اوقات نماز میں تو بندہ اپنے پروردگار سے رجوع ہوکر اس کے ارکان مخصوص ہیئت اور شرائط کے ساتھ بجالاتا ہے اور فرض و سنت ادا کرتا ہے لیکن اللہ کو ہر وقت یاد کرنا ایک بندہ مومن کا شعار ہے وہ گھر میں ہو یا گھر سے باہر‘ سفر میں ہو یا حضر میں‘ بیٹھا ہو یا لیٹا ہو‘ کاروبار کی تگ و دو میں ہو یا میدان جہاد کی ہماہمی میں وہ ہر وقت ہرآن اور ہر موقع و محل پر اس کو دل سے اور زبان سے یاد کرسکتا ہے۔ ان عبادتوں کو تسبیح و تہلیل‘ تحمید و تکبیر ذکر اور دعا استفادہ اور استغفار کے ناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خود حضور نبی کریمﷺ کے بارے میں آپ ﷺ کے دیکھنے والوں کی شہادت ہے کہ ’’آپ ﷺ ہر وقت خدا کو یاد کرتے تھے‘‘ ایک صحابی رضی اللہ عنہٗ نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ! ایسی بات بتادیجئے جس پر میں دائماً عمل پیرا رہوں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’خدا کے ذکر سے ہر وقت تمہاری زبان تر رہے‘‘
سورۂ آل عمران میں ہے ترجمہ:’’اہل عقل وہ لوگ ہیں جو اللہ کو کھڑے بیٹھے اور لیٹے ہوئے یاد کرتے ہیں۔‘‘
سورۂ احزاب میں ہے۔ ترجمہ: ’’اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرو۔‘‘
عبادت کا مغز دعا ہے۔(حدیث) ترمذی اور ابوداؤد نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا ’’دعا ہی عبادت ہے‘‘ یہ فرمانے کے بعد آپﷺ نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ترجمہ:’’ تمہارے رب نے کہا مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں‘ عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔ (مومن آیت 60)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ پاک سے نہیں مانگتا اللہ پاک اس سے غصے ہوتا ہے۔ (ترمذی)
دعا فطرت انسانی کی پکار ہے‘ قرآن نے اس فطرت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ترجمہ: ’’جب انسان کو کوئی تکلیف چھو جاتی ہے تو وہ اپنے رب کو پوری طرح رجوع ہوکر پکار اٹھتا ہے۔‘‘ (زمر‘ 8)
وہی شخص ذکر و دعا میں مصروف رہتا ہے جس کے دل میں یہ بس گیا ہو کہ حاجت روا کرنا اور ہر قسم کی تکلیف رفع کرنا‘ صرف اور صرف اللہ کے اختیار میں ہے تاکہ اس کی عظمت اور اسی سے محبت کا جذبہ دل میں ہر وقت بیدار رہے‘ اس کے حضور بے چارگی‘ کمتری اور افتقار کی وہ کیفیت پیدا ہو جو ایمان کی روح اور اسلام (یعنی کامل سپردگی) کا تقاضا ہے۔ آدمی اپنا درد و غم اسی سے کہے جو کچھ مانگے اسی سے مانگے اس کی نظر اللہ پاک کے سوا اور کسی کی طرف نہ اٹھے۔اللہ پاک نے فرمایا میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان برابر سے تقسیم کردیا ہے اور میرے بندے نے جو مانگا وہ اسے ملا جب وہ اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کہتا ہے تو اللہ پاک فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی جب وہ رحمن اور رحیم کہتا ہے تو اللہ پاک فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثناء کی پھر جب وہ کہتا ہے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ تو اللہ پاک فرماتا ہے میرے بندےنے میری برتری اور بزرگی بیان کی (ایک حدیث میں ہے کہ) میرے بندے نے خود کو میرے حوالے کردیا پھر جب وہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُکہتا ہے تو اللہ پاک فرماتا ہے میرے اور میرے بندے کے رازو نیاز کی بات ہے جو اس نے مانگا وہ اسے مل گیا پھر جب وہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ سے وَلَا الضَّالِیْنَ تک کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سارا میرے بندے کا حصہ ہے اور جو کچھ اس نے مانگا وہ میرے بندے کو دیدیا گیا۔
بندے کی اس عاجزی و خاکساری کا اظہار سب سے زیادہ سجدے کی حالت میں ہوتا ہے یہ حالت قرب خداوندی کا سب سے مؤثر ذریعہ بنتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’’بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے تو اس حالت میں کثرت سے دعا کیا کرو۔‘‘
تمام عبادات جن میں اللہ کا ذکر اور دعائیں شامل ہیں ان سب کا مقصد بندے کو اپنے رب سے قریب کرنا اور اس سے گہرا تعلق قائم کرنا ہے تاکہ حاجت مندیوں اور نیاز مندیوں کا تعلق مخلوق سے ٹوٹ کر خالق سے جڑجائے اور اس کے دل میں خدا کی عبدیت کا احساس اتنا راسخ ہوجائے کہ وہ اپنے تمام مراسم عبودیت‘ اپنے جسم وجان‘ اپنی زندگی اور موت اور اپنی تمام خواہشیں محض اللہ کیلئے وقف کردے اور اس کی عظمت کے آگے سرنگوں
ہوجائے اگر ذکر و دعا پورے شعور اور جذبہ محبت کے ساتھ دل اور زبان سے نکلے تو اس سے ایمان میں جلا اور حلاوت‘ اطاعت و عبادت میں استقامت اور لذت پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ذکر و دعا کے جو الفاظ وارد ہوئے ہیں اور حدیث کی کتابوں میں حضور نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے جو الفاظ وارد ہوئے ہیں اور حدیث کی کتابوں میں حضور نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے جو دعائیں اور اذکار منقول ہیں ان کو پورے شعور اور حضور قلب کے ساتھ اپنی زبان سے ادا کیا جائے تو ہر قسم کی پریشانی اور بے چینی میں اطمینان قلب اور سکون حاصل ہوگا آپ ایسا محسوس کریں گے کہ آپ کے اور خدا کے درمیان جتنے پردے تھے ہٹ گئے ہیں اور آپ براہ راست بارگاہ الٰہی میں کھڑے ہوئے عرض کررہے ہیں اور اللہ پاک آپ سے ذرا بھی دور نہیں ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں