حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ ممبر پر تشریف فرما تھے اور لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اتنے میں حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نکلے ان کی گردن میں کپڑے کی ایک دھجی تھی جسے یہ کھینچ رہے تھے اس میں پیر پھنسا اور یہ منہ کے بل گرگئے‘ حضورﷺ ان کے اٹھانے کے ارادہ سے ممبر سے اترے جب حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ دیکھا تو انہوںنے بچہ (حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) کو اٹھایا اور آپ ﷺ کے پاس لائے۔ آپ ﷺ نے انہیں پکڑا اور گود میں اٹھالیا اور فرمایا اللہ شیطان کو قتل کرے بے شک اولاد فتنہ ہے‘ خدا کی قسم! مجھے یہ بھی نہیں پتہ چلا کہ ممبر سے (کب) اترا جب تک کہ انہیں میرے پاس نہ لایا گیا۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آپ ﷺ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ سجدہ میں تھے۔ آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے پکڑا آپ ﷺ نے قیام کیا پھر رکوع کیا اور یہ پھر آپ ﷺ کی پشت پر سوار ہوگئے۔ جب آپ ﷺ کھڑے ہوئے انہیں آہستہ سے نیچے اتار دیا پھر یہ چلے گئے۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا رسول اللہ ﷺ سجدہ میں تھے اتنے میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آئے اور آپ ﷺ کی پشت پر سوار ہوگئے۔ آپ ﷺ نے انہیں اتارا نہیں یہاں تک کہ یہ خود اترے اور آپﷺ نے اپنے دونوں پیروں کے درمیان زیادہ فاصلہ کردیتے تھے تاکہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس جانب سے اس جانب نکل جائیں۔
بہی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے دریافت کیا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہٗ مجھے بتائیے کہ حضور ﷺ سے زیادہ مشابہ کون تھا؟ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضور ﷺ کے تمام لوگوں میں سے سب میں زیادہ مشابہ اور سب سے زیادہ آپ ﷺ کو محبوب تھے یہ آتے اور آپ ﷺ سجدہ میں ہوتے‘ یہ حضور ﷺ کی پشت مبارک پر سور ہوجاتے آپ ﷺ اس وقت تک نہ کھڑے ہوتے جب تک یہ ہٹ نہ جاتے۔ یہ آتے اور آپ ﷺ کے پیٹ کے نیچے داخل ہوجاتے تو آپ ﷺ ان کیلئے اپنے دونوں پیروں میں کشادگی کردیتے تاکہ وہ نکل جائیں۔
حضور نبی کریم ﷺ کی شہزادوں سے محبت:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں رسول کریم ﷺ نماز میں ہوتے جب آپ ﷺ سجدہ میں جاتے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کود کر آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے جب حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ارادہ کرتے کہ ان دونوں کو روکیں تو آپ ﷺ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف اشارہ فرماتے کہ انہیں چھوڑ دو اور کچھ نہ کہو اور جب نماز سے فارغ ہوتے ان دونوں کو اپنی گود میں بٹھا لیتے اور فرماتے جو مجھے دوست رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ان دونوں کو دوست رکھے۔ ابویعلیٰ اور بزار کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے اور ان دونوں شہزادوں کو اپنے سے چمٹا لیتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ سجدہ میں ہوتے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما آتے اور آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے تو آپ ﷺ سجدہ کو طویل کردیتے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ! آپ ﷺ نے سجدے بہت طویل کردئیے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر میرے دونوں بچے سوار ہوگئے تھے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ سجدہ میں جلدی کروں۔حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں جناب رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور حضرت امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آپ ﷺ کے کندھے مبارک پر تھیں آپ ﷺ نے نماز پڑھی جب آپ ﷺ رکوع میں جاتے تو انہیں علیحدہ کردیتے اور جب رکوع سے اٹھتے انہیں پھر اٹھالیتے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما تھے ایک‘ ایک کاندھے پر تھے اور دوسرے ایک کاندھے پر‘ کبھی آپﷺ ان کا بوسہ لے لیتے اور کبھی آپ ﷺ ان کا‘ یہاں تک کہ آپ ﷺ ہمارے پاس پہنچے… ایک آدمی نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ آپ ان دونوں بچوں سے بہت محبت رکھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اور اس نے مجھ سے بغض رکھا۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی زبان یا ہونٹ کو چوس رہے تھے اور بے شک ہرگز نہ عذاب دی جائے گی وہ زبان یا وہ ہونٹ جن کو حضور ﷺ نے چوسا ہے۔حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بوسہ لیا تواقرع بن حابس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے عرض کیا میرے دس لڑکے ہوئے میں نے ان میں سے کسی ایک کا بوسہ نہیں لیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں تین کھجوریں دیں اس عورت نے ان دونوں کو ان میں سے ایک ایک کھجور دی اور ایک کھجور خودلی اور اسے اپنے منہ میں رکھنا چاہتی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں بچیوں نے ماں کی طرف دیکھا تو اس نے اس کھجور کے بھی دو ٹکڑے کیے اور دونوں کو اس میں سے آدھا آدھا دیا اور چلی گئی۔ اتنے میں حضور نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ ﷺ سے اس عورت کے اس فعل کو بیان کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک وہ عورت اس فعل سے جنت میں داخل ہوگئی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور اس کے ساتھ اس کا بچہ تھا اس آدمی نے بچہ کو اپنے سے چمٹانا شروع کردیا آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو اس پر رحم کرتا ہے؟ اس نے عرض کیا جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تیرے اوپر اس سے زیادہ مہربان ہے کہ تو اپنے بچہ پر مہربانی کرتا ہے اور وہ اللہ پاک تمام رحم کرنے والوں میں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور اکرمﷺ کے پاس تھا اتنے میں اس کا بچہ آیا اس نے اس کا بوسہ لیا اور اپنی ران پر بٹھا لیا اور اس کے بعد اس کی بیٹی آئی تو اسے اپنے سامنے بٹھا لیا تو آپﷺ نے دونوں بچوں کے درمیان برابری نہ کرنے پر ان کوتنبیہ کی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں