Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنات کا پیدائشی دوست۔ ۔ ۔ حصہ 1

ماہنامہ عبقری - جولائی 2014ء

جنات کے اندر جستجو کا مزاج اور میرے تجربات:چاند کا عمل بہت آسان۔۔۔! لیکن اگر انسان اس پر کچھ توجہ کرے تو اس کے کمالات بہت ملتے ہیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو چاند کے اس عمل یعنی سورۃالشمس ہر دفعہ بسم اللہ اکتالیس بار اول وآخر درودا براہیمی اس کو دیکھتے ہوئے جتنے لوگوں نے پڑھا ان لوگوں نے اس کے انوکھے کمالات بتائے۔ خود میرا اپنا تجربہ اور سب سے بڑا تجربہ تو خود اس جن کا ہے جس نے مجھے یہ عمل بتایا۔ جنات کے اندر جستجو کا مزاج بہت زیادہ ہوتا ہے یہ میرے بارہا کے تجربات میں ہے ‘ وہ ہرچیز کو باریکی سے لیتے ہیں اور باریکی سے محسوس کرتے ہیں اور جنات بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ جدید ایجادات میں جنات کا ہاتھ: ایک دفعہ مجھے ایک جن نے بتایا کہ جتنی بھی اس دنیا میں ایجادات ہیں ان میں ہمارا حصہ ضرور ہے‘ جو کسی چیز یا جستجو کے پیچھے پڑجائے اور کسی چیز کو بھی حاصل کرنے کیلئے دن رات محنت کرے ہم اُس کا ساتھ ضرور دیتے ہیں خاص طور پر نیک و صالح جنات۔ غریب‘ فقیرا ور تنگدست جن کی آپ بیتی: میں نےایک محفل میں ایک جن کو یہ عمل بتایا کہ تو چاند کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ مجھے کہنے لگے میں نے یہ عمل کیا ہوا ہے۔ میں حیران ہوا تجھے کس نے بتایا کہا میرے ماموں جن تھے وہ کچھ سال پہلے فوت ہوگئے ہیں وہ بہت بڑے عامل تھے‘ بڑے بڑے جنات کے ہاں انہوں نے زندگی گزاری‘ پھر خود ہی کہنے لگے آسام میںغاروں کا سلسلہ ہے اور جنگلات کا ایک بہت بڑا سلسلہ ہے‘ میرے ماموں وہاں رہتے تھے اور نیک اولیاء جنات کے ساتھ رہتے تھے اور وہ اولیاء جنات وہ تھے جنہوں نے صدیوں بہت زیادہ محنت کی تھی اور بہت قربانیاں اور مجاہدے کیے تھے اور بہت قربانیاں اور مجاہدے کے بعد خفیہ اور مخفی علوم حاصل کیے۔ ویسے تو ہر جن کے پاس خفیہ اور مخفی علوم ہوتےہیں لیکن کچھ جنات ایسے بھی ہوتےہیں جو خفیہ اور مخفی علوم کے حصول میں مزید ترقی کرنے کیلئے قربانیاں اور مجاہدے کرتے ہیں تو کہنے لگے کہ میرے ماموں وہاں سالہا سال رہے جہاں انہوں نے اور بہت سے عمل سیکھے وہاں سورۂ والشمس کا عمل بھی وہاں کے جنات سے سیکھا میرے ماموں خود ہی فرماتے تھے یہ عمل جس کے پاس ہو اسے دنیا کے اور کسی عمل کی ضرورت نہیں کیونکہ اس عمل میں اللہ نے اپنی قسمیں بیان کی اور اللہ جس عمل کے وقت اللہ قسمیں اٹھاتا ہے تو اس عمل کی طاقت اور تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد کہنے لگے کہ اگر آپ کہیں تو میں سورۂ والشمس کے اپنے اوپر بیتے تجربات بیان کروں میں نے کہا ضرور بیان کریں۔ کہنے لگے کہ ہوا یہ کہ میں بہت غریب اور فقیر ہوگیا اور تنگدست ہوگیا۔جن کاچلتا کاروبار اچانک ٹھپ: حالانکہ اس سے پہلے میرا بہت اچھا کھانے پینے کا کاروبار تھا‘ میں وہ چیزیں انسانوں میں بھی بیچتا تھا اور جنات میں بھی بیچتا تھا۔ انسان اور جنات میری چیزوں کو بہت پسند کرتے تھے لیکن نامعلوم قدرت کے نظام نے کیا پلٹا کھایا اور میری غربت کے دن ایسے آئے جیسے آسمان سے بارش کے قطرے گرتے ہیں اور میں غریب سے غریب اور فقیر سے فقیر ہوتا گیا اور اتنی غربت اور تنگدستی میرے قریب آئی کہ میں حد سے زیادہ پریشان ہوگیا اور پریشانی کی انتہا یہاں تک پہنچی کہ مجھے اس پریشانی نے بھیک مانگنے پر مجبور کردیا۔ خیر میں نے بھیک تو نہ مانگی لیکن کچھ ایسے محسوس ہوا کہ میں بھیک مانگنے پر مجبور ہوگیا۔ غربت‘ تنگدستی‘ بدحالی دور کرنے کا خاص عمل:اسی دوران ایک دفعہ میرے ماموں مجھے ملنےمیرے گھر آئے اور فرمانے لگے دیکھو اگر تم چاہتے ہو تمہاری غربت‘ تنگدستی و بدحالی دور ہوجائے تو میں تمہیں ایک عمل بتاتا ہوں اور انہوں نے یہی عمل چاند کو ٹکٹکی باندھ کردیکھنے کا بتایا۔ میں نے عمل کرنا شروع کردیا ہر مہینے جب بھی چاند اپنی روشنی میں یعنی روشن چاند ہوتا تھا تو میں یہ عمل کرتا تھا‘ ایک مہینے ‘تین مہینے‘ پانچ مہینے‘ سات مہینے میں نے یہ عمل کیا تو مجھے اس کا نتیجہ نہ ملا بلکہ میری غربت اور تنگدستی اور بڑھ گئی اور میں پریشان ہوگیا کہ آخر کار میں کروں تو کیا کروں؟ میں اپنے ماموں کے پاس گیا اور ان سے جاکر بات کی کہ میں کیا کروں؟ فرمانے لگے معلوم ہوتا ہے کہ تیرے اوپر سخت کالاجادو ہے اور کسی جن نے کیاہے۔انسان عورت سے محبت اور جن کا کالاجادو: میں سوچنے لگا کہ آخر کس نے کیا؟ لیکن پھر مجھے اچانک یاد آیا کہ دراصل میں ایک انسان عورت سے محبت کرتا تھا اور اسی عورت سے ایک جن اور بھی محبت کرتا تھا‘ انسان عورت کردار کے اعتبار سے ٹھیک نہیں تھی وہ ہروقت غیرمردوں کے پیچھے رہتی تھی ‘مجھے پتہ چلا تو میں بھی اس سے محبت کرنے لگا جبکہ دوسرا جن بھی اس سے مسلسل محبت کررہا تھا۔ اسی دوران مجھے احساس ہوا کہ میری طبیعت خراب ہونا شروع ہوگئی‘ میں نے اس کی پرواہ نہ کی اور میں اس عورت سے محبت کرتا رہا میراآنا جانا اس کے پاس لگا رہا۔ اس عورت نے مجھے یہ نہ بتایا کہ اس کے پاس ایک اور بھی جن آتا ہے لیکن کچھ دن آنے جانے کے بعد میں نے محسوس کرلیا جب میں نے اس سے پوچھا تو اس نے صاف انکار کردیا کہ نہیں میں ایسا ہرگز نہیں کرتی۔ اس کے اس انکار پر مجھے افسوس ہوا کہ یہ میرے ساتھ سنجیدہ نہیں ۔ آخر کار میں نے اس عورت کو خود ہی چھوڑ دیا لیکن وہ جن اپنا کام کرگیا تھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ میں نے نہیں چھوڑا تھا‘ اس نے جادو کے ذریعے مجھ سے چھڑوایا تھا اور اس جادو کی وجہ سے میں معاشی طور پر بھی ‘ کاروباری طور پر بھی بدحال ہوگیا۔ اس سے پہلے کھانے پینے کی چیزیں مجھ سےلوگ لیتے تھے لیکن جب سے میں نے اس عورت کو چھوڑا تو کھانے پینے کی چیزیں بھی مجھ سے دور ہوگئیں اور لوگ بھی مجھ سے دور ہونا شروع ہوگئے اور غربت اور تنگدستی میرے اتنا قریب آئی اتنا قریب آئی کہ میں خود پریشان ہوگیا تنگدست اور بدحال ہوگیا اور یہ تنگدستی اور بدحالی ایسی بڑھی کہ میں مانگنے کے قریب ہوگیا۔ جادو کے خاتمہ کیلئے بھی یہی عمل کر:یہ بات میں نے اپنے ماموں کوبتائی کہ آپ کہتے ہیں کہ جادو ہے تو شاید جادو کی وجہ یہی چیز ہوسکتی ہے تو فوراً فرمانے لگے ہاں جادو کی وجہ یہی کچھ ہے اور اسی عورت اور جن کی وجہ سے تیرے اوپر جادو ہے۔ اب تو ایسا کر کہ اس عمل کو پھر سے جاری کر اور اس عمل کی پھر سے توجہ بڑھا۔ انشاء اللہ تجھے اس عمل کا بہت زیادہ اجر ملے گا۔ میں نے پھر عمل شروع کیا وہی چاند‘ وہی سورۂ والشمس اور وہی میری توجہ اور وہی ٹکٹکی۔۔۔۔ اس بار جو میرے ماموں نے مجھے ترتیب بتائی اس میں یہ چیز خاص طور پر بتائی کہ جب بھی عمل کرنا ہے اس تصور کے ساتھ ضرور کرنا ہے کہ تو چاند کو دیکھ رہا اور چاند کی نورانی کرنیں اس سورت کی نورانیت کے ساتھ مل کر تیرے جادو کو توڑ رہیں‘ تیری بندشوں کو ختم کررہیں اور تیرے اندر کے روگ ‘بیماریاں‘ دکھ‘ تکلیفیں تمام ختم ہورہیں اور سورت کا نور چاند کے نور سے مل کر روحانیت کی ایک ایسی شکل اختیار کررہا جس نے جادو کو جلا دیا‘ بندشوں کو جلا دیا‘ مشکلات کو حل کردیا‘ بس اس انداز سے فرمایا کہ تو عمل شروع کردے۔ میں نے عمل شروع کیا اور عمل مستقل کرتا رہا‘ کرتا رہا۔۔۔ ایک ماہ کیا‘ تین ماہ کیا‘ پانچ ماہ کیا‘ سات ماہ کیا لیکن اب مجھے احساس ہونا شروع ہوا کہ واقعی میرے دن پھرنا شروع ہوگئے اور اللہ کے فضل اور کرم سے میرے دن اتنے پھرے اتنے پھرے اب عالم یہ ہے کہ وہی کھانے پینے کے کاروبار میں میں سب سے آگے ہوں اور لوگ بھی یہ کام کرتے ہیں لیکن میرا کام سب سے بہتر ہے اور سب سے اچھا ہے اور میں یہ کام کررہا ہوں اور بہت زیادہ لوگ میری چیزیں پسند ہیں اور بہت زیادہ لوگ خود آکر مجھ سے چیزیں مانگتے ہیں اور بہت اس میں ذائقہ بھی ہے لذت بھی ہے۔ مجھے اس بات کا احساس بعد میں ہوا کہ اس جن نے اس عورت کو مجھ سے دور کرنے کیلئے مجھ پر سخت جادو کیا تھا اور اس جادو سے جہاں میں عورت سے دور ہوگیا وہاں میرا رزق ختم ہوگیا مشکلات بڑھ گئیں‘ پریشانیاں اور مسائل اتنا زیادہ آگے سے آگے بڑھ گئے کہ میں بھیک مانگنے پرمجبور ہوگیا۔
اس جن نے مجھے اپنا یہ تجربہ بتایا لیکن چونکہ پہلے ہی بتاچکا تھا کہ میرے ماموں فوت ہوچکے ہیں۔ میری چاہت تھی کہ میں اس جن سے ملتا اور اس سے پوچھتا کہ تجھے یہ عمل کس نے بتایا۔خیر! اس محفل میں ایک اور نوجوان جن بھی بیٹھا ہوا تھا جو اجناس کا کاروبار کرتا تھا‘ اس نے مجھے کہاچاند کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کے میرے پاس بھی واقعات ہیں۔ میں نے  اس جن سےکہا پہلے والے آپ کے دوست کے تو روزگار کے مسائل حل ہوگئے‘ رزق کی مشکلیں دور ہوگئیں اور رزق کی پریشانیاں دور ہوگئیں۔ اب آپ بھی بتادیں کہ آپ کو یہ عمل کیسے ملا اور اس عمل نے آپ کیا کیا فائدے پہنچائے۔وہ جن کہنے لگا میں نے اس عمل کو بارہا دفعہ آزمایا ہے‘ ایک دفعہ نہیں بے شمار دفعہ آزمایا ہے اور جب بھی اس عمل کو میں نے آزمایا اس کے فائدے اور اس کے کمالات بہت زیادہ میں نے پائے۔ کہنے لگے میں اس سلسلے میں دو واقعات اور سناتا ہوں۔ میری والدہ کی تنگدستی خوشحالی میں کیسے بدلی؟:پھر خود ہی کہنے لگا ایک واقعہ تو میرا ہے اور ایک واقعہ میری والدہ کا ہے۔ والدہ کا واقعہ یہ ہے کہ ہم پانچ بہن بھائی ہیں اور میری والدہ نے زندگی بہت غربت‘ تنگدستی اورپریشانی کی گزاری کیونکہ بچپن ہی میں میرے والد فوت ہوگئے تھے تو اس لیے انہوں نے زندگی کچھ ایسی گزاری جس میں بس روزگار کا تھوڑا سا گزارہ ہی ہوجاتا تھا۔ میری والدہ کے پاس ایک چکی ہوتی تھی اور اس چکی سے وہ گندم‘ مکئی‘ جوار‘ باجرہ اس کا آٹا بنا کر ہمیں کھلاتی تھیں۔ ہم اس وقت ایک ایسے بڑے جنگل میں رہتے تھے جہاں ہروقت خونخوار درندے رہتے تھے وہاں انسانوں کا گزر بہت کم ہوتا تھا بلکہ میں نے اپنی آنکھوں سے کئی انسانوں کو درندوں کے ہاتھوں چیختے‘ پھاڑتے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا۔ میری والدہ کی تنگدستی بہت تھی‘ میں بہت چھوٹا تھا چونکہ میں بھائی بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں اور باقی سب بہن بھائی بہت چھوٹے تھے‘ ہم پانچوں کے پانچوں ماں سے جب بھی روٹی اور کھانا مانگے اور کھانے کی کوئی چیز مانگتے توماں کی آنکھوں میں ہم آنسو ہی دیکھتے۔۔۔ بس یہ آنسو ہمارے دل کو پگھلا دیتے‘ اس وقت ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ ماں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے ہم کہتےتھے کہ بس ہمیں دے۔ اسی دوران وہاں سے ایک قافلہ گزرا وہ انسانوں کا قافلہ تھا وہ لوگ حج کو جارہے تھے بہت بڑا قافلہ تھا ان کے ساتھ حفاظت کا پوراسامان تھا کہ راستے میں اگر کوئی ڈاکو آئیں یا درندے آئیں تو ان کیلئے نیزے بھالے تیر تلوار اور پورا نظام تھا۔ ولی اللہ نے دیاوظیفہ خاص:ان میں کچھ اولیاء لوگ بھی تھے۔ قدرت کا نظام دیکھئے انہوں نے ہمارے گھر کے قریب پڑاؤ کیا اور دو نمازیں ظہر اور عصر پڑھیں اس دوران کھانا بھی پکایا اور کھایا۔ پہلے ظہر پڑھی پھر کھانا پکایا کھایا پھر عصر پڑھی۔ میری والدہ نے ان نیک لوگوں کو دیکھا اور پتہ نہیں نامعلوم کیا خیال آیا کہ میری والدہ کے پاس ایک حلوہ رکھا ہوا تھا جو اس نے چھپا کر رکھا ہوا تھا کہ شاید گھر میں کوئی مہمان آئے تو کچھ بھی نہ ہو تو چلو یہی حلوہ ہی ہے ان کے سامنے رکھ دیں۔ میری والدہ انسانی روپ میں ان میں سب سے بڑے بزرگ کے پاس گئیں اور ان کو جاکر وہ حلوہ پیش کیا وہ تو حیران ہوئے کہ یہاں انسان کا تو وجود نظر نہیں آتا تم کون ہو؟ والدہ نے واضح کہہ دیا کہ ہم جنات ہیں اور میں انسانی روپ میں آپ کی زیارت  کرنے اور دعائیں لینے آئی ہوں۔ مایوسی ‘ پریشانی‘ تنگدستی دور:وہ صاحب نظر بھی تھے اور صاحب کشف بھی تھے‘ میری والدہ کو بھانپ گئے اور بھانپنے کے بعد کہنے لگے میں تیری حالت کو سمجھ گیا ہوں‘ مایوس نہ ہو پریشان نہ ہو میں تیرا ساتھ دوں گا اور پھر میری والدہ کو انہوں نے یہی والشمس والا عمل بتایا۔ میری والدہ فرمانے لگیں میں پڑھی لکھی نہیں ہوں‘ انہوں نے ایک تنکا اٹھایا اور اس تنکے پر کچھ پڑھا‘ نامعلوم کیا پڑھا اور میری والدہ کو فرمایا اس کو چباؤ اور چباتے چباتےا س کو نگل جاؤ۔۔۔ جب تم نگلو گی اس وقت تمہارا دل کھل جائے گا پھر تم کسی پڑھانے والے سے چند بار پڑھو گی تمہیں یاد ہوجائے گا اور واقعی ایسا ہوا میں خود حیران ہوا کہ میری والدہ نے وہ سورۃ پڑھی اور اسی طرح تنکا منہ میں رکھا اور تنکا منہ میں رکھتے ہی اللہ پاک نے دل کی دنیا کھول دی وہ بزرگ دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔ ان کا قافلہ حج کو جارہا تھا۔ میری والدہ نے یہ عمل شروع کردیا میری والدہ چونکہ پریشانیوں میں مبتلا تھی اس کے علاوہ بھی سارا دن یہی پڑھتی رہتی تھی اسے یاد ہوگیا لیکن جب بھی چاند روشن ہوتا تو ان دنوں میری والدہ یہی عمل کرتی تھی اور بہت توجہ سے کرتی تھی۔ ان کی توجہ اتنی زیادہ کہ وہ اتنا اونچا اونچا پڑھتی ہم سب بہن بھائیوں کو سنتے سنتے وہ سورت یاد ہوگئی اور سورت ایسی یاد ہوگئی کہ میں خود حیران۔۔۔۔ میں نے اپنی والدہ کو وہ عمل کرتے دیکھا۔ چند مہینوں میں ہی میں نے محسوس کیا ہمارے حالات اچھے ہونا شروع ہوگئے اور اچھا ہونے میں اللہ نے ایک سبب انوکھا پیدا فرمایا اور انوکھا پیدا یہ فرمایا کہ ایک ہمارے دور پرے کے رشتے دار ہمیں ملنے آئے‘ وہ میری والدہ کی خالہ زاد بہن تھیں‘ ان کا شوہر ان کا سارا خاندان کوئی پندرہ بیس لوگ آئے۔ مہمانوں نے دیا برکت والاگندم کا تھیلا: میری والدہ پریشان ہوگئی گھر میں تو وہی حلوہ تھا جو میں نے ان مسلمان حاجی مہمانوں کو کھلا دیا اب میں کیا کروں۔ ۔ ۔ ؟ وہ حالات کو بھانپ گئے ان کے پاس اپنا کھانے پینے کا بہت زیادہ سامان تھا انہوں نے کہا تسلی کرو ہمارے پاس سامان ہے ہم آپ کے پاس ویسے ہی ملنے آئے ہیں بچوں کی چاہت تھی چونکہ میری والدہ بہت بااخلاق وبامروت تھیں وہ چند دن ہمارے پاس رہے اور ان چند دنوں میں ان کے پاس اتنا سامان تھا کہ وہ ہمیں بھی کھلایا اور خود بھی کھایا اور جاتے ہوئے باقی سارا بچتا ہوا سامان تھوڑا سا سفر کیلئے اپنے پاس لیا اور باقی ہمیں دے گئے اور دیتے دیتے ایک چیز اور دے گئے وہ گندم کا ایک تھیلا تھا فرمانے لگے اس کو بیچ دینا اس میں ہم نے برکت والا عمل کیا ہوا ہے۔ میری والدہ نے پوچھا وہ برکت والا عمل کیا ہے؟ فرمایا وہ برکت والا عمل سورۂ شمس کا عمل ہے۔ میری والدہ حیران ہوئیں کہ یہی سورت تو میں خود پڑھ رہی ہوں اور یہ بھی پڑھ رہے ہیں ۔ ایک تھیلے سے بڑے بڑے گودام بن گئے:بس وہ تھیلا میری والدہ نے کسی کو بیچ دیا اس کے جو پیسے آئے اس سے گندم کے اور تھیلے لے لیے اور وہ آگے بیچ دئیے۔ بس وہ ذرہ سے ایسا پہاڑ بنا اور ذرے سے ایسا دریا بنا کہ ہمارے دن پھر گئے اور پھر میں کچھ بڑا ہوگیا میری والدہ نے اپنے ساتھ لگایا اور ہم نے اجناس کا کاروبار کرنا شروع کردیا اور اجناس کے کاروبار میں بس وہ ایک تھیلا۔۔۔ ہمارے لیے پھر بڑے بڑے گودام بن گئے اور ہم اشرفیوں میں کھیلنے لگے۔ ہمارے لیے رزق بڑھ گیا‘ ہمارے گھر کے اندر خیریں بڑھ گئیں‘ برکت کے دروازے بڑھ گئے‘ رحمت کے دروازے بڑھ گئے۔ ہم بہن بھائی خوشحال ہوگئے پھر ہم نے اپنے گھر کے ساتھ ایک سرائے بنوائی مسافروں کے قافلے آتے تھے پھر اس سرائے میں رہتے تھے۔ جو لوگوں کو کھلاتا ہے اللہ اس کو کھلاتا ہے: وہ سرائے ہم نے اس طرح بنوائی کہ جنات بھی اس سے فائدہ اٹھائیں اور انسان بھی اس سے فائدہ اٹھائیں اور واقعی ایسا ہوا جنات اور انسان اس سے فائدہ اٹھانے لگے‘ بس سرائے کیا بننا تھی لوگوں نے کیا کھانا تھا‘ ہمارے دن اور پھرے اور واقعی احساس ہوا جو لوگوں کو کھلاتا ہے اللہ اس کو کھلاتا ہے جو لوگوں کو پلاتا ہے اللہ اس کو پلاتا ہے جو لوگوں کا درد بانٹتا ہے اللہ اس کا درد دور کردیتا ہے۔ بس کچھ اس طرح ہمارے ساتھ بھی معاملہ ہوا اور ہمارے دن رات پھر گئے اور اس کی بنیاد وہی سورۂ والشمس اور وہ چاند کا عمل بنی۔غربت‘ تنگدستی‘ پریشانیوں سے بھرے گھرانے کی کہانی:ایک تو اس جن نے اپنی والدہ کا واقعہ بتایا اور دوسرا واقعہ ایک اور بتایا کہنے لگے میں اجناس کے سلسلے میں ایک دفعہ اپنے گھر سے دور دراز کہیں جارہا تھا۔ میں اڑا جارہا تھا نیچے ایک گھر میں میں نے جھگڑا دیکھا۔بچے‘ ماں باپ‘ بہن‘ بھائی آپس میں بہت زیادہ الجھ رہے تھے۔ ان کے گھر میں شور شرابہ تھا‘ ان کے گھرمیں ایک کہرام تھا‘میں نامعلوم کیوں رک گیا؟ اور کیوں مجھے ایک احساس ہوا کہ ان کے گھر میںکوئی وجہ ہے سہی۔۔۔ جس کی وجہ سے ان کے گھر میں شور شرابہ ہے‘ میں اس شور شرابے کو سننے کیلئے ان کے گھر میں اتر گیا۔ میں انہیں نظر نہیں آرہا تھا لیکن میں انہیں دیکھ رہا تھا۔ بس ان کے گھر کےاندر لڑائی کی بنیادی وجہ جو میں نے دیکھی وہ یہی دیکھی کہ ان کے گھر کے اندر غربت‘ تنگدستی اور بدحالی اور پریشانی تھی۔ بیوی شوہر سے کہہ رہی تھی تو کماتا نہیں‘ شوہر کہہ رہا تھا کہ میں کماتا ہوں لیکن میری روزی روٹی لگتی نہیں۔ میاں بیوی بھی لڑرہے تھے‘ بچے بھی لڑرہے تھے اور ان کی لڑائی کی بنیادی وجہ وہی غربت اور تنگدستی تھی اور یہ غربت اور تنگدستی ایسی چیز ہے جو انسان کو کہاں سے کہاں پہنچادیتی ہے اور انسان کو کیا کچھ نہ کرنے پرمجبور کردیتی ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات انہی لوگوں کے تھے۔میں لینے والانہیں دینے والافقیر ہوں: میں نے ان کی جب یہ حالت دیکھی‘ دلی طور پر مجھے ترس آیا اور ان پر رحم آیا۔ میرے دل میں آیا کسی طرح ان کو کچھ عمل ایسے بتاؤں جس عمل سے ان کی زندگی کے دن رات سنور جائیں۔ مجھے تو اور کچھ نہ سوجھا میں نے ایک فقیر کا روپ دھار لیا اور فقیر کا روپ دھار کر ان کا دروازہ زور سے کھٹکھٹایا لڑائی کی وجہ سے اندر آواز تھوڑی جارہی تھی لیکن ان میں سے ایک بچہ باہر آیا اور اس نے آتے ہی کہا کہ بابا ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں!ہم آپ کو کیادے سکتے ہیں؟ میرے پاس کھانے پینے کا سامان تھا۔ میں نے کہا نہیں میں لینے والا فقیر نہیں ہوں‘ میںدینے والا فقیر ہوں۔ آپ کے گھر کچھ کھانے کی چیزیں دینے آیا ہوں۔۔۔ وہ حیران اور خوش ہوا اور اس نے جاکر اپنی والدہ کو یہ بات بتائی کہ باہر ایک فقیر آیا ہے اور وہ کھانے پینے کا سامان  لایا ہے۔فقیر تو مانگنے آتے ہیں یہ کیسا فقیر ہے۔۔۔؟:میں جب ان کے دروازے پر کھڑا تھا تو اندر سے عجیب و غریب آوازیں آنا شروع ہوگئیں اس میں حیرت بھی تھی کہ فقیر تو مانگنے آتے ہیں یہ کیسا فقیر ہے جودینے آیا ہوا ہے؟ ان کے والد باہر آئے میں نے انہیں اپنے طور پر کہہ دیا میں ایک درویش فقیر ہوں‘ مجھے آپ کے گھر کے حالات کی خبر ہوئی‘ میں کچھ کھانے پینے کی چیزیں آپ کے لیے لایا ہوں‘ آپ میرے لیے کھانے پینے کی چیزیں قبول کریں آپ کا مشکور ہوں گا۔ انہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ دراصل وہ خاندانی اور باعزت لوگ تھے جو کسی کی چیزوں پر پلنے والے نہیں بلکہ اپنے زور محنت پر کام کرنے والے تھے۔ میں نے ان کی منت کی کہا کہ آپ نے مانگا نہیں‘ اسے اللہ کی طرف سے نعمت سمجھیں اور اسے ضرور قبول کریں۔ میرے زیادہ اصرار پر انہوں نے وہ نعمتیں قبول کرلیں بلکہ میری چاہت تھی کہ مجھے اپنے گھر بلائیں تاکہ انہیں میں یہ عمل دوں۔ وہ خود اللہ سے مانگنے والے بنیں۔۔۔! پھر خود ہی کہنے لگے آپ آئیں آپ بھی ہمارے ساتھ کھائیں۔ محل نما حویلی مگر گھر میں کھانے کو کچھ نہیں:میں ان کے گھر چلا گیا گھر کی غربت‘ تنگدستی‘ بدحالی۔۔۔ لیکن عجیب بات یہ کہ گھر بہت پرانی طرز کا ایک محل یا حویلی نما بنا ہوا تھا۔ میں جب گھر پہنچا تو میں نے ان سے حالات پوچھے ؟ تو موصوف جو تقریباً سترسال کے قریب تھے کہنے لگے میرے پڑدادا بہت بڑے جاگیردار تھے اور بہت مالدار تھے۔ ان کے ہاں سے روزانہ دو تین سو غریب لوگ کھانا کھاتے تھے‘ ان کا دسترخوان بہت وسیع تھا‘ لنگر چلتا تھا‘ مال و دولت کی کمی نہیں تھی۔ گھوڑے‘ سرائے‘ کھیت کھلیان‘ ہر چیز ان کے پاس وافر مقدار میں موجود تھی۔ہم پر غربت تنگدستی کیوں آئی؟: پھر یہی چیز میرے دادا کے پاس رہی۔ لیکن دادا کے بعد میرے والد کو کچھ زوال آنا شروع ہوا اور اس زوال کی جو بنیادتھی وہ انسان بابا جی مجھے کہنے لگے حالانکہ انہیں احساس نہیں تھا کہ میں جن ہوں وہ بھی مجھے انسان سمجھ رہے تھے اس زوال کی بنیاد میرے مطابق کچھ چیزیں۔۔۔۔یہ بات کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔ کہنے لگے دراصل میرے والد کچھ ایسی صحبت میں چلے گئے جو میں نیک صحبت نہیں کہہ سکتا۔ اس صحبت کی وجہ سے میرے والد نے اپنی والدہ اپنے بہن بھائیوں کا اور اپنے رشتے داروں کا خیال کرنا چھوڑ دیا جبکہ میرے دادا پڑدادا جہاں غیروں کا خیال رکھتے تھے وہاں اپنوں کا خیال زیادہ رکھتے تھے حالانکہ اپنے باتیں بھی کرتے تھے۔۔۔ بس میں نے ان سے ایک بات سنی تھی جب اللہ کیلئے کرنا ہے تو پھر باتوں پر توجہ نہیں کرنی۔ بس یہ بات تھی جو ان کو اپنوں کی خدمت کرنے پرمجبور کرتی تھی۔ صلہ رحمی نہ
کرنے کا بھیانک انجام:میرے والد سے غلطی یہ ہوئی کہ میرے والد نے اپنوں کیلئے خدمت کرنا چھوڑ دی‘ بہن بھائیوں ‘رشتے داروں کو چھوڑ دیا بس کہنے لگے کہ میرے دادا اور میرے والد ایسی خانقاہ کیلئے ان لوگوں پر خرچ کرکے چلے گئے۔ انہوں نے نہ ماننا ہے‘ نہ کبھی مانیں گے جو کھا کر بھی ناشکری کرتے ہیں۔ بس شاید یہی وجہ تھی اب دوسرا میں نے اپنے دادا کو دیکھا‘ پڑدادا کو نہیں دیکھا۔ میں نے ان کے بارے میں یہی سنا ہے کہ وہ نماز‘ تسبیح‘ روزہ‘ اعمال‘ حلال و حرام‘ عشر اور زکوٰۃ کے بہت پابند تھے‘ میرے والد نے اس میں کوتاہی کرنا شروع کردی‘ بس پھر وہاں سے زوال شروع ہوا اور زوال یہ شروع ہوا کہ میرے والد کا جب آخری دن تھا تو ان کی آخری جائیداد بکی تھی تو ان کی تجہیز و تکفین ہوئی تھی۔ بس جو تھوڑا بہت تھا میں نے زندگی کے کچھ دن گزارے اب محل نما حویلی تو ہے اور بہت بڑی عمارت تو ہے لیکن سوائے غربت اور تنگدستی کے اور کچھ نہیں ہے۔
یا تو اللہ مجھے موت دیدے یا بیوی بچوں کو:بچوں نے اپنے باپ دادا اور پڑدادا کی کہانیاں سنیں‘ بچے کہتے ہمیں وہی نعمتیں ملیں۔۔۔ وہی غذائیں ملیں۔۔۔ وہی آسائشیں اور وہی آرام ملیں اب وہ میں کہاں سے لے آؤں۔ مشقت والا کام میں کر نہیں سکتا اور بے مشقت کام پر روزی نہیں ملتی بس ہمارے گھر میں روز یہی جھگڑا ہوتا ہے اور اس جھگڑے سے میں تنگ آگیا ہوں یا تو اللہ مجھے موت دے دے یا پھر ان بچوں کو یا اس بیوی کو موت دے دے یہ کہہ کر وہ صاحب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ ان کےساتھ بیٹھی ان کی بیوی اور بچے بہت زیادہ رونے لگے۔

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 907 reviews.