Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بہترین بیوی بننے کے گُر (ڈاکٹر فرخندہ ‘ کراچی)

ماہنامہ عبقری - جون 2011ء

وہ کون سی چیز ہے جو بیوی کو محبوبہ بنادیتی ہے؟؟؟ اس سوال پر بحث کی جائے تو یقین کیجئے وہ کبھی ختم نہ ہوگی۔ وجہ اس کی سیدھی سادی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس موضوع پر ہر شخص کے پاس کہنے کو کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا اور وہ اپنی رائے ظاہر کرنے پر اصرار بھی کرے گا۔ آئیے ہم یہاں روبن صاحب کی مدد سے ان خوبیوں کی ایک فہرست بنالیں جو عورت کو قابل محبت بناتی ہے:۔ اچھی ماں اکثر مردوں کو شریک کار سے زیادہ اچھی ماں کی تلاش ہوتی ہے۔ یہ وہ نتیجہ ہے جو درجنوں ماہرین نفسیات نے عورتوں اور مردوں کے دل ودماغ کی گہرائیوں کا مطالعہ و تجزیہ کرنے کے بعد اخذ کیا ہے۔ مرد ایسی بیوی چاہتا ہے جو اس کی ہر لحاظ سے دیکھ بھال کرے اس کی فراہم کردہ تمام اشیاء(لباس‘ موٹر‘ دولت وغیرہ) کی قدر کرے۔ ان کی اہمیت سمجھے اور ان سے لطف اٹھائے۔ شریک حیات کے روپ میں اچھی ماں تلاش کرنے والے مردوں کا معاملہ یہ ہے کہ اگر بیوی کسی معاملے میں ان کی سرپرستی کرنے میں کوتاہی برتے تو وہ روٹھ جاتے ہیں۔ انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں اور بیوی کو قابل محبت سمجھنے سے گریزاں ہوجاتے ہیں۔ ایسے مرد چاہتے ہیں کہ بیوی ان کے پلے سے بندھی رہے جب وہ گھر میں قدم رکھیں تو وہ سارے کام چھوڑ کر بس ان کے پاس بیٹھی رہے۔ بیوی کے اس قسم کے طرز عمل سے ان کو دلاسہ ملتا ہے کہ ان کو چاہا جارہا ہے۔ ان کی پرواہ کی جارہی ہے۔ اصل میں ان شوہروں کی نفسیاتی الجھن یہ ہوتی ہے کہ وہ بیوی کے محتاج تو ہوتے ہیں مگر اس حقیقت کو قبول کرنے کا ان میں حوصلہ نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس امر کا اعتراف کرنے سے ان کی توہین ہوگی۔ ان کو کمتر قسم کا مرد سمجھا جائے گا اور ان کا مذاق بھی اڑایا جائیگا۔ اس سے بچنے کیلئے وہ نہ صرف دوسروں کو بلکہ اپنے آپ کو بھی یہ یقین دلاتے رہتے ہیں کہ بیوی اور اہل خانہ پر ان کی حاکمیت پوری طرح قائم ہے۔ قابل محبت بیوی کو شوہر کی اس الجھن کا علم ہوتا ہے لہٰذا وہ اس کو کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتی کہ وہ بیوی پر دارومدار رکھتا ہے اور آزادانہ کردار ادا کرنے کے حوصلے سے محروم ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر بیوی ایسے شوہر کیلئے کپڑے جوتے اور استعمال کی دوسری چیزیں شوہر کیساتھ جاکرخرید کر لاتی ہے یہ اشیاءوہ اپنی پسند کے مطابق خریدتی ہے مگر شوہر کو بھی یہ تاثر دیتی ہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو اس کو پسند ہیں اور اس کی پسند کو مدنظر رکھ کر خریدی گئی ہیں۔ صاف دلی قابل محبت عورت کبھی مکر اور منافقت سے کام نہیں لیتی جب اس کوکوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو وہ اس کو دل میں رکھ کر اپنا غصہ نکالنے کے مواقع تلاش نہیں کرنے لگتی بس وہ یہ کرتی ہے کہ جو بات اچھی نہیں لگی اس کا اظہار مناسب موقع پرمناسب انداز میں کردیتی ہے۔ جو دل میں ہوتا ہے کہہ دیتی ہے بات جہاں شروع ہوتی ہے وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ وہ کوتاہی اور غلطی کو معاف کردیتی ہے اور بھول جاتی ہے۔ وہ شوہر کو جنسی لطف سے محروم کرکے سزا دینے کا خیال کبھی ذہن میں نہیں لاتی اور نہ ہی خود کو شوہر کے سپرد کرنے کو انعام یا صلہ سمجھتی ہے۔ پہل قابل محبت عورت کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ عورت ”نہ “کہنے کا حق رکھتی ہے۔ لہٰذا وہ شوہر کو ایسے اشارے دیتی ہے جو ”ہاں“ پر دلالت کرتے ہیں۔ ان اشاروں کا پیغام یہ ہوتا ہے کہ اگر تم مجھ سے پوچھو تو میں ہاں کہوں گی۔ پہلا قدم اس کو بھی اٹھانا چاہیے مگر وہ اس انداز سے پہلا قدم اٹھاتی ہے کہ یوں گمان ہوتا ہے کہ گویا پہل شوہر نے کی ہو۔ برداشت: قابل محبت بیوی کو بخوبی علم ہوتا ہے مرد عام طور پر کسی قسم کی خواہش کو برداشت کرنے کا زیادہ حوصلہ نہیں رکھتے۔ جونہی خواہش پیدا ہوتی ہے وہ اس کی تسکین چاہتے ہیں۔ چنانچہ قابل محبت بیوی اپنے اس علم سے مثبت انداز میں فائدہ اٹھاتی ہے۔ جنس قابل محبت عورت جانتی ہے کہ اس کے شوہر کی زندگی میں جنس بہت اہم رول ادا کرتی ہے لہٰذا اس کو یہ بھی علم ہوتا ہے۔ ساتھی کے طور پر اس کے شوہر کی اہلیت کا زیادہ دارومدار اس امر پر ہے کہ وہ خود شوہر کو اپنی ضروریات کے متعلق بتائے۔ وہ اس کو بتائے کہ کون سی بات سے اس کو لطف ملتا ہے اور تسکین حاصل ہوتی ہے۔ صرف ایسی صورت میں شوہر کی جنسی کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے جب شوہر کو معلوم ہوگا کہ وہ بیوی کی تسکین کس طرح کرسکتا ہے اور اس کیلئے لطف و مسرت کا وسیلہ کس طرح بن سکتا ہے تو یہ بات خود اس کیلئے خوشی کا باعث بنے گی۔ اس عورت کو معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کو انکار کیا جائے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ گویا اس کو دھتکارا گیا ہے لہٰذا وہ شوہر کے تقاضے پر نہ چاہتے ہوئے بھی پرجوش ساتھی بن جاتی ہے۔ قابل محبت بیوی کو خبر ہوتی ہے کہ اگر اس نے اپنے نسوانی حسن ودلکشی کی دیکھ بھال چھوڑ دی اپنے آپ کو نظرانداز کرنا شروع کردیا تو شوہر کویہ تاثر ملے گا کہ وہ جنس سے بے نیاز ہوگئی ہے اور نتیجے کے طور پر اس نے شوہر کی پرواہ کرنا بھی چھوڑ دی ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ شوہر بیویوں کی جنسی گرم جوشی کی قدر کرتے ہیں اور اس پر ناز کرتے ہیں۔ لہٰذا بیویاں اپنی جنسی کشش بڑھانے کی کوشش کریں تو ان کو اچھا لگتا ہے۔ اس لیے قابل محبت بیوی اپنے آپ کو صحت مند سمارٹ اور پرکشش رکھتی ہے۔ یہ بات قابل محبت بیوی سے پوشیدہ نہیں ہوتی کہ اس کی طرح اس کا شوہر محبت کا بھوکا ہوتا ہے جب بیوی اس کے کام‘ مقاصد اور مشاغل میں حصہ لیتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے بیوی کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کو کوئی ایسا فرد چاہیے جو اس کی باتیں ہمدردی اور شوق سے سن سکے۔ وہ شوہر کی یہ خواہش خود پوری کردیتی ہے۔ رقیب: قابل محبت بیوی اس حقیقت کو کسی خفگی اور آزردگی کے بغیر قبول کرلیتی ہے کہ اس کا مرد دوسرے مردوں کی رفاقت کا طلب گار ہوتا ہے وہ اس کو فطری ضرورت سمجھتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کے دوستوں کا ایک حلقہ ہے وہ سب مل کر بیٹھتے ہیں ہنستے کھیلتے ہیں‘ گپ بازی کرتے ہیں۔ وہ عورت ان مشغلوں کو اپنے بچوں کے کھیل کی طرح قبول کرتی ہے۔ وہ شوہر کے دوستوں کو اپنا رقیب نہیں سمجھتی۔ گلے شکوے قابل محبت عورت جانتی ہے کہ مرد دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بننا پسندنہیں کرتے۔ وہ نہیںچاہتے کہ دوسرے لوگ ان کو ناجائز طور پر استعمال کریں‘ ان کے ساتھ چالبازی سے کام لیں یا پھر دھونس کے ذریعے ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ عام عورتوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ شوہر دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو وہ گلے شکوے اور قسمت کا رونا شروع کردیتی ہیں۔ ان کے پاس مسائل کی پوری فہرست ہوتی ہے اور موقع محل دیکھے بغیر اس فہرست کو دہرانے لگتی ہیں۔ ایسی عورتیں گھر کو جہنم بنادیتی ہیں۔ شوہر ان پر توجہ دینے کی بجائے ان سے دور ہونے لگتا ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 239 reviews.