علامہ نے شروع میں ہی اس یہودی فیملی کو بتادیا کہ میں مسلمان ہوں مگر آپ کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پورے احترام کے ساتھ مانتا ہوں۔ علامہ اقبال تقریباً تین سال اسی فیملی کے ساتھ رہے اور دونوں کے آپس میں تعلقات بے حد دوستانہ تھے۔
اسلام اور مذہبی رواداری شروع سے مترادف ہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺپر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ شدید گھبراہٹ تھی‘ جسم مبارک کانپ رہا تھا‘ خالق کائنات کے کلام کو پہلی مرتبہ وصول کرنا ایک بہت ہی نادر تجربہ تھا آپﷺ غار حرا سے واپس گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سارا قصہ سنایا۔ اللہ کے نبی ﷺ پر طاری ان غیر معمولی کیفیات کو دیکھ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے مشورہ دیا کہ جناب ورقہ بن نوفل کے پاس جاتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ تمام مقدس کتابوں کے جید عالم ہیں۔ ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا زاد اور مذہباً عیسائی تھے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی ہے وہ واقعی کلام الٰہی ہے۔ یہ مذہبی رواداری کا کتنا انوکھا واقعہ ہے۔
اسلامی تاریخ کے ابتدائی ایام میں مذہبی رواداری کی سب سے روشن مثال میثاق مدینہ ہے۔ اس تاریخی دستاویز نے یہودیوں کے حقوق کی ضمانت دی۔ خلفائے راشدین کے عہد میں بھی مختلف مذاہب کے بارے میں مسلمانوں کی وسیع الظرفی اور کشادہ نظری کے واقعات ملتے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کے عہد میں فتح مصربھی تھے۔ مصر میں عیسائی بڑی تعداد میں تھے‘ گورنر کے گھر کے پاس ہی قاہرہ میں ایک وسیع چوک تھا جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مجسمہ تھا۔ چند مسلمان سپاہیوں نے طیش میں آکر مجسمے کی ناک توڑ دی۔ عیسائی آبادی کا غم و غصہ بجا تھا، چنانچہ عیسائیوں کا ایک وفد شکایت لے کر گورنر کے سامنے پیش ہوا اور عرض کیا کہ اس بڑی غلطی کا ازالہ ضروری ہے۔ گورنر نے استفسار کیا کہ آپ کی رائے میں ازالہ کیسے ممکن ہے۔ عیسائی وفد نے تجویز کیا کہ آپ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجسمہ اسی چوک میں لگادیں اور ہم بدلہ خود لیں گے۔ گورنر نے جواب دیا مسلمان اپنے رسول ﷺ کا مجسمہ بناتے ہی نہیں، اس لئے یہ تجویز قابل عمل نہیں۔ البتہ آپ کا شکوہ بجا ہے اور آپ کو اجازت ہے کہ میری ناک توڑدیں۔ حاکم وقت کے عادلانہ فیصلے سے متاثر ہوکر وفد نے مسلمان سپاہیوں کو معاف کردیا۔
دور کیوں جائیں اسلامی رواداری کی بعض تابناک مثالیں ماضی قریب کی تاریخ سے بھی مل جاتی ہیں۔ پروفیسر آرنلڈ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے مشہور استاد تھے۔ علامہ اقبال کو ان کی شاگردی کی ذہانت کو بھانپتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے برطانیہ جائیں، چنانچہ علامہ نے شفیق استاد کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ رہائش کیلئے پروفیسر آرنلڈ نے ایک یہودی فیملی کے ساتھ بندوبست کردیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہودی ذبح شدہ گوشت کھاتے ہیں جسے وہ اپنی زبان میں کوشر کہتے ہیں۔ علامہ نے شروع میں ہی اس یہودی فیملی کو بتادیا کہ میں مسلمان ہوں مگر آپ کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پورے احترام کے ساتھ مانتا ہوں۔ علامہ اقبال تقریباً تین سال اسی فیملی کے ساتھ رہے اور دونوں کے آپس میں تعلقات بے حد دوستانہ تھے۔
حضرت مولانا عبیداللہ سندھی اسلام کے بہت بڑے سکالر تھے۔ آپ پچھلی صدی میں پنجاب کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے زندگی کا بڑا حصہ سندھ میں دینی خدمات سرانجام دے کر گزارا اور اسی مناسبت سے سندھی کہلائے۔ ان کے کزن شیرانوالہ دروازے والے التفسیر مولانا احمد علی بھی بطور عالم اور خطیب بہت مشہور ہوئے۔ وہ بھی سکھ گھرانہ میں پیدا ہوئے اورہوش سنبھالتے ہی اسلام قبول کرلیاتھا۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی والدہ مرتے دم تک سکھ دھرم سے وابستہ رہیں۔ آخری دم تک مسلمان بیٹے نے انہیں اپنے پاس رکھا اور ماں کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور اب ایک ایسے قصے کی طرف آتے ہیں جس سے عیسائیوں کی مذہبی رواداری عیاں ہوتی ہے۔ یہ قصہ میں نے میجر جنرل حق نواز صاحب سے دمشق میں 1975ء میں سنا تھا۔ جنرل صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد تبلیغی کام میں مصروف رہے۔ دمشق بھی اسی سلسلہ میں آتے ہوئے میں سفارت خانہ میں تھرڈ سیکرٹری تھا اور ان سے سفارت خانہ میں ہی ملاقات ہوئی تھی۔فرمانے لگے کہ ایوب خان کے زمانے میں پاکستان سے ایک تبلیغی جماعت فرانس گئی۔ سارے پیرس میں اس زمانے میں ایک ہی مسجد تھی اور امام صاحب کا تعلق مصر سے تھا۔ ان دنوں پاکستان، مغربی ممالک کا حلیف تھا جبکہ جمال عبدالناصر کا مصر غیر جانبدار ممالک کا سرخیل تھا، تبلیغی جماعتیں عام طور پر مساجد میں قیام کرتی ہیں۔ پیرس کی اکلوتی مسجد کے مصری امام نے جماعت کے لوگوں کی میزبانی سے انکار کردیا کہ پاکستان اور مصر کے تعلقات کوئی زیادہ قابل رشک نہ تھے۔ اب تبلیغی جماعت والے پریشان حالت میں پیرس کی سڑکوں پر پھر رہے تھے کہ ایک پادری کی نظر ان پر پڑی۔ پادری نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ اس قدر پریشان کیوں نظر آرہے ہیں؟ تبلیغی جماعت والوں نے جب اپنی پریشانی کی وجہ بیان کی تو پادری نے کہا کہ آپ لوگ رات میرے چرچ میں بتالیں۔ صبح کو اپنے مہمانوں کو پادری نے ناشتہ دیا۔ جماعت والوں نے پوچھا کہ آپ تو ہمارے ہم مذہب نہیں پھر آپ نے اتنا احسان کیوں کیا؟ پادری نے جواب دیا کہ آپ سب لوگ وضع قطع سے ایک خدا کو ماننے والے لگے۔ آپ کا مسئلہ آشکار ہوا تو ہمدردی کا جذبہ بیدار ہوا اور میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ خدا کو ماننے والے ویسے ہی دنیا سے نا پید ہورہے ہیں، لہٰذا آپ کی مدد ضروری ہے اس لئے کہ ہمارا اور آپ کا خدا ایک ہے۔ یاد رہے کہ 1960ء کی دہائی میں دہریت کافی تیزی سے پھیل رہی تھی۔
غالباً 1966ء کی بات ہے مشرقی پنجاب کے سکھوں میں ہندو مخالف خیالات پیدا ہورہے تھے‘ وجہ یہ تھی کہ پنجابی ہندو، پنجابی زبان سے لاتعلقی کا اظہار کرنے لگے تھے۔ کیونکہ وہ خالصتان کے مخالف تھے۔ مشرقی پنجاب کی بدلتی ہوئی سیاست کو پاکستان میں دلچسپی سے دیکھا جارہا تھا۔ میں اس زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہورمیں تھا۔ مشرقی پنجاب سے سکھ یاتری لاہور آئے ہوئے تھے اور شاہی قلعہ کے پاس مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مڑھی کے پاس ان کا پڑائو تھا۔ چند دوستوں نے مشورہ کیا کہ وہاں جاکر سکھ یاتریوں سے مشرقی پنجاب کے حالات معلوم کرتے ہیں۔ جب وہاں پہنچے تو کئی لوگوں سے بات ہوئی۔ ایک سکھ یاتری جو سیالکوٹ سے 1947ء میں بھارت چلا گیا تھا اسے صاحبزادہ فیض الحسن آف آلو مہارشریف سے ملنے کی شدید خواہش تھی۔ جب وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ تقسیم کے وقت صاحبزادہ صاحب ہمارے ہمسائے تھے جب حالات زیادہ خراب ہوئے تھے انہوں نے نہ صرف ہمیں مکمل تحفظ دیا بلکہ بارڈر تک چھوڑنے آئے۔ مولانا محمد قاسم ناتوتوی رحمۃ اللہ دارالعلوم دیوبند کے بانی تھے، رمضان کا مہینہ آیا تو مولانا نے خواہش ظاہر کی کہ امسال وہ نماز تروایح ایک ایسی)
مسجد میں پڑھیں گے جس کا مسلک مولانا سے مختلف تھا۔ ساتھیوں نے مولانا کو فیصلہ بدلنے کا کہا کہ جناب اس مسجد کے خطیب آپ کے بارے میں نیک خیالات نہیں رکھتے۔ مولانا کا جواب تھا کہ کسی تیسرے آدمی نے انہیں بدگمان کیا ہوگا۔ تلاوت وہ خوب کرتے ہیں ایک تو رمضان کا پورا مہینہ میں ان کی تلاوت سنوں گا اور شاید اسی اثناء میں بدگمانی بھی دور ہوجائے۔ چنانچہ مولانا نے اس رمضان المبارک کی تمام تروایح کی نمازیں بریلوی مسلک کے خطیب اور قاری کی امامت میں ادا کیں۔
ابھی حال ہی میں سینیٹراعتزازاحسن نے اپنے بچپن اور نوجوانی کے لاہور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں لاہور میں جس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ملکہ وکٹوریہ کا بت بھی تھا اس کے باوجود بت کو کسی نے گزند پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارے کالج کے زمانے تک یہ بت صوبائی اسمبلی کے سامنے نصب رہا۔ اس زمانے میں لاہور میں اینگلو انڈین بھی خاصی تعداد میں تھے جواب بڑی حد تک نقل مکانی کرچکے ہیں۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے پاک نبی ﷺ نے مدینہ کے یہودیوں کو تحفظ کی ضمانت فراہم کی تھی اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے زمانے میں کسی عیسائی نے مصر سے نقل مکانی نہ کی تھی کیونکہ مذہبی رواداری اور اسلام کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں