ڈاکٹر ایان بخاری‘ اسلام آباد
ایک دبلا پتلا فرد ضروری نہیں کہ صحت مند ہو اور فٹ ہونے کے لحاظ سے اس لفظ کے معنی پر پورا اترتا ہو۔ کوئی بھی فرد کریش ڈائٹنگ کے سہارے اپنا وزن گھٹا سکتا ہے۔ اس طریقے سے وہ نہ صرف اپنا وزن گنوا دے گا بلکہ اپنی انرجی اور اپنا اسٹیمنا بھی گھٹا دے گا۔
آپ کی عمر چاہے کچھ بھی ہو‘ ورزش ہر ایک کیلئے ضروری ہے۔ یہ ورزش چاہے ایروبکس ہو‘ جاگنگ ہو‘ چہل قدمی ہو‘ پیراکی ہو یا جسمانی سرگرمی کی کوئی اور شکل۔۔۔ مطالعے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے سےنہ صرف اضافی کیلوریز (حرارے) جل جاتے ہیں بلکہ اس سے میٹابولزم کی کارکردگی میں اضافے میں مدد ملتی ہے اور بھوک بھی گھٹ جاتی ہے۔
سائنس دان اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ورزش اندرونی غدودوں کی ریزش کے نظام کو عمدہ حالت میں رکھتی ہے جس کی بدولت آپ اس ہارمون کی رطوبت کی بنا پر جوان لگتے اور خود کو جوان محسوس کرتے ہیں جو کہ آپ کی جلد اور جسم کیلئے لازمی ہوتا ہے۔
ورزش ہر عضو کی کارکردگی کو بھی بڑھاتی ہے اور اس سے عضو کی قوت اور اسٹیمنا کی تعمیر ہوتی ہے۔ دوران خون بڑھنے کی وجہ سے امیون سسٹم (بیماریوں کے خلاف جسم کا مدافعتی نظام) کو بھی قوت عطا ہوتی ہے جس سے جسم کے تمام نظاموں کو مزید آکسیجن اور غذائیت کی وصول یابی میں مزید مدد ملتی ہے۔
عام طور پر یہ یقین کیا جاتا ہے کہ ’’جب تک آپ کا جسم درد کے حلقے میں داخل نہیں ہوگا کسی قسم کی بھی ورزش فضول ہے۔‘‘ یہ مقولہ غلط ثابت ہوچکا ہے۔
خود کو فٹ رکھنے کے جوش میں جو لوگ جلدبازی سے کام لیتے ہیں وہ عام طور پر اپنے جوش و خروش میں ضرورت سے زیادہ ورزش کرنے لگتے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک صحت مند اور تندرست جسم کے حصول کے لیے کوئی شارٹ کٹ (مختصرراستہ) نہیں ہے۔
آپ بھی فٹنس حاصل کرسکتے ہیں
اگر آپ عمر کی 30ویں سالگرہ منا چکے ہیں اور کبھی کسی بھی جسمانی ورزش سے رابطہ نہیں رکھا تو پھر فٹنس کے چیلنج کو قبول کرنے سے پیشتر اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ لیں۔
صرف کسی کتاب کے سہارے ورزش کرنے کے بجائے کسی تربیت یافتہ انسٹرکٹر کے پاس جائیں۔ اس کی منطق یہ ہے کہ کسی ورزش کو غلط انداز سے کرنے کے مقابلے میں بہتر یہی ہے کہ کسی قسم کی ورزش ہی نہ کی جائے۔ اس لیے کہ غلط ورزش آپ کو فائدہ پہنچانے کی بجائے الٹا نقصان پہنچائے گی اور وہ بھی زیادہ نقصان۔۔۔۔ اگر آپ کوئی ورزش درست انداز سے نہیں کررہے ہوں گے تو پھر انسٹرکٹر آپ کی تصحیح کردے گا لیکن کتاب آپ کی تصحیح نہیں کرسکے گی۔
آپ چاہیں تو کسی جمنازیم کو جوائن کرسکتے ہیں یا چند ماہ کیلئےیوگا ٹیچر سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ ایک بار جب آپ ایک آرام دہ سطح پر پہنچ جائیں تو پھر اپنے طور پر ورزش کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔
فٹ اور دبلے پتلے ہونے میں فرق:فٹ ہونے اور دبلے پتلے ہونے کے درمیان ایک واضح فرق ہے ایک دبلا پتلا فرد ضروری نہیں کہ صحت مند ہو اور فٹ ہونے کے لحاظ سے اس لفظ کے معنی پر پورا اترتا ہو۔ کوئی بھی فرد کریش ڈائٹنگ کے سہارے اپنا وزن گھٹا سکتا ہے۔ اس طریقے سے وہ نہ صرف اپنا وزن گنوا دے گا بلکہ اپنی انرجی اور اپنا اسٹیمنا بھی گھٹا دے گا۔
آپ جب بھی معمول کی کسی ورزش کا آغاز کریں گے تو ابتدائی دو ایک روز تک آپ کے جسم میں درد ہوگا۔ اس درد کی بنا پر بددل یا مایوس نہ ہوں بلکہ ورزش کا سلسلہ جاری رکھیں۔ ایک بار جب آپ کا جسم اس ورزش کا عادی ہوجائے گا تو یہ دکھن/ درد کی کیفیت اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔
کوئی بھی ورزش اس حد تک نہ کریں کہ تکلیف ہونے لگے تکلیف اس وقت شروع ہوتی ہے جب مسلز پر اس کی گنجائش سے زیادہ کھنچاؤ ڈالا جاتا ہے۔ اس لیے ایک حد سے زیادہ کھنچاؤ سے آپ کی مسلز ٹوٹ پھوٹ یا پھٹ سکتی ہے۔
درد اور دکھن کے درمیان فرق کو شناخت کریں۔ ورزش کرنے کے دوران اپنے جسم کا باریک بینی سے جائزہ لیتے رہیں اور اس وقت ورزش روک دیں جب تکلیف محسوس ہونے لگے جسم کوجس حد تک کھینچ سکتے ہیں کھنچیں لیکن اطمینان کے ساتھ۔کسی بھی خاص ورزش کا آغاز آٹھ بار کی گنتی سے کریں اور پھر روزانہ گنتی کو بڑھاتے جائیں۔ ضرورت سے زیادہ ورزش بے مقصد اورفضول ہی رہے گی۔اگر کوئی بھی ورزش غیرضروری بے آرامی‘ تکلیف یا درد کا سبب بن جائے تو ورزش کوفوراً روک دیں اور جب کسی بھی علاج سے درد ختم ہوجائے تو ورزش کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیں ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ تکلیف سوجن یا جوڑوں مسلز یا ریشے دار نسیجوں کی سوزش / ورم کی بناء پر تو نہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی طبیعت خراب ہے اور آپ اپنے آپ کو بہتر محسوس نہیں کررہے تو تب بھی ورزش نہ کریں۔
کسی بھی ورزش کو بے کار نہ سمجھیں:کبھی بھی کسی ورزش کو بے کار سمجھ کر نہ کریں۔ اس سے لطف اندوز ہوں اور اس سے رونما ہونے والی سکون اور طبیعت کی بشاشت کی لہروں کا تجربہ کریں۔ اگر آپ کو یہ اچھا نہ لگے تو اس کا مطلب ہوگا کہ یا تو آپ اس ورزش کو صحیح طور پر نہیں کررہے یا پھر آپ کا دھیان کسی اور طرف ہے۔
ورزش کرتے وقت ڈھیلے ڈھالے لباس اور آرام دہ جوتے پہنیں۔اگر ممکن ہو تو ورزش کھلے میں کریں جہاں ڈھیروں تازہ ہوا ہوتی ہے۔ اس لیے کہ دل کو مختلف اعضاء اضافی خون اور آکسیجن کی سپلائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورزش دن کے کسی بھی ایسے وقت میں کریں جو آپ کیلئے سہولت میں آسان ہو۔ لیکن ورزش سے کم از کم دو گھنٹہ قبل تک کوئی بھی ٹھوس چیز نہیں کھانی چاہیے۔
وارم اپ اینڈ کول ڈاؤن:نصیحت یہی ہے کہ صبح سویرے اٹھنے کے ساتھ ہی فوری طور پر کوئی بھی ورزش شروع نہ کریں۔ پہلے کچھ دیر ٹہلیں اور چہل قدمی کریں تاکہ آپ کے جسم اور مسلز کو لچکدار بننے کیلئے کچھ وقت مل جائے۔ اس لیے کہ جب آپ بیدار ہوتے ہیں تو آپ کے مسلز خاصے اکڑے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کو اچانک حرکت دینے یا جھٹکا دینے سے آپ انہیں زخمی بھی کرسکتے ہیں۔
زیادہ حفاظت طلب ورزشیں شروع کرنے سے پہلے وارم اپ کیلئے ہلکی قسم کی چند ورزشیں کرلیا کریں۔ جیسے کہ جاگنگ سے قبل آپ ٹہلتے ہوئے ہاتھ اور پیروں کو کچھ دیر کیلئے حرکت دیں تاکہ ان کی اکڑن ختم ہوجائے اور لچک پیدا ہوجائے۔ اسی طریقے سے ورزش کے بعد جسم کو ٹھنڈا کرنا اتنا ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا کے ورزش سے قبل وارم اپ کرنا۔
ورزش کرنے سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ اسی لیے ورزش کا کوئی بھی مرحلہ مکمل کرنے کے فوراً بعد نہ تو بیٹھنا چاہیے اور نہ ہی لیٹنا چاہیے بلکہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی گھریلو کام میں مصروف کرلینا چاہیے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں