گزشتہ دنوں مرحوم تجمل الٰہی شمسی صاحب کی نواسیوں کی شادی کی تقریب میں جانا ہوا‘ٹیبل پر کھانے کی میز پر ایک جہاں دیدہ شخص بیٹھے ہوئے تھے باتوں ہی باتوں میں میرا تعارف ہوا تو ان کے گھر عبقری بہت ذوق وشوق سے پڑھا جاتا تھا‘ موصوف چند ماہ پہلے رنڈوے ہوئے تھے۔ بیوی کے وصال کے بعد احباب اور رشتہ داروں کا تقاضا ہے کہ آپ سنت پوری کرتے ہوئے فوراً شادی کرلیں۔ قریب بیٹھے ایک صاحب نے ازراہ مذاق کہا حکیم صاحب آپ ہی انہیں کہہ دیجئے یہ شادی کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ان کی بات سن کر ان کے ماتھے پر بل آگئے اور کہنے لگے ایک ہمارا دور تھا آج میں ساٹھ سال سے اوپر ہوگیا ہوں کہ جب بیٹی کی بلوغت کے بعد اس کی صرف اور صرف شادی کا فکر ہوتا تھا‘ جانچ پرکھ کی جاتی تھی لیکن جو آج کی جانچ پرکھ ہے وہ اصل ذریعہ ہے جس کی وجہ سے شادی میں تاخیر ہوتی ہے موصوف ایک لمبا سانس لے کر مزید کہنے لگے کہ بیوی کے وصال کے بعد احباب کے تقاضا نے مجھے شادی کیلئے مجبور کیا‘ میں تو ایک بات پر حیران ہوا کہ جن رشتوں کو ہم دیکھتے ہیں چالیس سے پینتالیس سال کی خواتین کنواری عام طور پر مل رہی ہیں۔ مجھے افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی تو پتہ چلا کہ شادی کی تاخیر کی بنیاد معیار اور پرسنیلٹی ہے۔ اور وہ پرسنیلٹی کیا ہے؟ کہ خود مجھے ایک پینتالیس سال کی کنواری لڑکی کیلئے جب رشتہ کی بات چلی تو ان کی ڈیمانڈ سترلاکھ کی پراڈو گاڑی‘ فلاں چیزیں‘ اتنا بڑا گھر وغیرہ۔ جو خواتین دیکھنے گئی تھیں ان کا تبصرہ یہ تھا کہ لڑکی کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اور وہ حیرت سے ماں باپ کا منہ دیکھ رہی تھی۔ یعنی اس کے دل کی آواز تھی اور وہ والدین کو حال دل سے پکار رہی تھی کہ میرے ساتھ پینتالیس سال تک تو زیادتی کرچکے ہیں اب تو مزید زیادتی نہ کریں۔ اب تو میں بظاہر اولاد پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں رہی مجھے اماں کون کہے گا اب تو میں ہی اماں ابا کہہ رہی ہوں۔ موصوف اپنی بات کرتے کرتے غصے میں آگئے اور کہنے لگے جن کے گھر میں ایک کمرہ ہے اور تین وقت کی روٹی بمشکل ہے ان کی ڈیمانڈ بھی اتنی زیادہ ہے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ چلو میں تو بوڑھا ہوں لیکن یہ سب کچھ جوانوں کیلئے ہورہا ہے اور مجھے کہنے لگے کہ حکیم صاحب آپ مجھے شادی کا نہ کہیے گا اللہ بخشے میری بیوی بس اس نے میرے ساتھ جو اچھا سلوک‘ اچھی زندگی گزاری وہ اتنی شاندار ہے کہ مجھے یہ ڈیمانڈیں اور ڈیمانڈوں کے بعد پھر ایک اور انجام نظر آتا ہے جن کی نظر پہلے دن دولت مال گاڑیاں‘ کوٹھیاں‘ جائیداد پر ہے ابتدا ہی خراب ہوئی ہے انتہا کا کیا ہوگا؟ پھر اپنے نانا مرحوم کے بارے میں فرمانے لگے کہ وہ بہت عقلمند اور جہاں دیدہ انسان تھےاور بنیے تھے میں چونک پڑا میں نے کہا بنیے تو ہندو کو کہتے ہیں کہنے لگے نہیں اصل میں جو صابن آٹا گھی چاول کا کام کرتا ہے بنیا اس کو کہتے ہیں۔ایک دن ہمارے گھر تشریف لائے پندرہ بیس سال سے ایک صاحب ہمارے ہاں دروازے پر سبزی دینے آتے تھے‘ سبزی کی ریڑھی تھی وہ گلی گلی اسی پر سبزی بیچتے تھے ایک دن وہ صاحب ہمیں سبزی دینے آئے‘ نانا مرحوم بیٹھے تھے دیکھ کر کہنے لگے اس نے سبزی کم تولی ہے‘ ہم حیران ہوئے کہ پندرہ بیس سال سے ان سے سبزی لے رہے بہت اچھے انسان ہیں۔ کہنے لگے میں تجربہ کرکے بتاتا ہوں ان سے سبزی تولائی تو انہوں نے ایسے صفائی سے ڈنڈی ماری کہ ہم حیران ہوگئے اور ان پندرہ بیس سالوں میں ہم انہیں بالکل پرکھ نہ سکے۔ دوسری بات نانا کی یہ بتائی کہ نانا مرحوم نے فرمایا عورت کا خصم اس کا شوہر ہے اور شوہر کا خصم اس کا کاروبار ہے یعنی عورت اگر اپنے شوہر کی نہیں تو پھر کسی چیز کی بھی نہیں اور کسی قابل نہیں اور مرد اگر کاروبار کا نہیں تو پھر اس کو شوہر کہلوانے کا حق نہیں۔ میرے نانا نےاپنے تجربات میں تیسری بات یہ بتائی کہ سب سوٹوں (کپڑوں) پر نمبر لکھ کررکھیں۔ مثلاً ہر سوٹ پر نمبرنگ ہو‘ قمیص پر نمبر ایک‘ بنیان پر بھی ایک نمبر ہو‘ شلوار پر بھی ایک نمبر ہو۔ اس طرح کبھی کپڑے گم نہیں ہوتے۔قارئین! بڑوں کے تجربات اور مشاہدات میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔ آپ بھی آزمائیں اور استفادہ حاصل کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں