ہر مرتبہ ایسی کوئی صورت حال پیش آنے پر دونوں کو خاصی ذہنی کوفت اٹھانا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر خاندانی مصروفیات بھی وقت مانگتی ہیں اور جب کبھی بھی ایسا ہوتا ہے‘ دونوں اپنے اپنے کام کا حرج ہونے کی شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پروفیسر ثمینہ کھر‘ کراچی
وہ خاتون ایک سکول میں ٹیچر ہیں جبکہ ان کے شوہر وکالت کرتے ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں جن کی عمریں آٹھ سے چھ سال ہیں۔ دونوں بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اگر حالات ہموار انداز میں چلتے رہیں تو ان کی روٹین کچھ اس طرح ہوتی ہے۔
محترمہ اپنے سکول سے فارغ ہوکر گھر آتی ہیں اور دوپہر کا کھانا تیار کرتی ہیں۔ صاحب بچوں کو ان کے سکول سے لے کر گھر چھوڑ جاتے ہیں‘ محترمہ انہیں کھانا کھلاتی ہیں‘ اس کے بعد انہیں ٹیوشن کیلئے چھوڑ کر آتی ہیں۔ واپسی پر وہ تھوڑی دیر گھر کے کام وغیرہ کرتی ہیں اور پانچ بجے کے بعد رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ کھانا پکا کر وہ بچوں کو ٹیوشن سے واپس لاتی ہیں۔ گھر واپسی پر کچھ دیر صاحب کے لوٹنے کا انتظار کیا جاتا ہے اور اگر انہیں واپسی میں دیر ہورہی ہو تو بچوں کو کھانا کھلا کر سلا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ شوہر کی واپسی تک جاگتی رہتی ہے اور ان کے واپس آکر کھانا کھانے کے وقت تک عموماً دونوں اتنے تھک چکے ہوتے ہیں کہ بستر پر لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں اتر جاتے ہیں۔ آپس میں کوئی بات کرنے کا موقع انہیں بہت کم ملتا ہے۔اگرچہ یہ روٹین خاصی حد تک قابل قبول ہے لیکن بدقسمتی سے حالات ہمیشہ ہموار انداز میں نہیں چلتے۔ اکثر کسی بچے کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے یامحترمہ کو سکول سے نکلتے ہوئے دیر ہوجاتی ہے اور وقت پر کھانا تیار نہیں کرپاتیں یا صاحب راستے میں ٹریفک میں پھنس جاتے ہیں اور بچوں کے سکول تک پہنچنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ ہر مرتبہ ایسی کوئی صورت حال پیش آنے پر دونوں کو خاصی ذہنی کوفت اٹھانا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر خاندانی مصروفیات بھی وقت مانگتی ہیں اور جب کبھی بھی ایسا ہوتا ہے‘ دونوں اپنے اپنے کام کاحرج ہونے کی شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
صاحب کا کہنا ہے ’’ہم اپنی اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے دباؤ کو اپنے ازدواجی تعلق پر اثرانداز ہونےکی اجازت نہیں دیتے لیکن اپنے پیشے میں اچھی کارکردگی دکھانا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شوہر یا بیوی اور والد یا والدہ کے فرائض پوری ذمہ داری سے انجام دینا بہت مشکل کام ہے۔ بعض اوقات یہ دباؤ ہم پر غالب آجاتا ہے‘ ہم میں سے کوئی نہ کوئی جھنجھلا اٹھتا ہے اور ہمارے تعلقات کشیدہ ہونے لگتے ہیں۔
یہ جوڑا جن ازدواجی مسائل کا شکار ہے‘ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کسی نے ان کا تذکرہ بھی نہ سنا تھا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے کئی گھرانوں کی خواتین کو مجبور کردیا ہے کہ وہ بھی مالی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ خانگی ذمہ داریاں اپنی جگہ موجود رہتی ہیں اور انہیں پورا کرنے میں بھی دونوں کو برابر کا حصہ لینا پڑتا ہے۔ نہ وہ اپنے کام کو پورا وقت اور یکسوئی دے پاتے ہیں اور نہ اپنے گھر کو۔۔۔۔ دونوں پر دباؤ بڑھتا رہتا ہے اور اس دباؤ کو برداشت کرنے کیلئے جس صبرو تحمل کی ضرورت ہوتی ہے‘ ہم میں سے اکثر لوگ اس سے محروم رہتے ہیں۔ایسی صورت حال سے متاثر ہونے والی سب سے پہلی چیز ازدواجی تعلقات کا رومانی عنصر ہوتا ہے۔ دونوں میاں بیوی کے لیے قربت کے لمحات حاصل کرنے کے مواقع کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر دوسری علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔ چڑچڑاہٹ‘ بے صبری‘ نیند کے مسائل‘ خوش مزاجی میں کمی‘ بہت سے جوڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اعصاب کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کے لیے عارضی سہارے تلاش کرنے لگتے ہیں اور سگریٹ یا سکون آور ادویات کے عادی ہوجاتے ہیں۔
گھریلو اور پیشہ ورانہ مصروفیات کا ازدواجی تعلقات میں رخنہ انداز ہونا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے کم و بیش ہر جوڑے کو واسطہ پڑتا ہے۔ بات اس وقت بھی گھمبیر ہوجاتی ہے جب صرف میاں ہی نہیں بیوی بھی کسی نہ کسی اعتبار سے بیرون خانہ سرگرمیوں سے وابستہ ہو اور دونوں اپنی اپنی جگہ اتنے مصروف ہوں کہ گھریلو سرگرمیوں کیلئے خاطرخواہ وقت نہ نکال پاتے ہوں۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کو عموماً ایسے مسائل پیش نہیں آتے کیونکہ اس طبقے میں اب بھی کمانا مرد کا اور گھر چلانا عورت کا کام سمجھا جاتا ہے لیکن بعض گھر ایسے بھی ہیں جن کے خصوصی نوعیت کے حالات اور روزبروز بڑھتی ہوئی مہنگائی میاں اور بیوی سے تقاضا کرتے ہیں کہ دونوں مل کرکمانے اور گھر چلانے والے بنیں۔ جہاں تک ہماری فہم تخمینہ کرتی ہے‘ ایسے گھروں کی تعداد میں آہستہ آہستہ لیکن بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس اعتبار سے ازدواجی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور چونکہ عمومی طور پر ایسے مسائل سے نپٹنے کیلئے کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کیا جاتا اس لیے ان سے پیدا ہونے والے نتائج زیادہ سنگین اور زیادہ دوررس ہوتے ہیں۔اس دباؤ کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟ اپنے ازدواجی تعلقات کو اس کی تباہ کاریوں سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ ذیل میں اس حوالے سے چند اہم اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر عمل کرکے اس صورتحال میں گرفتار جوڑے بہت حد تک اپنی ذہنی و جسمانی دباؤ سے نجات حاصل کرسکیں گے۔
فہرست بنائیے: ہم میں سے اکثر لوگوں کاخیال ہوتا ہے کہ اپنے جیون ساتھی کو چڑانے یا پریشان کرنیوالی باتوں اور عوامل کو وہ اچھی طرح جانتے ہیں لیکن عموماً ان کا خیال غلط ہوتا ہے۔ اس خیال کی صحت جانچنے کیلئے کسی روز وقت نکال کر ایسی باتوں کی ایک فہرست بنائیے جو آپ کے مزاج پر گراں گزرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک فہرست آپ کا جیون ساتھی بھی تیار کرے۔ بعد میں ان دونوں فہرستوں کا موازنہ کیجئے۔ شاید یہ دیکھ کر آپ کو حیرت ہوکہ اپنے جیون ساتھی کے متعلق کتنی باتیں ایسی ہیں جن سے آپ آج تک لاعلم ہیں۔
اپنے بجٹ کا ازسر نو جائزہ لیجئے: بجٹ کو مرتب کرتے ہوئے سب سے پہلا اور بنیادی سوال یہی ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے کم از کم کتنی رقم کی ضرورت ہے؟ اکثر جوڑے اپنے گھر کا بجٹ بناتے ہوئے اس اہم سوال کو نظرانداز کردیتے ہیں‘ اپنی ضروریات اور خواہشات کو الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتے اور نتیجے میں اپنا گھریلو بجٹ غیرمتوازن کربیٹھتے ہیں۔ جب ہم اپنی ضروریات اور خواہشات میں فرق کرنا سیکھ لیتے ہیں تو ہماری زندگی بہت سادہ اور آسان ہوجاتی ہے۔بہرحال‘ اپنی ضروریات کا حقیقی اور حتمی تعین کرلینے کے بعد ہمیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اپنا گھر چلانے کیلئے ہمیں کم از کم کتنی رقم کی ضرورت ہے۔ اپنے اخراجات کا تخمینہ لگالینے کے بعد ممکن ہے ‘ آپ پر یہ حقیقت منکشف ہو کہ اگر آپ کی بیوی جاب نہ کرے توبھی آپ کے گھر کے معاملات اسی خوش اسلوبی سے چلتے رہیں گے۔ ممکن ہے کہ آپ نئی گاڑی نہ خرید سکیں یا اپنےگھر کو اعلیٰ فرنیچر سے مزین نہ کرسکیں لیکن آمدنی میں اس کمی کو قبول کرلینے سے آپ کی گھریلو زندگی پر دباؤ میں جو کمی آئے گی اور اس کے نتیجے میں ازدواجی تعلقات پر جو صحتمندانہ اثر مرتب ہوگا‘ یقین کیجئے وہ گاڑیوں اور فرنیچر سے کہیں زیادہ قیمتی اور مفید ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں