Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

جنات کا پیدا ئشی دوست (قست نمبر 77)

ماہنامہ عبقری - فروری 2016ء

سردی کی رات‘ قبرستان کی تنہائی اورپراسرار سرسراہٹ: میں ابھی پچھلے دنوں رات کو قبرستان میں تھا‘ سردی ہو اور سردی کی راتیں ہوں‘ لمبی سردراتیں جہاں عبادات میں مزہ دیتی ہیں‘ وہاں قبرستان کی تنہائیوں میں بھی بہت زیادہ لطف اور مدد دیتی ہیں‘ قبرستان میں اچانک مجھے سرسراہٹ محسوس ہوئی میں سمجھا کوئی سانپ ہے‘ پھر احساس ہوا سردیوں میں سانپ نہیں ہوتے‘ سمجھا کوئی نیولہ ہوگا‘ دائیں بائیں غور سے دیکھا‘ اسے اپنا خیال سمجھ کر پھر میں اپنے عمل میں لگ گیا۔ تھوڑی دیر ہوئی وہ سرسراہٹ پھر محسوس ہوئی لیکن اب اس کی آواز زیادہ تھی اور آواز میں یہ احساس تھا کہ جیسے کپڑوں کا کوئی ڈھیر یا گٹھڑی ہو اور اسےکوئی زمین پر گھسیٹ رہا ہے اور اسےگھسیٹنے سےجو آواز نکلتی ہے‘ بالکل واضح وہی آواز تھی۔
پرانے کفن پر مُردوں کی ہڈیاں:اب میرے احساسات بیدار ہوئے اور میرا خیال غالب ہوگیا کہ یہ کوئی راز ہے یا کچھ ہے‘ اب میں اپنے عمل کو چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہوا‘ اُس طرف اٹھا‘ اُس سرسراہٹ کی طرف گیا‘ میں دیکھ کر حیران ہوا ایک پرانے کفن کا ٹکڑا ہے اور اس کے اوپرمُردوں کی ہڈیاں بہت سلیقے سے جڑی ہوئی ہیں جیسے گٹھڑی باندھنے کیلئے کسی چیز کو سلیقے سے جوڑا جاتا ہے بس گانٹھ دینا باقی ہوتا ہے۔ وہ  گٹھڑی تھوڑی ہی دیر ہوتی ہے خودبخود گھسیٹتی ہے پھر رک جاتی ہے۔ مجھے حیرت کا ایک جھٹکا لگا لیکن خوف محسوس نہیں ہوا۔ میں دائیں بائیں دیکھنے لگا کہ کون سی چیز اس گٹھڑی کو گھسیٹ کر چلتی ہے‘ میں پھر ایک طرف ہوگیا اور اس انتظار میں رہا کہ کس وقت یہ گٹھڑی گھسیٹتی ہےشایدا نہیں میرے آنےکی اطلاع ہوگئی تھی‘ گٹھڑی یعنی وہ سلیقے سےجڑی ہڈیاں بالکل جامد اور ساکت۔ میں پھر اسی انتظار میں اور ساتھ میں اپنے عمل میں بھی لگا رہا۔ تھوڑی دیر ہوئی وہ گٹھڑی خودبخود پھر چند فٹ کھسکی پھر رک گئی اب تو میرے تجسس کو اور آگ لگی اور میں اس کی طرف بڑھا میں نے ایک ایک ہڈی کو اٹھایا ‘کوئی بازو کی کوئی کلائی کی کوئی کھوپڑی، کوئی ٹوٹی ہوئی کوئی خستہ کوئی بالکل تازہ غرض یہ ہڈیوں کا ڈھیر میں ہٹاتا چلا گیا مجھے ایک احساس تھا کہ شاید اس کھوپڑی کے اندر کوئی جاندار چیز ہو جو اس کو حرکت دے رہی ہے۔ میں نے  کھوپڑی کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھا ‘سوائے مٹی کے اور کچھ نہ نکلا یا بعض کھوپڑیوںمیں سے ہڈیوں کا چورا نکلا۔
یہ جنات کی کارستانی یا روحوںکا طلاطم ہے:میں سمجھ گیا کہ یا یہ جنات کی کارستانی ہے یا روحوں کا طلاطم ہے‘ میں نے واپس ان ہڈیوں کو اسی سلیقے سےجوڑا‘ رات کو تقریباً پونے تین بجے کا وقت ہوگا‘ سردی اپنےجوبن پر‘ سناٹا کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کی آواز یاپھر یہ ہڈیوںکا ماجرا۔ ورنہ ہر طرف ہو کا عالم تھا جسے دوسرے لفظوں میںکہوں ایک میں اور میری تنہائی بالکل یہی بات۔ میں انہی سوچوں میں الجھا ہوا تھا  یہ جنات ہیں یا روحوں کا نظارا‘ یا طلاطم! سخت کالی رات‘ سفید لباس اور کالاکمبل:اچانک میرے دل میں ایک خیال آیا اور میں نے زبان تالو سے لگا کر سورۂ مزمل پڑھنا شروع کردی‘ میں نے اپنےرہبر کی زیرنگرانی سورۂ مزمل زبان تالو سے لگا کر آٹھ دفعہ تک پڑھنے کی مشق کی تھی اور پھر یہ مشق بڑھتی چلی گئی اور بہت آگے گئی میں باوضو تھا‘ میں نے سفید لباس اور بھرپور خوشبو لگائی ہوئی تھی سیاہ رنگ کا کمبل اوڑھا ہوا تھا اور اپنے جسم کو سردی سے محفوظ رکھنے کیلئےکچھ لوازمات کیے ہوئے تھے۔اچانک ہڈیاںجڑنا شروع ہوگئیں: میں نےسورۂ مزمل ابھی پوری ہی نہیں پڑھی تھی کہ یکایک ہڈیوں میں ہلچل پیدا ہوئی اور ہڈیاں بکھر گئیں‘ کچھ ہڈیاں تنہا رہ گئیں کچھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئیں۔ میں سمجھ گیا یہ روحوں کا نظام ہے جو ہڈی جس جسم کی تھی اسی جسم کے ساتھ لگ گئی اور جو ہڈی تنہا تھی وہ اسی جسم کی تھی اور وہ تنہا ہے اس کی باقی ہڈیاں اس کی قبر میں ہیں۔ہڈیوں نے کہا آپ جو پوچھیں گے ہم بتائیں گے: میں نے سورۂ مزمل پڑھنے میں مزید تاخیر نہ کی اور یہ نظارہ دیکھنے کیلئے ساتھ ایک اینٹوں کی چوکی بنی ہوئی تھی اس پر بیٹھ گیا میں نے تین بار سورۂ مزمل پڑھی اور چوتھی دفعہ پڑھنے ہی لگا کہ ایک بوڑھی کانپتی ہوئی آواز آئی۔ محترم بس کیجئے! یہ بہت شکستہ اور لاجواب اردو کی آواز تھی لیکن اس آواز کو سن کر بھی میں نے سورۂ مزمل چوتھی بار پڑھنا نہ چھوڑی ابھی چندآیات ہی پڑھی تھیں وہ کہنے لگے آپ مزید نہ پڑھیے آپ ہم سےجو پوچھیں گے ہم آپ کو بتائیں گے۔ ہڈیاں مراد آباد کے بڑھئی کی تھیں: پھر ایک پل میں‘میں اس کلام کی تاثیر اور اللہ کی قدرت پر حیران ہوا اور پھر سوچنے لگا اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘ آخر قیامت کے دن بھی تو یہی ہڈیاں بولیں گی اور اللہ ہڈیوں کو جسم حتیٰ کہ جو ہڈیاں مٹی ہوچکی ہیں ان کو جسم اور روح عطا فرمائےگا۔ بس انہی سوچوں میں تھا اور اللہ کی قدرت پر میرا یقین اور بڑھتا جارہا تھا تو میں نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟
رئیس دادا کا غریب پوتا:بولے میں مراد آباد کا رہنے والا ہوں‘ 1947ء کے حوادث کے بعد تین سال زندہ رہا‘ میری عمر اس وقت 68 سال کی تھی‘ میں بڑھئی تھا۔ لکڑی کا کام کرتا تھا لیکن اس سے پہلے میرے دادا نواب تھے‘ چوبدار تھے اور ان کا نواب سے بہت گہرا تعلق تھا۔ ہمارے گھر میں دولت اور مال کی ریل پیل تھی کسی چیز کی کمی نہ تھی میں نے اپنےدادا کو دیکھا تھا انہوں نے اسی سال سے زیادہ کی عمر پائی تھی وہ دادا نہیں تھے خود بادشاہ تھے‘ شہنشاہ تھے‘ بہت تونگر تھے‘ دولت‘ مال‘ عزت‘ بگھیاں‘ گھوڑے‘ سواریاں‘ جانور‘ ڈیرے‘ زمینیں غرض کونسی چیز ایسی تھی جو میرے دادا کے پاس نہ تھی۔ میں نے اپنے بچپن میں شاہی انداز سے آنکھ کھولی اور شاہانہ مزاج سے پلا۔ شاہانہ طبیعت نے میرے مزاج کو اور شاہانہ بنا دیا‘ یوں میں زندگی کے دن رات گزارتا چلا گیا۔ میرے دادا فوت ہوگئے اور وہ ساری دولت‘ مال‘ عزت‘ وقار‘ شان و شوکت‘ تونگری‘ گھوڑے‘ جانور ‘چیزیں‘ حویلیاں میرے اکلوتے والد کے ورثے میں آئیں۔
ایک ہولناک منظر مگر میں مطمئن:ایک اور چیز یہ بات کہتے ہوئے ہڈیوں سے آتی آواز رک گئی وہ تنہائی قبرستان کی‘ وہ سناٹاقبروں کا‘ ایک انوکھا ڈراؤنا ہولناک منظر‘ جاڑے اور سردی کی شدت‘ ہڈیوں میں سے آواز‘ ایک ہولناک منظر کھینچ رہی تھی لیکن میں مطمئن ‘وہ آوازیں اور باتیں سن رہا تھا۔
ہڈیوں کے اندر سے رونے اور سسکنے کی آواز:وہ روح مجھے کچھ نہ بتاسکی‘ میں نے اپنا عمل چھوڑ دیا اور اس سے پوچھا آپ بولیں تھوڑی ہی دیر میں اس روح کے اندر سے سسکیاں اور رونے کی آواز محسوس ہوئی‘ وہ روح بولی کہ میرے دادا سخت مزاج اور بخیل تھے حالانکہ اس ساری دولت اور مال میں دادا کی محنت کا کوئی حصہ بھی نہیں تھا۔ یہ سب کچھ میرے بڑوں کو نواب سے ملا تھا۔آخر میرا دادا ایسا کیوں کررہا ہے؟ میں نے ہمیشہ اپنے دادا کو غریب کو جھڑکتے‘ ان کو الجھاتے‘ ان کو سزائیں دیتے‘ ان کو مارتے اور ان کی مزدوری کھاتے دیکھا۔ میں بعض اوقات اس پر کڑھتا تھا‘ چھوٹا تھا لیکن باشعور تھا‘ مجھے احساس ہوتا کہ دادا ایسا کیوں کررہا؟ ایک دو دفعہ میں نے بولنےکی کوشش کی لیکن دادا کی ڈانٹ نے میری آواز کو دبا دیا۔ میں کبھی نہ بول سکا۔ مجھے وہ وقت یاد ہے جب غریب میرے دادا کے منہ پر ان کی تعریف کرتے تھے اور غائبانہ انہیں جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیتے تھے‘ کسی کی بے عزتی ہوتی تھی‘ کسی کی بے قدری ہوتی‘ کسی کے ساتھ نوابی مزاج سے سلوک کیاجاتا‘ کوئی روتا تھا‘ کوئی سسکتا تھا‘ کوئی الجھتا تھا‘ کوئی اپنی مزدوری کا اور اجرت کا فکر مند رہتا تھا۔ چند بار ایسے واقعات بھی ہوئے لوگ اپنا حق لینے کیلئے عدالتوں کی طرف گئے لیکن دادا کے اثرورسوخ اور تعلقات نے ان لوگوں کو ناکامی دی بلکہ وہی مقدمات ان پر الٹے پڑگئے۔مزاحمت پر میرے والدنے ہربار مجھے بددعا دی: بس دادا کے مرنے کے بعد میرے والد نے کچھ لوگوں کے ساتھ اچھائی کی لیکن وہ بھی سوفیصد تو نہ کہوں گا لیکن کچھ فیصد اپنے والد کے مزاج پر تھے اب میں بڑا ہوگیا تھا اب میرا شعور بیدار ہوگیا اب میں نے مزاحمت کی لیکن والد نے ہر دفعہ مجھے بددعا دی کہ تو نے میرے فیصلوں کی بے قدری کی تو ہمیشہ بھوکا اور پیاسا رہے گا لیکن میں نے خود محسوس کیا کہ ہمارا مال‘ چیزیں‘ نعمتیں ‘مربعے‘ جاگیریں‘ حویلیاں‘ جانور سب کچھ کم ہونا شروع ہوگئے۔ دادا کے مرنے کے 17سال بعد  سب ختم:میرے دادا کے مرنے کے صرف سترہ سال بعد سب کچھ ختم۔ کچھ جانور گھر کا سامان بچا اور باقی ہرچیز بک گئی نامعلوم کیسے بکی؟ حالانکہ میرے والد کوئی نشہ‘ جوا‘ شراب‘ بدکاری نہیں کرتے تھے‘ پر مجھے احساس ہوا ان جھولیاں اٹھا کر بدعائیں دینے والوں کی بددعائیں قبول ہوئیںمگر کچھ تاخیر سے‘ اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت تھی حتیٰ کہ جس دن میرے والد فوت ہوئے تو اس دن ہمارے گھر میں آنے والے مہمانوں کیلئے بمشکل کھانے کے پیسے نکلے قبر اور کفن کے پیسے بھی ہم نےقرض اٹھا کر پورے کیے۔گھر ‘ جانور سب بک گیا:اب سارے گھر کےاخراجات اور خرچہ میرے اوپر آگیا‘ ایک وقت ایسا آیا کہ وہ گھر بھی بک گیا اور جانور بھی ختم ہوگئے اور دور پرے مراد آباد شہر کے ایک کونے میں ایک پرانے مندر کے ساتھ جسے ہم رام کا مندر کہتے تھے ایک خستہ پرانے مکان میں کرائے پر گیا۔آخر میں معمولی اجرت پر مزدوری کرنے لگا: مزدوری پر جاتا آخر ایک لکڑی کے کاریگر کے معاون کے طور پر مجھے بہت معمولی اجرت پر مزدوری ملی‘ مجبور تھا کام میں دلچسپی لینے لگا اور میں تھوڑے ہی عرصہ میں لکڑی کا ایک ا چھا کاریگر بن گیا‘ پھر میں نے اپنی علیحدہ مزدوری کرنا شروع کردی‘ کچھ سالوں کے بعد میں نے اپنا ایک کمرہ کا مکان بنایا‘ بہت لوگ جن کا میں کام کررہا ہوتا وہ مجھے بعض اوقات کام کرتےہوئے آبدیدہ دیکھتے۔ کہتے کہ آپ یہ کیا کررہے ہیں؟ آپ کو کوئی تکلیف ہے‘ میں کہتا نہیں بس مجھے والدہ یادآگئیں‘ کسی کو کیا بہانہ بنا  تا اور کسی کو کیا۔ حالانکہ مجھے وہ دادا کا عروج‘ وہ نوکروں کا ہجوم‘ وہ لوگوں کی واہ واہ اور گھر میں ہردستر خوان پر سات آٹھ کھانوں کا چنا جانا‘ وہ گھوڑے‘ وہ بگھیاں‘ وہ دولت‘ وہ مال‘ وہ چیزیں یہ سب مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتیں۔ جب بھی یہ چیزیں محسوس ہوتیں بعض اوقات سارا سارا دن آنسو نہ تھمتے اور آہیں اور دادا کے بارے میں بددعائیں نکلتیں۔
دادا آپ نے آخر لوگوںکا حق کیوں کھایا؟ میرے دل سےآج تک دادا کیلئے کبھی دعا نہیں نکلی کہ دادا آپ نے لوگوں کا حق آخر کیوں کھایا؟ آج میں غریب ہوں اور صبح کو مزدوری کا انتظار کرتا ہوں اگر مجھے آج مزدوری نہ ملے تو میرے بچے تو انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ کتنے بچوںکو میرے دادا تو نے رلایا تھا‘کتنےلوگوں کے آنسو نکلوائے تھے‘ کتنے لوگوں کے دلوں کے درداور بددعائیں میرے دادا نے لی تھیں‘ میرے دادا آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بعض اوقات رات کو آنکھ کھل جاتی میں بلک بلک کررونے لگتا تھا میرے بیوی بچے اٹھ بیٹھتےاور پوچھتے کیا ہوا؟ کچھ عرصہ کے بعد انہیں بھی پتہ چل گیا کہ ہمارا والد کس درد اور کس غم پر کڑھتا ہے۔بس یہ میرے دن تھے اور یہ میری راتیں تھیں میں مزدوری کرکے لاتا۔ انہی غموں میں کڑھتے مجھے موت آگئی:ایک دن میرے ساتھ عجیب واقعہ ہوا میری سات دن کی مزدوری ایک شخص نے ہضم کرلی اور کہنے لگا ابھی پیسے نہیں ہیں‘ بعد میں دوں گا حالانکہ میں دن رات اس کی جیب میں مال اور پیسے دیکھتا اورمجھے کام سے بھی فارغ کردیا۔ مجھے اس دن احساس اور بڑھ گیا اور اس نے آخرکار مجھے مزدوری نہ دی میرے دل سے اس کیلئے دعائیں نہ نکلیں بددعائیں نکلیں اور میرا دن‘ میری راتیں‘ میری صبحیں‘ میری شامیں اسی بے چینی میں آخر گزرتی گئیں کہ میرے ساتھ اس نے ایسا کیوں کیا؟ پھر مجھے اپنےدادا کے حالات اور میرے دادا نے لوگوں کے ساتھ جوکچھ کیا وہ یاد آنا شروع ہوگیا پھر میرے اندر یہ احساس اور بڑھ گیا بس انہی حالات میں میرے دن رات گزرتے آخرکار میں مر گیا۔ آج مجھے مرے نصف صدی سے زیادہ ہوگیا ہے پر میری ہڈیاں موت کی اس تلخی اور موت کی سختی کو اب بھی بتارہی ہیں آپ نے میرے لیے سورۂ مزمل کا عمل کیا اللہ نے میری ہڈیوں میں روح ڈالی اللہ ایسا کرنے پر ہروقت قادر ہے۔ہڈیوں کا کفن کے ٹکڑوں پر گھسیٹنےکی داستان: میں بہت درد اور توجہ سے یہ ساری باتیں سن رہا تھا‘ میں حیران پریشان! میں نے اگلا سوال کیا‘ یہ ہڈیوں کا کفن کے ٹکڑوں پر گھسیٹنےکی داستان کیا ہے؟ تو وہ روح ٹھنڈی سانس لے کر کہنے لگی :ہرنوچندی کی تیرہ ،چودہ اور پندرہ یعنی چاند کی تیرہ تاریخ، چودہ تاریخ اور پندرہ تاریخ کو عرش سے روحوں کیلئے ایک غذا آتی ہے کیونکہ یہ وہ تاریخیں ہیں جس میں نظام عالم بدلتا ہے‘ قدرت کے فیصلے ہوتے ہیں‘ زمین پر عذاب آنا ہے‘ بلائیں آنی ہیں‘ آفات آنی ہیں‘ مشکلات آنی ہیں‘ پریشانیاں آنی ہیں‘ الجھنیں بڑھنی ہیں اور تکالیف یا راحتیں یہ سب فیصلے انہی تیرہ چودہ اور پندرہ کی راتوں میں ہوتے ہیں آج چودہ کی رات ہے‘ اور یہ بے چین روحوں کی ہڈیاں گھسٹ گھسٹ کر قبرستان میں آسمانی راحتوں اور آسمانی سکون کے فیصلوں کو تلاش کررہی ہیں اور یہ سب روحیں اپنی زندہ آل و اولاد کیلئے بے چین ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کیلئےعذاب‘ بلائیں‘ مسائل اور مشکلات کیلئے کوئی فیصلے ہوں۔ ہم سب اللہ سےدعائیں بھی کرتےہیں لیکن ہم سب بےبس ہیں‘ ہم اللہ سے مانگتے ہیں‘ ہم اللہ سے فریاد کرتےہیں‘ ہم اللہ کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں اےکاش! کہ مرنے سے پہلے اس طرح جان لیتے‘ ہمیں کہنے والے‘ سمجھانے والے‘ ہمیں نصیحت دینے والے بہت آتے تھے میں نے ان سے پوچھا آپ مجھے کوئی قبرستان کے کوئی اور راز بتائیں جس سے ہماری انسانی زندگی میں انتہائی فائدہ ہو۔ تو وہ بولے:  (جاری ہے)

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 507 reviews.