Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

اندھوں میں قوتِ احساس اور میرے تجربات

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2007ء

(صحافی مفتون دیوان سنگھ ایڈیٹر ریاست کی ڈائری سے) میں جب فیروز پور میں تھا تو ا س زمانہ میں وہاں ایک کامیاب ترین وکیل سردار چندا سنگھ تھے جن کی پریکٹس کا مقابلہ شاید ہی کوئی وکیل وہاں کر سکتا تھا۔ یہ سردار چند سنگھ قوتِ بینا ئی سے بالکل محروم اور پیدائشی اندھے تھے اور ان کی آنکھوں کی نہ پتلیاں تھیں اور نہ سفیدی نہ کچھ اور یعنی یہ آنکھوں سے بالکل ہی محروم تھے جن کے اوپر آپریشن یا علاج کا سوال ہی پیدا نہ ہو تا تھا۔ آپ کچہری میں جا تے یا کسی اورجگہ، ایک آدمی ان کو سہارا دینے کے لیے ضرور ساتھ ہوتا اوران کی پریکٹس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ زیا دہ تر قتل کے مقدمات کے سلسلہ میں سیشن کورٹ میں پیش ہو تے۔ ان سردار چندا سنگھ کی قوتِ احساس اس قدر تیز تھی کہ یہ گھوڑے پر صرف ہاتھ پھیر کر بتا دیتے کہ گھوڑے کا رنگ سفید ہے یا سرخ یا سیا ہ۔ ایک بار ان کے ہاتھوں میں مختلف رنگ کے اون کے لچھے دے دیئے گئے۔ آپ تھوڑی دیر ان لچھوں کو ٹٹولتے رہے اور ٹٹولنے کے بعدآپ نے ہر لچھے کے متعلق بتا دیا کہ ان کا کو ن سا رنگ ہے۔ ان سر دار چندا سنگھ کا ایک دلچسپ واقعہ ہے : آپ پبلک کی ایک میٹنگ میں شامل ہو ئے۔ ان میٹنگ میں مسٹر باسورتھ ڈپٹی کمشنر تقریر کر رہے تھے اورتقریر بھی پرانے زمانے کے ممبر انڈین سول سروس کے جذبات میں انتہائی مطلق العنا نہ تھی۔ سردار چند اسنگھ صبر نہ کر سکے۔ آپ نے کھڑے ہو کر مسٹر باسورتھ سمتھ کو ٹوک دیا۔ باسورتھ سمتھ بہت ہی اکھڑ اور اجڈ قسم کے افسر تھے۔ معاملہ تو تو میں میں تک پہنچ گیا۔ مسٹر باسورتھ نے سردار چند سنگھ کے خلاف اور سردار چند اسنگھ نے مسٹر باسورتھ سمتھ کے خلا ف گورنمنٹ کے پا س شکایتیں کیں اور نو ٹس با زی ہوئی۔ نتیجہ یہ ہو اکہ سردار چنداسنگھ کا پریکٹس کا لا ئسنس ضبط کر لیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد سردار چندا سنگھ مسٹر باسورتھ سمتھ کے پیچھے لگے رہے۔ مارشل لاءمیں باسورتھ سمتھ نے پبلک پر بہت مظالم کئے، شکایتیں ہوئیں۔میا نو الی میں آپ نے وہاں ایک نو اب کو گالیاں دیں۔ نو اب نے اپنے ملا زموں سے باسورتھ سمتھ کو بہت پٹوایا۔ یہ تمام حالات اور سردار چندا سنگھ ایک جگہ جمع ہو گئے تو مسٹر باسورتھ سمتھ ملا زمت سے مو قوف کر دئیے گئے۔ اس موقوفی کی اطلا ع سن کر سردار چند سنگھ نے مسٹر باسو رتھ سمتھ کو ایک خط لکھا جس میں اوپر القاب کی جگہ لکھا گیا : ” بخدمت مسٹر باسورتھ سمتھ، ڈسمسڈ ڈپٹی کمشنر “ اور نیچے لکھا ”آپ کا خادم، چندا سنگھ ڈسمسڈ ایڈووکیٹ۔“ گیا نی شیر سنگھ سکھوں میں بہت اہم شخصیت تھے۔ ایک بہترین مقرر، اچھے مصنف اور جرنلسٹ اور خیا لات کے اعتبار سے بہت اچھے فلسفی مگر آنکھوں کی بینائی سے قطعی محروم۔ میں جس زمانہ میں لاہو ر کے ہفتہ وار خالصہ اخبار کوایڈٹ کیا کر تا، آپ ملنے کے لیے تشریف لایا کر تے۔ اورآپ سے گہرے دوستانہ تعلقات ہو گئے۔ آپ آنکھوں سے قطعی محروم تھے۔مگر آپ کی قوت احساس اس قدر تیز تھی کہ آپ آکر کبھی کمرہ میں چلے جا تے تو فضا کو محسو س کر تے ہوئے کمرہ میں کھڑے ہو کر بتا دیتے کہ یہ کمرہ اتنے فٹ لمبا ہے اور اتنے فٹ چوڑا ہے۔ گیا نی شیر سنگھ سے ملے ہوئے کئی سال ہو چکے تھے۔ کہ میں ایک روز امرتسر گیا۔ وہاں ہا ل دروازہ سے باہر ریلو ے اسٹیشن کوجارہا تھا، صبح چھ بجے کا وقت تھا، دیکھا کہ ریلوے کے پل کے قریب گھا س کے فر ش پر گیا نی صاحب اپنے پرسنل اسسٹنٹ کو اپنے اخبار (جو گورمکھی زبان میں تھا اور امر تسر سے شائع ہو تا تھا ) کے لیے مضمون لکھا رہے ہیں۔میں تا نگہ سے اتر کر آپ کے پاس گیا اور آپ کاہاتھ اپنے ہاتھ میںلیکر شیک ہینڈ کیا۔ گیانی صاحب نے پو چھا، کون ہے۔ میں نے نہ صرف خو د کوئی جواب دیا بلکہ ان کے پر سنل اسسٹنٹ کو بھی اشار ہ سے کہہ دیا کہ وہ کچھ نہ بتائے۔ گیا نی جی نصف منٹ کے قریب میرے ہا تھ کو ٹٹولتے رہے تو آپ نے کہا کہ ہاتھ سے معلوم ہو تاہے۔ کہ یہ دہلی کے دیوان سنگھ ایڈیٹر ریا ست کا ہاتھ ہے۔ میں بے اختیار ہنس پڑا اور حیرا ن تھا کہ دس گیا رہ برس کے بعد بھی گیا نی صاحب نے کیونکر صرف ہا تھ ٹٹو ل کر مجھے پہچان لیا۔
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 204 reviews.