کہیں بھائی چھوڑ نہ جائے
ہم نے بہت ارمان سے اپنے بھائی کی شادی کی۔ بھابی غیروں میں سے ہیں‘ خوش مزاج ہیں۔ کم بولتی ہیں ہم لوگ بہت بولتے ہیں۔ والدہ کی زبان ذرا سخت ہے۔ جس طرح سے ہم سے بات کرتی ہیں ویسے ہی بھابی سے مخاطب ہوتی ہیں۔ مثلاً مجھے معلوم ہے تم لوگ کام کو ٹالتے رہو گے۔ کھانا بنانے کو تو کسی کا دل ہی نہیں چاہتا بس باتیں بنوالو۔ ہم لوگ تو ایسی باتیں سننے کی عادی ہیں مگر بھابی خاموش بلکہ ناراض ہوجاتی ہیں۔ وہ کئی مرتبہ میری باتوں سے بھی ناراض ہوئی ہیں اور اب ان کا رویہ ہمارے ساتھ پہلے جیسا نہیں رہا۔ شاید وہ ہمارے ساتھ رہنے سے گھبرا گئی ہیں۔ الگ رہنا چاہتی ہوں گی مگر ہمارے تو ایک ہی بھائی ہیں وہ ہمیں چھوڑ گئے تو ہم جی نہ سکیں گے۔ (فرحانہ‘ لاہور)
مشورہ: الفاظ زخم بھی ہیں اور مرہم بھی۔ اگر آپ لوگ بھابی سے محبت اور نرمی سے بات کریں تو وہ بھی آپ کے ساتھ اچھی طرح ہی رہیں گی۔ کسی بدگمانی کا شکار نہ ہوں۔ والدہ کو بھی چاہیے کہ بہو کے آنے کے بعد اپنے لہجے میں اچھی تبدیلیاں لائیں۔ بات خواہ وہی کہیں جو کہنا چاہتی ہیں لیکن لفظوں کو بدل دیں۔ مثلاً اگر کھانا پہلے تیار کرلیا جائے تو اچھا ہے۔ تم اچھا کام کرتی ہو ذرا جلدی کرلو وغیرہ۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ والدہ میں زیادہ تبدیلیاں لانی ممکن نہیں۔ وہ بڑی ہیں اگر کچھ کہہ بھی دیا تو درگزر کردیں لیکن آپ اپنی تربیت کرسکتی ہیں۔ آپ عمر کے اس دور میں ہیں کہ مزاج اور عادتوں کو بدلنا اتنا مشکل نہ ہوگا۔ کچھ بھی کہنے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ کسی کی طبیعت پر گراں نہ گزرے۔ کبھی کسی کی دل آزاری ہوجائے تو معذرت کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔
کیا میں پاگل عورت کیساتھ رہ رہا ہوں
میری بیوی گھر میں کسی کو برداشت نہیں کرتی‘ یہاں تک کہ مجھے بھی نہیں۔ یوں لگتا ہے مجبوری میں میرے ساتھ رہ رہی ہے بغیر کسی بات کے موڈ خراب ہوجاتا ہے‘ اس وقت مار پیٹ سے بھی گریز نہیں کرتی۔ گھر میں کسی کا آنا جانا پسند نہیں۔ رات کو جاگتی رہتی ہے۔ صبح بتاتی ہے کہ آج رات گھر میں کوئی ٹہل رہا تھا۔ مجھے رات بھی سونے نہیں دیا‘باتوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ کوئی نہیں ہوگا۔ یہاں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی نہیں رہتا۔ وہ کہتی کہ لوگ اس کے دشمن ہیں‘ اس کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور ایک روز تو اس نے مجھے ہی برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ غصے میں مجھ پر جھپٹ پڑی۔ میں نے اپنے ملنے والوں سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ کسی نے کچھ کروا دیا ہے ورنہ کوئی عورت مرد پر ہاتھ نہیں اٹھاتی۔ میں نے اسے ایک بابا کو دکھایا تو انہوں نے بتایا کہ اس پر جن کا سایہ ہے اور یہ ساری رات باتیں وہی کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے ایک چراغ جلایا اور میری بیوی کا سرپکڑ کر چہرہ اس پر جھکا دیا۔ اس سختی سے کہ وہ ہل بھی نہ سکی۔ میں اپنے دوست کے ساتھ خاموش بیٹھا رہا۔ جب میں واپس ہوئے تو راستے بھر وہ درد سے کراہتی رہی۔ گھر آکر دیکھا کہ چراغ سے اس کا چہرہ جھلس گیا ہے اور چہرے پر صبح تک آبلے پڑگئے۔ پھر تو مجھے بہت تکلیف ہوئی میں اسے فوراً ہی ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈر کی وجہ سے انہیں پوری بات نہیں بتائی۔ انہوں نے مریضہ کی کیفیت معلوم کی اور کہا کہ یہ ذہنی مرض کا شکار ہیں۔ اس وقت سے میں بیحد فکر مند ہوگیا کہ میں ایک پاگل عورت کے ساتھ رہ رہا ہوں۔ (ظفراقبال‘ ملتان)
مشورہ:ذہنی مریضوں کو پاگل کہنا زیادتی ہے کیونکہ اب تو شدید ذہنی امراض بھی قابل علاج ہیں۔ اسی طرح آپ کی بیوی کا مرض بھی قابل علاج ہے۔ اثر وغیرہ کے وہم میں نہ پڑیں۔ رویے سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ شدید ذہنی مرض کا شکار ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اکثر ذہنی امراض کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ امراض جنات‘ اوپری اثرات اور دیگر مافوق الفطرت عناصر کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس طرح کے فریب‘ اوہام اور وسوسوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کا دماغ ایسی چیزیں دیکھنے لگتا ہے جو دوسروں کو نظر نہیں آتیں اور ایسی آوازیں بھی سنتا ہے جو دوسرے نہیں سنتے۔ لوگ کسی شخص کو اس طرح کی حرکتیں کرتے دیکھتے ہیں جن کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی تو سمجھنے لگتے ہیں کہ اس پر اثر وغیرہ ہوگیا ہے۔ کبھی کوئی کہتا ہے کہ کسی نے کچھ کروادیا ہے۔ یہ سوچ آتے ہی لوگ باباؤں وغیرہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ پھر بیچارے مریض طرح طرح کی اذیتیں سہتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی طبیعت بگڑجاتی ہے۔ ذہنی مرض کی اذیت کے ساتھ جسمانی تکلیفیں بھی ہوجاتی ہیں جو صحت کو مزید نقصان پہنچاتی ہیں۔ آپ اپنی بیوی کا علاج کسی اچھے سائیکاٹرسٹ (ماہر امراض یا ماہر نفسیات) سے کرواسکتے ہیں تاکہ زندگی معمول کے مطابق گزاری جاسکے۔ چہرے کے زخموں کا بھی علاج کروائیے اور آئندہ ایسی سنگین غلطی نہ کریں۔
یہ کیسی محبت ہے؟
میں ایک ایسی لڑکی کو پسند کربیٹھا ہوں جو بہت غریب ہے حالانکہ اس کا خاندان اچھا ہے۔ سمجھدار‘ مہذب اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔ وہ میری بہن کی دوست بھی ہے مگر اب بہن ہی سب سے زیادہ اس کی مخالفت کررہی ہے۔ میرے گھر والے اس بات پر خاموش ہیں‘ شاید انہیں بھی صدمہ ہے کہ یہ سب کیا ہوا؟ لڑکی والوں نے جہیز دینے سے انکار کردیا ہے حالانکہ ابھی میرے گھر والے بھی ان کے گھر باقاعدہ رشتہ لے کر نہیں گئے ‘ لگتا ہے یہ شادی بالکل خاموشی اور سادگی سے ہوگی مگر میں بھی بہت خوفزدہ ہوں۔ پتہ نہیں یہ کیسی محبت ہے۔ (محمدساجد‘گجرات)
مشورہ: سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کی معاشی حالت کیسی ہے۔ کیا ایک لڑکی کی ذمہ داری قبول کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو خوفزدہ نہ ہوں۔ سادگی سے شادی کرنے میں کوئی برائی نہیں بلکہ یہ تواچھی بات ہے۔ مگر خاموشی کا مطلب واضح نہیں ہورہا۔ اگر اس سے مراد سب سے چھپ کر شادی کرنا ہے تو ایسا کبھی نہ کریں۔ اپنی بہن سے مخالفت کی وجہ معلوم کریں۔ گھر والوںکی رضامندی حاصل کئے بغیر ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ والدین اپنے بچوں کی بہترسے بہتر طریقے سے پرورش کرتے ہیں ان کا ہر طرح خیال رکھتے ہیں۔ تعلیم دلواتے ہیں۔ انہیں ان کے مستقبل کے فیصلوں میں شامل ہونے کا بھی پورا حق ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں