بندہ کا آبائی گاؤں شیخوپورہ میں ہے‘ آج کل ملازمت کے سلسلہ میں سکھر شہر میں مقیم ہوں۔بچپن میں ہی(1971ء) ایک ہی سال میں والدین یکے بعد دیگرے وفات پاگئے‘ ہم 4 بہن بھائی تھے‘ پڑوس میں تایا کا گھر تھا جس سے والدین کی زندگی میں بھی تعلقات کشیدہ تھے‘ والد صاحب نے اپنی آخری بیماری میں بتایا تھا کہ میرے بچوں کا تایا میرے مرنے کے بعد ان کو بڑا تنگ کرے گا اور مکان چھیننے کی کوشش کرے گا۔ والدہ نے بھی ہمیں وصیت کی کہ تایا اور تائی سے بچ کر رہنا‘ لیکن ہم بچ نہ سکے۔ جوان ہونے پر تایا کے بیٹے اور بیٹی سے میری اور میری بہن کی ادلے بدلے کی شادی ہوئی چند ماہ بعد ہی عدالت میں فیملی مقدمات شروع ہوگئے۔ تایا نے ہمارے مکان کا دعویٰ کردیا‘ طلاقیں ہوئیں‘ مکان اور جائیداد کے تین چار مقدمات بن گئے۔ تایا نے اپنی دوسری بیٹی کی شادی غیروں میں کی‘ تایا کے اس داماد کے پاس جنات تھے‘ میری دوسری شادی 1981ء میں ہوئی۔ شادی کے دن بڑا لمبا جھگڑا ہوا۔ میں نے اپنی بہن کا بھی دوبارہ نکاح کیا لیکن بھائی کی شادی نہ ہوسکی۔ 1990ء میں جب میں اکیلا مقدمات سے تھک چکا تھا۔ لوگوں کی وساطت سے تایا کو کہا کہ مکان بھی لے لیں‘ میری جان چھوڑ دیں‘ تایا کے داماد نے رات کو سب کو اکٹھا کیا اور جنات بھی بلائے‘ ان کے آگے ہمارا مسئلہ پیش کیا انہوں نے راضی نامے کی منظوری دی‘ تایا مکان دینا نہیں چاہتا تھا میں نے معمولی قیمت کے عوض مکان ان کو دے کر گاؤں کو خیرباد کہہ دیا۔
تائی مجھ سے بہت حسد کرتی تھی‘ ان لوگوں نے جادو جنات سے ہمارے گھر پریشانیاں بنائیں‘ ہم میاں بیوی میں کئی بار ناراضگی اور جدائی ڈلوائی‘ کئی بار پیسے غائب ہوئے‘ تین بار موٹرسائیکل چوری ہوئی‘ بیٹے پر چوری کا جھوٹا مقدمہ بنا‘ پچھلے سال ایک لڑکی کا اغواکا مقدمہ بن گیا‘ اصلی ملزم کا دوست قرار دے کر میرے بیٹے کو ملوث کیا گیا حالانکہ لڑکی نے کسی تیسری جگہ نکاح کیا ہوا تھا اس مقدمے پر میرا ایک لاکھ روپیہ ضائع ہوا اور اذیت الگ کاٹی۔
اکتوبر 2010ء میں ایک ایسا ناقابل برداشت اور ناقابل ذکر واقعہ ہوا کہ اس نے کمرتوڑ دی‘ سارے گھر کا نظام درہم برہم ہوگیا‘ پھر میری بیوی کا آپریشن ہوا تو ڈاکٹرز نے رسولی کے ٹیسٹ کے بعد کینسر بتایا۔ مارچ 2011ء میں میری زندگی کی پریشانی کی انتہا تھی‘ ان دنوں تایا کے بیٹے کا دفتر میں فون آیا‘ میں پریشانی کی وجہ سے دفتر نہ جاسکا۔ دوسرے دن لوگوں نے بتایا کہ گاؤں سے فون تھا‘ پوچھ رہا تھا کہتم خیرت سے تو ہو نا!تمہاراکا فون نہیں آیا‘ میں نے سمجھا کہ وہ میرا خونی رشتہ دار ہے‘ اس کو میری پریشانی کا کوئی خواب آیا ہوگا‘ حالانکہ اس نے ان دنوں جادو جنات کا فیصلہ کن حملہ کیا تھا۔ جادو کی شدت اتنی تھی کہ اس سے پہلے بھی دو عاملوں نے نام لے کر بتایا کہ ان کے جنات سارے مسئلے بنارہے ہیں لیکن جادو کی وجہ سے ان کی طرف دماغ نہیں جاتا تھا بلکہ دل ان کیلئے اداس رہتا تھا۔مئی 2011ء کے مہینے میں جنات ہمارے گھر میں تقریباً مکمل طور پر قبضہ کرچکے تھے‘ پراسرار آوازیں‘ عجیب حرکات‘ پتھر پھینکنے کی آوازیں وغیرہ میں نے تایا سے 1988ء میں راضی نامے کے بعد ان کے بارے میں کبھی برا نہیں سوچا‘ ان کی چارشادیوں پر گیا‘ فوتگیوں پر بھی گیا‘ بڑے جادوگر کا بیٹا نہر میں ڈوب گیا‘ میں وہاں جاکر روتا رہا‘ بڑا جادوگر میرے تایا کا داماد ہے‘ اس نے یہ علم اپنے سالے (میرے تایازاد) کو سکھایا۔ دونوں نماز نہیں پڑھتے۔ اللہ مہربان نے مجھ پر مہربانی کی اور مجھے حضرت حکیم صاحب سے ملایا۔ انہوں نے وظائف و اعمال بتائے‘ جادوگروں کا راز فاش ہوگیا‘ پچیس سال سے جادو جنات سے حملہ کرنے والے پکڑے گئے‘ علاج جاری ہے‘ حضرت صاحب نے فرمایا ہے جتنی بیماری پرانی ہوتی ہے اتنا ہی علاج لمبا درکار ہے۔میرے تایا زاد نے مجھے جولائی میں فون کیا میں نے اس سے صرف ایک بات کہی ’’انسان جتنی محنت دوزخ کیلئے کرتا ہے اس سے کم محنت سے اس کو جنت مل سکتی ہے۔‘‘ اس کو پتہ چل گیا کہ راز فاش ہوگیا ہے شاید اسے جنات نے بھی بتایا ہو‘ پھر اس نے فون بیوی کو دیدیا میں نے اس کی بیوی سے کہا اللہ کی طاقت جنات سے زیادہ ہے۔ قارئین عبقری سے بھی گزارش ہے کہ میرے لیے دعا کریں‘ ساری زندگی جادو جنات کے حملے برداشت کرنے میں گزرگئی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں