باقی سب تو کالی خالہ کا مذاق اڑا اڑا کر مزے لیتے تھے‘ کالی خالہ گوری بھینس۔۔۔ ایک بچے نے نعرہ لگایا جب کالی خالہ اپنی بھینسوں کو نہلا رہی تھیں۔ یہ سنتے ہی وہ غصے سے بھر گئیں اور ایک پتھر اٹھا کر اس بچے کی طرف پھینکا۔۔۔
ارے وہ دیکھو! کالی خالہ پیلے کپڑوںمیں کتنی خوبصورت لگ رہی ہے‘ میں طنز کرتے ہوئے بولی۔ ارے ہاں! آج تو پورا سورج مکھی کا پھول لگ رہی ہیں‘ سمیہ نے جملہ کسا تو ہم سب زور زور سے ہنسنے لگیں۔ کالی خالہ ہمارے گاؤں کی مشہور ومعروف خالہ تھیں‘ ان کا رنگ کالا سیاہ تھا‘ پورے گاؤں میں اپنے رنگ کی وجہ سے مشہور تھیں اور کالی خالہ کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ اصل نام تو ان کا رشیدہ تھا لیکن یہ نام پورے گاؤں میں اکا دکا لوگ ہی جانتے تھے۔ باقی سب تو کالی خالہ کا مذاق اڑا اڑا کر مزے لیتے تھے‘ کالی خالہ گوری بھینس۔۔۔ ایک بچے نے نعرہ لگایا جب کالی خالہ اپنی بھینسوں کو نہلا رہی تھیں۔ یہ سنتے ہی وہ غصے سے بھر گئیں اور ایک پتھر اٹھا کر اس بچے کی طرف پھینکا۔۔۔ جب کالی خالہ کا کوئی مذاق اڑاتا تو اپنااحتیاطی سامان پہلے سے تیار کرکے رکھتا تھا کیونکہ جب انہیں کالی خالہ کہتے تو ان کے پاس جو کچھ بھی پڑا ہوتا وہ اٹھا کر دےمارتی تھیں۔ اس لیےوہ بچہ بھی کمال احتیاط سےبچ گیا۔ ورنہ پتھر اگر اسے لگتا تو اس کو سمجھ ٓجاتا کہ کون گورا ہے اور کون کالا۔ ایک دن خالہ اپنی بھینسوں کو نہلا رہی تھیں‘ آمنہ اپنی تمام سہیلیوں کے ساتھ نہر کی طرف گئی‘ ہم سب یہ منظر دیکھ کر مسکرانے لگیں کیونکہ ان کا منہ خوب رگڑ رگڑ کر صاف کررہی تھیں۔ خالہ بازار میں ایک رنگ گورا کرنے کا صابن آیا ہےاس سے منہ دھلایا کریں‘ یہ بھی آپ کی طرح گوری ہوجائیں گی۔ آمنہ نے دور سے بلند آواز میں کہا۔ ساتھ ہی دوسری ساتھی بولی ’’ہاں ہاں خالہ اور آج انہیں بلیچ کریم بھی لگانا ‘سنا ہے اس سے رنگ گورا ہوتا ہے۔ ویسے کالی خانہ کونسی کریم استعمال کرتی ہیں؟ میرا دل بھی چاہتا ہےکہ میں بھی وہی استعمال کروں تاکہ مجھے نظر نہ لگے‘ آمنہ بولی اور ہاں خالہ ابھی خالہ۔۔۔۔ اس کے منہ میں تھا کہ ایک مٹی کا ڈھیلاپیشانی پر ٹھا کرکے لگا‘ اس کی آنکھوں کے سامنے تارے گھومنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور مٹی کا ڈھیلا ایک دوسری ساتھی کو لگا۔ انہیں بالکل بھی توقع نہ تھی‘ وہ ایک سمت کو بھاگیں‘ خالہ بھی ان کے پیچھےآرہی تھی‘ وہ بھی پتھروں سمیت۔۔۔ آج پہلی بار انہیں خالہ سے خوف محسوس ہورہا تھا۔ آخر وہ ایک دیوار کے پیچھے چھپ کر کھڑی ہوگئیں۔ سانس بھی روک لیا کہیں خالہ کو پتہ نہ چل جائے۔ وہ مسلسل ان کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر میں دیوار کی اوٹ سے خالہ کا منہ نظر آیا جو کہ دھوپ میں بھاگ بھاگ کر اور بھی کالا لگ رہا تھا‘ ان سب کی چیخیں نکل گئیں۔ آج تم مجھ سے نہیں بچو گی! خالہ بلند آواز میں بولی‘ خالہ تھوڑی دیر سستانے کو رکیں پھر بولیں میں ہمیشہ سنتی اور کسی نہ کسی حد تک برداشت کرلیتی تھی لیکن افسوس! تم جو۔۔۔ اونٹ جتنے منہ نکال کر بے وقوفوں والی حرکتیں کرتی ہو‘ نہ ہی تمہارے والدین کو تمہاری فکر ہے کہ وہ ہی تم کو کچھ ادب سکھادیں۔ تو خالہ آپ کالی ہی ہیں نا۔۔۔۔ ہم کالا کہتے ہیں کچھ اور تو نہیں کہتے نا۔۔۔ سمیہ نے ڈرتے ہوئے کہا‘ تو اس کا مطلب ہے کہ خالہ بتول کا قد چھوٹا ہے تو ہم سب انہیں ٹھگنی خالہ کہہ لیتے ہیں۔۔۔ فاطمہ کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے تو تم لوگ اسے ہمیشہ لنگڑی خالہ کہا کرو۔۔۔ کیا یہ باتیں انہیں اچھی لگیں گی۔۔۔ بیٹا ہمارا مذہب ایسی باتوں سے روکتا ہے۔ مسلمان بہن بھائی ایک جسم کی مانند ہیں‘ آپس میں بے حد پیار ہونا چاہیے‘ ہمارا مذہب ایک دوسرے کا نام بگاڑنے سے منع کرتا ہے اور کسی عیب کی وجہ سے مذاق اڑاتے رہنا بے حد گری ہوئی حرکت ہے۔ کیا میں نے اپنی خوشی سے یہ کالا رنگ پایا ہے اور تم لوگوں نے اپنی خوشی سےگورا رنگ بنایا ہے۔ یا میرا جرم تھا کہ میرا سیاہ رنگ ہے‘ آخر میرا قصورکیا ہے تم لوگ مجھے کیوں ستاتے ہو؟ کبھی اپنے آپ سے پوچھا تم لوگوں نے۔۔۔؟؟؟ وہ معنی خیز نظروں سے ہمیں گھورنے لگیں اور ہمیں زندگی میں پہلی بار اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اوہ۔۔۔!!! واقعی ٹھیک کہہ رہی تھیں مگر ہم نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں تھا اور نہ کسی نے ٹوکا تھا۔ کالی خالہ بولی ’’دیکھو میری بچیو! اللہ پاک کی بنائی ہوئی ساری مخلوق بہت خوبصورت ہے۔ اس کی بنائی ہوئی مخلوق کا مذاق اڑانا نہایت ہی بُری حرکت ہے‘ ڈرو اس دن سے جب کوئی بھائی بھائی کے کام نہ آئے اور نہ بیٹا ماں باپ کے۔۔۔
آمنہ نے کہا اس کا مطلب ہم اللہ کی دی ہوئی چیز کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ میں سب کے سامنے توبہ کرتی ہوں اور آئندہ کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑاؤں گی۔ آمنہ اور اس کی سہیلیوں نے بھی خالہ رشیدہ سے معافی مانگی۔ رشیدہ خالہ نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ تمہیں اپنی غلطیکا احساس تو ہوا۔
بردباری کا نتیجہ
ایک محلے میں دو ہمسائے پاس پاس رہتے تھے۔ ایک بڑا لڑاکا تھا اور دوسرا دھیما اور دانا۔ دانا کے یہاں کچھ مرغیاں پلی ہوئی تھیں مگر اس بات کا وہ ہمیشہ خیال رکھتا کہ ہمسائیوں کو تکلیف نہ ہو۔ باہر جاتے وقت مرغیوں کو دانہ پانی دے کر بند کرجاتا اور جب گھر آتا تو کھول دیا کرتا تھا۔ ایک دن یہ گھر میں موجود نہ تھا کہ کسی طرح مرغیاں کھانچے سے باہر نکل آئیں اور انہوں نے لڑاکے ہمسائے کے گھر جاکر کہیں بیٹ کردی‘ کہیں زمین کھود کھود کر گڑھے ڈال دئیے۔ غرض ہرجگہ کوڑا کرکٹ پھیلا دیا۔ لڑاکے نے دیکھا تو مارےغصے کے بیسیوں ہی گالیاں دیں اور غصے میں ایک مرغی کی گردن بھی مروڑ ڈالی۔ یہ غصے میں بھرا ہوا ابھی بک ہی رہا تھا کہ دانا بھی آپہنچا۔ جس سے گھر والوں نے شکایت کی کہ اس ہمسائے نے ناحق گالیاں دے کر اتنا شور مچارکھا ہے ذرا جاکر پوچھو تو سہی۔ اگر جانور آپ سے آپ نکل گئے تو ہمارا کیا قصور؟ عقل مند نے سوچا کہ ایسے لڑاکے سے سمجھ داری کی امید فضول ہے اور ایسی ذرا حماقت۔ دانائی یہ ہے کہ اس کی درستی کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ ہمسائے کے گھر گیا اور نرمی سے کہا آج کسی طرح اپنے آپ مرغیاں نکل گئیں تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے آپ کو دق کیا۔ لائیے میں صحن میں جھاڑو دے دوں اور کچھ نقصان ہوا ہے تو وہ بھی پورا کردوں۔ دانا کی ان ملائم باتوں نے لڑاکے کے دل پر بڑا اثر کیا کیونکہ اسے تو ایک مرغی کا گلا گھونٹ دینے سے ہمسائے کی طرف سے لڑائی جھگڑے کا اندیشہ تھا۔ اس نے فووراً دانا سے معافی مانگی اور پرپھر کبھی ایسی حرکت نہ کی جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔
(انتخاب:سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں