آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ آدمی کو روزے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہئیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان میں کسی روزہ دار کو افطاری کرائی تو یہ اس کے گناہوں کی بخشش کا اور اس کی گردن کو آگ سے چھڑانے کا ذریعہ ہوگا
ہر کام جو انسان کرتا ہے اس میں دو چیزیں لازمی طور پر ہوتی ہیں۔ ایک چیز وہ مقصد ہے جس کیلئے کام کیا جاتا ہے اور دوسری چیز اس کام کی وہ خاص شکل ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اختیار کی جاتی ہے۔ مثلاً کھانا کھانے کے فعل کو لیجئے۔ کھانے سے آپ کا مقصد زندہ رہنا ہے اور جسم کی طاقت کو بحال رکھنا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہم نوالے بناتے ہیں‘ منہ میں ڈالتے ہیں‘ دانتوں سے چباتے ہیں اورحلق سے نیچے اتارتے ہیں چونکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے سب سے مناسب اور زیادہ کارگر طریقہ یہی ہے۔ اس لئے اسی کو اختیار کیا۔ لیکن ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ اصل چیز وہ مقصد ہے جس کیلئے کھانا کھایا جاتا ہے نہ کہ کھانے کے فعل کی یہ صورت۔۔۔ اگر کوئی شخص لکڑی کا برادہ یا راکھ یا مٹی لے کر اس کے نوالے بنائے اور منہ میں لے جائے اور دانتوں سے چبا کر حلق سے نیچے اتارلے تو آپ اسے کیا کہیں گے۔۔۔ یہی نہ کہ اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ اس لئے کہ وہ احمق کھانے کے اصل مقصد کو نہیں سمجھتا اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ بس کھانے کے ان چاروں ارکان کو ادا کر دینے کا نام کھانا کھانا ہے۔
اسی طرح آپ اس شخص کو بھی پاگل قرار دیں گے جو روٹی کھانے کے فوراً بعد حلق میں انگلی ڈال کر قے کردیتا ہے اور پھر شکایت کرتا ہے کہ روٹی کھانے کے فوائد جو بیان کئے جاتے ہیں وہ مجھے حاصل نہیں ہوتے بلکہ الٹا روز بروز دبلا ہوتا جارہا ہوں اور مرنے کی نوبت آگئی ہے۔ یہ احمق اپنی اس کمزوری کا الزام روٹی اور کھانے پر رکھتا ہے حالانکہ حماقت اس کی اپنی ہے۔ اس نے نادانی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ کھانے کا فعل جتنے ارکان سے مرکب ہے بس اس کو ادا کردینے ہی سے زندگی کی طاقت حاصل ہوجاتی ہے۔
اس کو جاننا چاہیے کہ جب تک روٹی پیٹ میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر سارے جسم میں پھیل نہ جائے اس وقت تک طاقت نہیں ہوسکتی۔ البتہ کھانے کے ظاہری ارکان بھی ضروری ہیں۔ اس پر غور کریں تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ آج ہم سب کی عبادتیں کیوں بے اثر ہورہی ہیں۔ سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ ہم نے نماز، روزے کے ارکان اور ظاہری صورتوں ہی کو عبادت سمجھ رکھا ہے ا ور خیال کرتے ہیں کہ سب ارکان پورے ہوگئے۔ بس اللہ کی عبادت کرلی اور توقع کرتے ہیں کہ اس عبادت کے فوائد حاصل ہونے چاہئیں خواہ ان ارکان کے ساتھ مٹی اور پتھر اپنے پیٹ میں اتارے ہوں۔ یا فوراً قے کردی ہو یعنی خلاف شریعت کام کئے ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر انسان روزہ میں جھوٹ کیسے بولتا ہے؟ غیبت کس طرح کرتا ہے؟ بات بات پر لڑتا کیوں ہے؟ اس کی زبان سے گالیاں کیوں نکلتی ہیں؟ وہ لوگوں کا حق کیوں اور کیسے مارکھاتا ہے؟ پھر یہ سارے کام کرکے بھی اپنے نزدیک کیسے سمجھتا ہے کہ میں نے خدا کی عبادت کی ہے۔ کیا اس کی مثال اس شخص کی نہیں ہے جو راکھ اور مٹی کھاتا ہے اور محض کھانے کے چار ارکان ادا کردینے کو سمجھتا ہے کہ کھانا اس کو کہتے ہیں۔
کیا ماجرا ہے کہ رمضان بھر میں 360 گھنٹے اللہ کی عبادت کرنے کے بعد جب فارغ ہوتے ہیں تو پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ عید کے روز بدکاری، شراب نوشی اور قمار بازی ہوتی ہے۔ عام مسلمان اللہ کے فضل سے اس قدر بگڑے تو نہیں ہیں مگر رمضان ختم ہونے کے بعد کتنے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے روز بھی تقویٰ اور پرہیز گاری کا اثر ویسا ہی رہتا ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے کا نام روزہ ہے۔ بس یہی عبادت ہے۔ یہ بھوکا اور پیاسا رہنا عبادت نہیں بلکہ عبادت کی صورت ہے اور یہ صورت مقرر کرنے کا مقصود یہ ہے کہ ہمارے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہوجائے۔یعنی بعض لوگ تو روزہ کھولتے ہی سارے دن کی پرہیز گاری کو اگل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کا حکم دینے کے بعد فرمایا ’’ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ یعنی ’’ تم متقی(پرہیز گار) بن جائو‘‘۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس سے ضرور متقی و پرہیز گار بن جائو گے۔ اس لئے کہ روزے کا یہ نتیجہ تو آدمی کی سمجھ بوجھ اور ارادے پر موقوف ہے مگر جو مقصد کو ہی نہ سمجھے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے تو اسے کوئی فائدہ حاصل کرنے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف طریقوں سے روزے کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی ہے۔ فرمایا:’’ جس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑا تو اس کا کھانا پینا چھڑا دینے کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں‘‘۔ایک اور جگہ فرمایا:’’ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک، پیاس کے سوا ان کے لئے کچھ نہیں پڑتا اور بہت سے راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں کہ اس قیام سے رت جگے کے سوا ان کیلئے کچھ نہیں پڑتا‘‘۔ ان دونوں حدیثوں کا مطلب صاف ہے کہ محض بھوکا اور پیاسا رہنا عبادت نہیں ہے بلکہ اصل عبادت کا ذریعہ ہے اور اصل عبادت ہے خوف خدا کہ اللہ ہم سے ناراض نہ ہوجائے اور اللہ کی محبت کی بناء پر ہر اس کام پر شوق لپکنا جس میں اللہ کی خوشنودی ہو۔ روزے کے اصل مقصد کی طرف سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توجہ دلائی ہے کہ ’’ جس نے روزہ رکھا ایمان اور احتساب کے ساتھ، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئیے گئے‘‘۔ ایک اور حدیث شریف میں ’’روزے ڈھال کی طرح ہیں‘‘۔ لہٰذا جب کوئی شخص روزے سے ہو تو اسے چاہیے کہ دنگے فساد سے پرہیز کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا اس سے لڑے تو اس کو کہہ دینا چاہیے کہ بھائی میں روزے سے ہوں‘‘۔
آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ آدمی کو روزے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہئیں۔ اپنے بھائیوں کی مدد کی جائے، غریبوں کی دلجوئی کی جائے اور کوئی سائل خالی ہاتھ نہ جائے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان میں کسی روزہ دار کو افطاری کرائی تو یہ اس کے گناہوں کی بخشش کا اور اس کی گردن کو آگ سے چھڑانے کا ذریعہ ہوگا اور اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس روزہ دار کو روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں