اس جسمانی انحطاط کے نتیجے میں آپ کو وہ کام مشکل دکھائی دینے لگتے ہیں جو پہلے باآسانی کرلیا کرتے تھے۔ آپ سوچیں گے ایسا کیوں ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ اب آپ کی جسمانی صلاحیت کار وہ نہیں رہی جو بیس یا پچیس سال کی عمر میں تھی۔
کہتے ہیں انسان کی زندگی کا آغاز چالیس برس کے بعد ہوتا ہے۔۔۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی زندگی شاذو نادر ہی سوفیصد صحت مند کہی جاسکتی ہے۔ بڑھاپے اور توڑ پھوڑ کا عمل تو تیس پینتس برس کی عمر ہی میں شروع ہوجاتا ہے مگر چالیس برس یا اس کے بعد یہ عمل واضح طور پر محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب جسم میں پچھلے برسوں کی سی پھرتی اور چستی نہیں رہی۔
چالیس برس کی عمر کے بعد چونکہ انسان کی صلاحیت کار گھٹتی چلی جاتی ہے‘ اس کے درج ذیل اثرات سامنے آنے لگتے ہیں:1۔ کمزوری نظر۔ 2۔ سماعت میں خلل۔ 3۔ دوران خون گھٹنا۔ 4۔ مختلف دردوں کا حملہ۔ 5۔ عضلات کا ڈھلکنا۔ 6۔ چربی کا جمع ہونا۔ 7۔ غلط نشست و برخاست اور دوران خون میں کمی کے باعث پاؤں کا چپٹا ہونا یا دکھنا۔
اس جسمانی انحطاط کے نتیجے میں آپ کو وہ کام مشکل دکھائی دینے لگتے ہیں جو پہلے باآسانی کرلیا کرتے تھے۔ آپ سوچیں گے ایسا کیوں ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ اب آپ کی جسمانی صلاحیت کار وہ نہیں رہی جو بیس یا پچیس سال کی عمر میں تھی۔ مردوں اور عورتوں دونوں جنسوں میں‘ چالیس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے عضلات کی طاقت کم ہوجاتی ہےا ور یوں ظاہری شکل و صورت آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگتی ہے۔ شریانیں سخت اور جوڑ سوج جاتے ہیں جس سے کام کرنے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔ بعض لوگ ایسی تبدیلیاں قبول کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں اور اپنے آپ پر افسردگی طاری کرلیتے ہیں۔ وہ کھانا کم کھاتے ہیں‘ سوتے بھی کم کم ہیں اور وزن گھٹانے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں حالانکہ یہ کوئی ایسا ناقابل حل مسئلہ نہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ ہر انسان کی صلاحیت اور گھٹتی چلی جاتی ہےا ور وہ خود کو پہلے سا صحت مند محسوس نہیں کرتا۔ چالیس سال کے بعد جسمانی کارکردگی کو برقرار رکھنے کیلئے چند سادہ مشقیں بار بار کی جائیں تو اس کے دور رس نتائج سامنے آتے ہیں۔ ہمارے اخبار فروش علم دین کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہے‘ مگر میں نے کبھی اسے سست یا مرجھائے چہرے کے ساتھ نہیں دیکھا‘ ایک دن میں نے اس سے اس کی اچھی صحت کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ وہ لوہاری دروازے (اخبار مارکیٹ) سے پیدل اخبار بیچتا ہوا چلتا ہے اور انارکلی‘ مزنگ‘ گنگارام‘ اے جی آفس اور میوہسپتال سے ہوتا ہوا واپس پہنچتا ہے۔ دراصل اس کا پیدل چلنا ہی اس کی صحت کا ضامن ہے۔ ہم بھی ہلکی پھلکی ورزشوں اور زیادہ سے زیادہ پیدل چل کر اپنی گرتی ہوئی صحت کو سنبھالا دے سکتے ہیں۔
بیٹھنے اور بوجھ اٹھانے کے صحیح طریقے
روزمرہ کاموں میں اچھا انداز نشست‘ صحت برقرار رکھنے کا ضامن ہوسکتا ہے اور اس سے جسم میں پایا جانے والا بگاڑ بھی رک سکتا ہے۔ اسی طرح بوجھ اٹھانے کا صحیح طریقہ اختیار کرکے بھی ہم اپنی صلاحیت کار برقرار رکھ سکتے ہیں۔
بہت سے لوگ اپنی کمر کوجھکا کر بیٹھتے ہیں جو ایک نامناسب انداز ہے۔ ہمیشہ بیٹھتے وقت کمر سیدھی رکھیے‘ اس سے آپ کو دباؤ محسوس نہیں ہوگا۔ بھاری اشیاء اٹھاتے وقت جھک کر مت اٹھائیے‘ ہمیشہ پہلے بیٹھیے‘ اٹھائیے اور پھر کھڑے ہوئیے۔ کمر درد سے بچاؤ کیلئے ہمیشہ اپنے دھڑ کو سیدھا رکھیے۔ کچھ مشقیں ایسی ہیں جو آپ اپنے بستر پر کسی بھی وقت کرسکتے ہیں۔ کھانا کھانے سے کم ازکم ایک گھنٹے بعد کوئی بھی مشق کی جاسکتی ہے۔ گھریلو مشقوں میں آرام ایک اہم مشق ہے جو آپ کے روزانہ پروگرام کا باقاعدہ حصہ ہونی چاہیے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد آدھ گھنٹے تک کمر کے بل سیدھا لیٹ جائیے۔ اس سے آپ کی استعداد کار بڑھ جائے گی۔ اب آپ کو کچھ ایسی ورزشیں بتاتے ہیں جنہیں باقاعدگی سے کرکے آپ موٹاپے‘ سینے کے جھکاؤ اور کمر کی متعدد بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔گرماؤ مشقیں: کوئی بھی مخصوص ورزش کرنے سے وارم اپ مشقیں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ یہ جسم کو آہستہ آہستہ گرم کرتی اور اگلی سخت مشقوں کیلئے تیار کرتی ہیں۔ شروع میں ہر ورزش کو چند بار دھرائیے‘ مگر آہستہ آہستہ تعداد بڑھاتے جائیے حتیٰ کہ یہ بیس منٹ تک پہنچ جائے۔ چند وارم اپ ورزشیں یہ ہیں:۔ دونوں پاؤں کے درمیان دس سینٹی میٹر کا فاصلہ رکھ کر کھڑے ہوجائیے‘ گھٹنوں کو آہستہ آہستہ جھکائیے اور بازوؤں کو سیدھا پھیلائیے‘ اب آپ اپنے بازو پیچھے کی طرف گھمائیے‘ گھٹنوں کو مزید جھکائیے اور جسم کو آگے کی طرف لے جائیے اور پھر آہستہ آہستہ بازو سیدھے کرتے ہوئے کھڑے ہوجائیے۔ سیدھے کھڑے ہوجائیے‘ کمر سیدھی رکھتے اور گھٹنوں کو موڑتے ہوئے ایک ٹانگ اوپر اٹھائیے اور جہاں تک ہوسکے اسے اپنے جسم کے نزدیک لائیے۔ یہی مشق دوسری ٹانگ کے ساتھ دہرائیے۔ اس کے علاوہ رسہ پھلانگنے کی ورزش کریں۔ دھڑ کی ورزشیں: یہ مشقیں دھڑ کو سڈول اور جوڑوں کو لچک دار بنانے میں بڑی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ دونوں پاؤں کھول کر کھڑے ہوجائیے‘ دونوں بازو اٹھائیے اور سر سے اوپر لے جاکر دونوں ہتھیلیاں ڈھیلی گرفت کی حالت میںملائیے‘ پھر اپنے کولہے کو موڑتے ہوئے بازوؤں اور دھڑکو بائیں طرف جھکائیے اور بائیں پاؤں کو چھونے کی کوشش کیجئے۔ پہلی بار ایسا نہ ہوسکے تو گھبرائیے نہیں‘ آہستہ آہستہ آپ کے ہاتھ‘ پاؤں کے پنجے کو چھونے لگیں گے۔سیدھے کھڑے ہوجائیے اور دونوں پاؤں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے سر کو پہلے بائیں طرف جھکائیے اور پھر دائیں طرف‘ ایسا کرتے وقت آپ کے دونوں بازو سیدھے لٹکتے رہنے چاہئیں۔دونوں بازو کندھوں کے برابر آگے کی طرف لے جائیے۔ دونوں پیروں کے درمیان فاصلہ رکھتے ہوئے اپنے دھڑکو دائیں جانب موڑئیے۔ ایسا کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو جسم کے گرد گھومنے دیجئے اور جہاں تک ممکن ہواپنا سر بھی بازوؤں کے ساتھ ساتھ موڑئیے۔فرشی ورزش: کمبل یا قالین پر کمر کے بل سیدھے اس طرح لیٹ جائیے کہ بازو جسم کے اطراف میں رہیں اور دونوں پیروں کے درمیان کچھ فاصلہ رہے۔ اب اپنا سر اور کندھے اوپر کو اتنا اٹھائیے کہ آپ کو اپنے ٹخنے نظر آنے لگیں‘ تاہم بازو پہلوؤں ہی سے لگے رہیں۔ اس ورزش کی دوسری صورت یہ ہے کہ سر اور کندھے اوپر اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں سے گھٹنوں کو چھوئیے۔ ان معمولی مگر اہم ورزشوںکو اپنا معمول بنائیے آپ ساٹھ کے ہوکر بھی چاق وچوبند ہی رہیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں