ہوئی انہو ں نے فرمایا یہ نہیں بلکہ میرے حسن نشانہ اور اس کے با وجود اتنی احتیا ط کے تیر لگ جانے پر کہ وہ تو ہوشیا ری کر ہی رہا تھا کہ ڈھا ل کو فوراً ادھر ادھر کر لیتا تھا مگر سعد رضی اللہ عنہ نے بھی تدبیر سے ایسا تیر جڑا کہ فوراًہی گر گیا اور مہلت ہی نہ ملی ( شمائل ترمذی )“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بد ر سے واپس تشریف لا رہے تھے تو مقام روحاءپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ مسلمان ملے ، جنہو ں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اس فتح مبین کی مبا رک باد دی ۔ اس پر حضرت سلمۃ بن سلامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کس چیز کی مبا رک دیتے ہو خدا کی قسم بو ڑھو ں سے پا لا پڑا ، رسی میں بندھے ہوئے اونٹوں کی طرح ان کو ذبح کر ڈالا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا یہی تو مکہ کے سادات اور اشراف تھے (جدید سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلددوم )
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 700 reviews.