بے لوث خدمت پر مقبول دعائیں:میرےد وستو! بے لوث خدمت پر اور محض اللہ کی رضا کیلئے کی گئی کوششوں پر وہ ملتا ہے جو دنیاوی مال و دولت میں نہیںہوتا‘آج ایک بابا جی آئے اور مجھے دعادینے لگے۔ میں نے سارے کام چھوڑ کے ان کی دعا پر آمین کہنا شروع کردیا۔ کہنے لگے کہ آپ نے آیت کریمہ والے نفل بتائے تھے جس کے ہر سجدے میں چالیس دفعہ آیت کریمہ پڑھنی ہوتی ہے۔ ان کے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر جھولی اٹھالی اور کہنے لگے تو نے مجھے سکون دیا‘اﷲ تجھے سکون دے!، جو یہاں آئے اس کو سکون ملے ! یقین جانئے میں نے سارے کام چھوڑے اور ان کی دعا پر آمین کہنے لگ گیا اور اندر ایک آواز آئی کہ اگر میں اس سے لاکھ، پچاس ہزار ، بیس ہزار چالیس ہزار، سو، دوسو لے لیتا تواس کے من سے وہ دُعائیں نہ نکلتیں جواب نکل رہی ہیں۔ میں ان کو دیکھ رہا تھا اور آمین کہے جارہا تھااور سو چ رہا تھاکہ اس کے اضطراب و بے چینی کے ساتھ جو دُعائیں نکل رہی ہیں وہ اﷲ جل شانہٗ کے ہاں’’ انشاء اﷲ‘‘ قبول ہورہی ہیں اور یہ دُعائیں کیوں ملیں؟ قرآن کے ساتھ نسبت کی وجہ سے ، نماز اور نفل کے ساتھ نسبت کی وجہ سے یہ دُعائیں ملیں قرآن و حدیث کی نسبت میں نے انہیں دیدی۔
خدمت سے دعائیں لیں : پھر اپنے حضرت خواجہ سید محمدعبداللہ ہجویری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی بات یاد آئی فرمایا اپنے پیر، استاد، مرشد کی اتنی خدمت کرو، اتنی خدمت کرو، اتنی خدمت کرو کہ اُسے دُعائوں کے لئے کہو مت، اندر سے دُعائیں نکلیں۔
فرمانے لگے :کبھی خدمت کر کے من میں بھی آجائے ناں کہ میں اتناکام کررہا ہوں‘ اپنے من کو پاک کرلینا کہ یہ ناپاک ہوگیا ہے۔ من کو وضو کرائو‘ من کو پاک کرو اور سن لو ایک ظاہری وضو ہوتا ہے، ایک اندر کا وضو ہوتا ہے اور اندر کا وضو من کا پاک ہونا ہے اور باہر کا وضو جسم کا پاک ہونا ہے۔
پایا ہی لوٹانے کے لیے ہے:میں نے کسی اﷲ والے کی غلامی کی کوشش کی لیکن کرنہ سکا۔ انہوں نے مجھے کچھ تھوڑی سی نسبتیں عطا فرمائیں۔ بہت دیں میںلے نہ سکا۔ اس لیے تھوڑی سی کہہ رہا ہوں ۔ میری کم مائیگی، میری نا اہلی تھی، ان نسبتوں کو میں نے ان بابا جی کو دیدیا۔ میں نے کہا بابا جی !یہ عمل کرو۔ کہنے لگے میں نے نفل پڑھے۔ میرا یہ کام بنا، میرا یہ کام بنا، پھر بار بار کہے جو مجھے سکون ملا، مجھے یہ ملا، مجھے یہ ملا، میں نے نفل پڑھے جس میں ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘کے بعد ہر سجدے میں آیت کریمہ پڑھی اور سلام پھیر کے اﷲ سے دعا کی۔
انتہائی آسان نفل کسی بھی وقت پڑھ سکتے ہیں، کسی بھی پل پڑھ سکتے ہیں‘ کسی بھی لمحے پڑھ سکتے ہیں، ماسوائے مکروہ اوقات کے۔ آج یہ آپ سب کو اجازت بھی دے رہا ہوں۔ دو نفل حاجت کی نیت سے کسی بھی لمحے پڑھیں جس طرح عموماً نفل پڑھتے ہیں جب سجدے میں جائیں تو ’’سبحان ربی الاعلی‘‘ کے بعد چالیس دفعہ آیت کریمہ پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد دعا کرلیں۔
نسبت اٹکائیں قبل اس کے کہ بھٹک جائیں:اپنی نسبت کہیں لگائے رکھیں! ان نسبتوں کی وجہ سے دنیا بھی بنے گی، آخرت بھی بنے گی۔ اپنے آپ کو کہیں اٹکائے رکھیں!اپنے آپ کو کہیں لگائے رکھیں۔ اگراٹکائیںگے نہیں تو پھر بھٹک جائیں گےیا اٹک جائیں یا بھٹک جائیں گے ۔شیطان ہر پل ہماری تاک میں ہے اور اس وقت تک ہمیں نہیں چھوڑے گا جب تک کہ سانس نہ نکل جائے اور ہم اس دنیا سے رخصت نہ ہوجائیں۔ آج اﷲ پاک نے یہ موقع دیا ہے اور ان بابا جی کی جو دعائیں تھیں وہ آپ حضرات کے لئے تھیں جو یہاں آئے اﷲ اس کو بھی سکون دے (آمین) میں نے ان کی دُعا پر آمین کہی اور اندر من میں آواز آرہی تھی کہ یہ مقبول دعائیں ہیں۔
تو ہوکسی بھی حال میں مولا سے لو لگائے جا:میں ایک جگہ گیا وہاں ایک عالم تھے‘ بڑے اﷲ والے تھے تندور پر روٹیاں لگارہے تھے۔ان کا نام مولانا صدر الدین تھا (رحمۃ اﷲ علیہ) ان کی عیادت کرنے گیا تھا۔ دیہات میں ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں ایک پرانا سا بانس تھا، اس کیساتھ بلب باندھا ہوا تھا کہیں سے لائٹ لی ہوئی تھی‘ میں گیا توکہنے لگے :میں ’’الحمد اللہ ‘‘پاک ہو ںاللہ کے فضل سے نمازیں ہو رہی ہیں، رمضان المبارک آنے والا ہے اور میں کہتا ہوں بس میرے روزے ہوجائیں (مقدر میں نہیں تھا کہ رمضان سے پہلے بیچارے فوت ہوگئے) میں نے ان سے عرض کیا مولانا میں تو دعا کے لئے آیا ہوں، آپ میرے لئے دعا کردیں، بس اس درویش نے جوہاتھ اٹھائے ناں!ایسے تھا کہ وہ اﷲ سے مانگ رہا ہے اور میرا رب دے رہا ہے اوراس نے واقعی دیدیا۔
اللہ والوں کا مقام شکر:میں جمعہ پڑھ کے آرہا تھا تو ہماری گلی میں ایک بیر کا درخت ہے، بیرنیچے گرے ہوئے تھے تو مجھے ایک وقت یاد آیا کہ ایک اﷲ والے کی خدمت میں گیا تھا ،ان کے گھر بیر لگے ہوئے تھے اور مجھے ایک بندہ توڑ توڑ کردے رہا تھا، میں کھائے جارہا تھا میں نے کہا: درویش کے گھر کے بیر ہیں ،اجازت بھی مل گئی ہے اور میٹھے بیر بھی تھے۔ ہم جب اندرگئے ، وہ اللہ والے فرمانے لگے چودہ سال سے بستر پر پڑا ہوں پھرکہنے لگے:میں اتنا بیمار نہیں ہوں۔ ایسی شکر کی باتیں کہیں، ایسی تسلی کی باتیں کیں۔ چودہ سال سے بستر مرگ پر پڑے ہوئے ہیں‘ میں نے ان سے عرض کیا میں تو دعا کیلئے حاضر ہوا ہوں۔ بس اس درویش نے جو دعائیں کیں ۔ ایک تووہ دعائیں میرےدل کو لگیں اور میرے حضرت کی دعائیں میرے دل کو لگیںحضر ت کچھ شفقت فرماتے تھے یا پھر آج جو دعائیں بابا جی نے دی ہیں ناں وہ کچھ تاریخی دعائیں ہیں۔تاریخی میں کہہ دوں، انمول کہہ دوں، کیا کہوں؟میں سوچنے لگا !کہ طارق یہ دعائیں تجھے کیوں ملیں؟ من میں آواز آئی کہ بس غلامی رسول ﷺکی وجہ سے حالانکہ ابھی تو ہم نے غلامی کی ہی نہیں ایسے ہی لفظ غلامی کہہ دیتے ہیں۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں