ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور اس کیلئے گھر کا اسباب ڈھونا‘ اپنے دوستوں اور مانوس ماحول کو چھوڑنا اور کسی دوسری آبادی میں جاکر سکونت اختیار کرنا کسی کیلئے بھی کوئی آسان بات نہیں ہوتی۔ بچوں کیلئے تو یہ بات خاص طور پر بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ہر عمر کے بچوں کیلئے اس قسم کی منتقلی خواہ وہ ایک ہی شہر میں ایک محلہ سے دوسرے محلے میں ہو یا ایک صوبے سے دوسرے صوبے کیلئے ان کی شخصیت کو مجروح کردیتی ہے۔ بچوں کی سب سے بڑی ضرورت ان کا تحفظ ہوتا ہے۔ انہیں یہ محسوس ہوتے رہنا چاہیے کہ وہ محفوظ ہیں اور اس نوعیت کی تبدیلی ان کے اسی احساس تحفظ پر ضرب لگاتی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس نوعیت کی منتقلی کیلئے بچے پہلے سے ذہنی طور پر تیار ہوں۔ آپ کو جب کبھی اپنی سکونت بدلنی ہو تو جتنی جلد ممکن ہوسکے بچوں کو اس متوقع منتقلی کے بارے میں نہ صرف آگاہ کردیجئے بلکہ پوری صورت حال اور منتقلی کے اسباب کے بارے میں ان سے کھل کر گفتگو کیجئے۔ بچوں کو آپ کی بات سمجھنے‘ منتقلی کی اس خبر کو قبول کرنے‘ سوالات کرکے اس خبر کا حقیقی مفہوم سمجھنے اور کسی بھی سبب سے اس منتقلی کے سلسلے میں پیدا ہونے والی ہچکچاہٹ کو دور کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ اس خبر کو سنتے ہی ان کی طرف سے کیے گئے سوالات کی کثرت اور ہچکچاہٹ پر تعجب کا اظہار نہ کیجئے بلکہ بچوں کو اس بات کا موقع دیجئے کہ وہ محسوسات کو کھل کر آپ کے سامنے پیش کریں۔
آپ کا سب سے چھوٹا بچہ آپ سے کچھ زیادہ حقائق جاننے کا طالب ہوگا‘ کیونکہ اپنی عمر کے اعتبار سے اس میں وقت کی ضرورتوں کا احساس نسبتاً بہت کم ہوتا ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اسے بہت پہلے سے خاندان کی متوقع منتقلی کے بارے میں بتایا جائے اس لیے مناسب یہ ہے کہ منتقلی کے متعلق گفتگو کی ابتدا سب سے چھوٹے بچے سے کی جائے۔ بڑے بچوں کی صورتحال قدرے مختلف ہوگی۔ وہ آپ سے اس منتقلی کا سبب جاننا چاہیں گے اور یہ ان کا حق بھی ہے۔ گھر بدلنے کامطلب بڑے بچوں کیلئے نئے دوست بنانا‘ نئے سکول میں جانا اور نئے اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے۔ غرض یہ تبدیلی ان کیلئے بالکل نئی زندگی کا آغاز ہوتی ہے۔ آپ کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ بچوں کی تبدیلی مکان کے متعلق خبر آپ خود سنائیں۔ انہیں کسی دوسرے ذریعہ سے مثلاً پڑوسیوں وغیرہ کے ذریعہ سے اس کی اطلاع نہیں ہونی چاہیے۔ ہوتا یہ ہے کہ اگر بچے خاندانی معاملات سے اس طرح آگاہ ہوں کہ بڑوں کی گفتگو اتفاقاً ان کے کانوں میں پڑ جائے یا باہر کا کوئی آدمی ان کے خاندان کے متعلق کوئی خبر انہیں سنائے تو ان کی آزردگی زیادہ شدید اور گہری ہوتی ہے۔ اس لیے یہ موقع رازداری برتنے کا نہیں ہوتا۔
قدرتی بات ہے کہ بچوں کے کانوں میں والدین کی گفتگو کی کوئی ایسی بھنک پڑجائے جو تبدیلی سکونت سے متعلق کسی قسم کی غلط فہمی پیدا کرسکتی ہو تو وہ بچوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کردے گی۔اگر بچے سکونت کی تبدیلی کے سلسلے میں اپنی ماں کو روتا ہوا دیکھ لیں یا باپ کی زبان سے کوئی شکایتی کلمہ سن لیں تو وہ یقینا اس منتقلی کے زیادہ شدت سے مخالف ہوجائیں گے۔ لیکن والدین صحیح طریقہ اختیار کریں تو بچوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کم ہوجائیں گے یا ختم ہوجائیں گے۔ بار بار سکونت تبدیل کرنے والے خاندانوں کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ جن خاندانوں کے بچے اس منتقلی یا سکونت کی تبدیلیوں سے ناراض تھے ان میں یہ ناراضی والدین میں سے کسی ایک کے منتشر خیالات کا ردعمل تھی۔
”میں اپنے دوستوں سے دوبارہ نہیں مل سکوں گا“۔ آپ بالعموم اپنے بچوں سے ایسے جملے ضرور سنیں گے۔ آپ بچوں کے اس احساس میں بڑے بچوں کو پرانے دوستوں سے تعلقات برقرار رکھنے کی اجازت کا یقین دلا کر کمی کرسکتے ہیں۔ آپ بچوں کے سامنے اپنے دوستوں کو اپنے پتے کی تبدیلی کے متعلق خطوط لکھ کر یہ یقین دلاسکتے ہیںکہ سکونت کی تبدیلی پرانے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہوگی۔
تبدیلی سکونت میں بچوں کی شرکت
یہ بات بڑی اہم ہے کہ تبدیلی سکونت کے سلسلے کی مصروفیات میں بچے اپنے والدین سے تعاون و اشتراک کا بھرپور احساس رکھتے ہیں جہاں تک ممکن ہو انہیں تبدیلی مکان کی تیاریوں اور اسباب سمیٹنے کے کاموں میں مدد کرنے کاموقع دیجئے۔ انہیں وہ تمام سامان پھینکنے دیجئے جسے رکھنا وہ پسند نہ کرتے ہوں لیکن جس چیز کو وہ کسی بھی وجہ سے اپنا خزانہ سمجھتے ہوں یا اسے محفوظ کرنا چاہتے ہوں اسے اپنے ساتھ اپنے نئے مکان میں لے جائیے۔ چھوٹے بچوں کے وہ تمام کھلونے جو انہیں پسند ہوں۔ اس وقت تک محفوظ رہنے چاہئیں جب تک کہ وہ نئے مکان سے مانوس نہ ہوجائیں اور ان کھلونوں کی ضرورت باقی نہ رہے۔
بچوں کے اس یقین میں اضافہ کرنے کیلئے کہ گھر کی ہر چیز میں ان کا حصہ ہے انہیں اس بات کی اجازت دیجئے کہ اپنے نئے کمروں کیلئے وہ خود اپنی پسند کے رنگ منتخب کریں یا یہ بتادیں کہ ان کافرنیچر کس جگہ رکھا جائے۔ بچے اپنے والدین ہی کے ذریعہ سے ہمت اور سکون حاصل کرتے ہیں۔ کوئی خاندان جب مل جل کر رہتا اور روزانہ کے معمولات مل جل کر ادا کرتا ہے تو اجنبیت کا احساس اور کسی منتقلی کی بنا پر پیدا ہونے والا کوئی بے ربط خیال خود بخود معدوم ہوجاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ والدین کو ہزاروں کام انجام دینے ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود والدین کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بچے اور خاص طور پر کم عمر بچے عام دنوں کی بہ نسبت جذباتی لمحات کے دوران بہت زیادہ توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ دوسری مصروفیات کے ساتھ ان پر توجہ دینا یقینا ایک دشوار کام ہے لیکن ایسے مواقع پر آپ کو ممکنہ حد تک خوش و خرم اور پرسکون رہنا چاہیے۔
سکونت تبدیل کرنے کے بعد آپ کا پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ نئے پڑوسیوں اور اجنبیوں سے شناسائی اور قربت پیدا کریں۔ اس کیلئے بہترین طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلے اپنے بچوں کے کمرے آراستہ کریں تاکہ آپ کے بچے ہم عمر نئے ساتھیوں کو اپنے پاس بلاسکیں۔ تیرہ سے انیس سال تک کے بچے نئی سکونت کی خامیاں تلاش کرنے کے معاملے میں خاصے ذہین ثابت ہوتے ہیں۔ اس صورت میں ان کی دل جوئی کی بھرپور کوشش کیجئے۔ نئے مکان میں آنے کے بعد بچوں کو فوراً باہر جانے اور نئے دوست بنانے پر مجبور نہ کیجئے۔ کیونکہ ہر بچے میں نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ بعض بچے اس میں زیادہ دشواری محسوس نہیں کرتے اور بعض بچے ذرا دیر میں دوست بناتے ہیں۔ عقل مند والدین نئے مکان کے بارے میں اپنے بچوں کے تنقیدی جملے سننے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ یہ اعتراضات کبھی مکان کے بڑا یا چھوٹا ہونے کے سلسلے میں ہوتے ہیں اور کبھی اس کے محل وقوع پر۔ یاد رکھیے سکونت کی تبدیلی ایک طرح سے بالکل نئی زندگی کا آغاز ہوتی ہے۔ تجربات کا ایک دفتر بند ہوتا اور نیا باب کھلتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں