دوران سفر مولانا سلیم صاحب آف کنڈیارو سے مکافات عمل پر بات چیت ہوئی انہوں نے اپنے کچھ واقعات بیان کیے۔ ایک انہوں نے سچا واقعہ سنایا کہ کنڈیارو کے ایک گائوں میں ایک صاحب رہتے تھے۔انہوں نے کتیا پال رکھی تھی۔ متکبر اور ظالم طبیعت کے تھے‘ ایک دن انہیں اس پر غصہ آیا اس شخص نے کتیا کو رسہ سے مضبوط باندھا اور ٹوکے سے پاو ¿ں کی طرف سے کاٹنا شروع کیا اور پورے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے کاٹا۔ کتیا کی چیخیں عرش بریں پر پہنچیں۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ تکبر سے جی ٹی روڈ پر سائیکل چلاتے ہوئے آرہا تھا کہ سڑک کے بالکل درمیان میں سائیکل آکر جام ہوگئی۔ بڑی کوشش کی لیکن سائیکل نہ چلی۔ دوسری طرف سے ایک بڑا ٹرالر آرہا تھا اور اس سے بھی بریک نہ لگی اور وہ نیچے آگیا اور اس کے اتنے ٹکڑے ہوئے جتنے اس نے کتیا کے ٹکڑے کیے تھے۔
دوسرا واقعہ انہوں نے سنایا کہ کنڈیارو شہر کا واقعہ ہے ایک صاحب نے اپنے باپ کو اس لیے ڈانٹا کہ اس نے اس کا جوتا استعمال کیا تھا۔ یعنی کوئی تقریب تھی باپ اپنے بیٹے کا جوتا پہن کر چلا گیا جب باپ گھر پر آیا تو بیٹا انتظار کررہا تھا اور بڑی بدتمیزی سے پوچھا کہ بوڑھے میرا جوتا کیوں پہن کر گئے تھے۔ باپ نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ تقریب پر جانا تھا اور میرے پاس اپنا جوتا کچھ اچھا نہیں تھا۔ بیٹا سمجھ کر آپ کاپہن کر چلا گیا۔ اس پر اس بیٹے نے باپ کو بہت بے عزت کیا۔ باپ کے دل سے آہ نکلی۔ مولانا فرمانے لگے کہ وہ باپ کسی بزرگ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ بیٹے نے بہت بے عزت کیا ہے تو وہ بزرگ فرمانے لگے کہ صبر کرو۔ کچھ دن بعد اطلاع ملی کہ بیٹا ٹرک کے نیچے آکر کچلا گیا۔
ایک جج نے اپنا واقعہ سنایا کہ ایک جگہ سیشن جج لگا۔ ایک کیس آیا ایک ملزم میرے سامنے پیش کیا گیا جس پر قتل کا الزام تھا‘ سارے ثبوت اس کے خلاف تھے اور وہ تھا بہت معصوم شکل اور روتا اور چیختا بھی تھا کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا۔ اس کی معصومیت سے یہ پتہ چلتا تھا کہ اس نے قتل نہیں کیا لیکن ثبوت یہ بتاتے تھے کہ اس نے قتل کیا ہے۔ جج صاحب نے بتایا کہ میری زندگی کا تجربہ تھا میرے تجربات اور اس کی معصومیت یہ بتا تی تھی کہ اس نے قتل نہیں کیا۔ اس لیے میری کوشش یہ شروع ہوگئی کہ اس کو بچالوں۔ اسی کوشش میں تقریباً تین مہینے میں نے اس فیصلے کو لمبا کیا لیکن میری کوشش ناکام رہی۔ میں سارا دن اسی کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ میری زندگی کا کوئی یہ عجیب فیصلہ تھا۔ آخر کار میں نے اس کو سزائے موت لکھ دی۔ دوسرے دن اس کو سزائے موت ہونی تھی میں اس کے پاس گیا اور پوچھا کہ سچ سچ بتائو تم نے قتل کیا ہے کہنے لگا جج صاحب میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے قتل نہیں کیا۔ جج صاحب نے کہا تم نے کونسا ایسا جرم کیا ہے جس کی تمہیں یہ سزا مل رہی ہے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا صاحب جی میں نے ایک گناہ کیا ہے مجھے یاد آگیا ہے وہ یہ کہ میں نے ایک کتیا کو بڑی بے دردی سے مارا تھا اور وہ مرگئی تھی وہ قتل میں نے کیا ہے۔ جج صاحب چونک پڑے اور کہنے لگے تبھی تو جب سے تمہارا کیس میرے پاس آیا ہے آج تین مہینے ہوگئے ہیں روزانہ جب میں گھر جاتا ہوں ایک کتیا میرے دروازے پر بیٹھی ہوتی ہے اور چیائوں چیائوں کرتی ہے اور اپنی زبان میں مجھ سے انصاف کا کہتی ہے۔ جج صاحب نے بتایا کہ دوسرے دن اس شخص کو پھانسی ہوگئی اور مجھے سبق ملا وہ یہ کہ اللہ کی مخلوق پر ظلم کرنے والے کو اللہ ضرور سزا دیتا ہے اس کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ہماری نظر میں جو مخلوق حقیر اور نجس ہے لیکن بنانے والے کو وہ مخلوق کتنی پیاری ہے۔(مولانا سلیم ثومرو‘کنڈیارو)
عدالت میں جھوٹی قسم اٹھائی
بعض اوقات عدالتوں میں ایسے واقعات پیش ہوتے ہیں کہ دونوں فریق قرآن پاک پر حلف دینے کیلئے تیار ہوتے ہیں ویسے عدالتیں اور وکیل صاحبان قرآن پر حلف کے وقت بہت زیادہ محتاط ہوتے ہیں۔ اس طرح کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ رب نواز علاقے میں مقدمہ باز مشہور تھا۔ اس کا سارا دن عدالت میں گزرتا تھا۔ بارش ہو‘ آندھی ہو وہ عدالت میں لازمی آتا تھا۔ اس سے عدالتی نظام پر بات ہورہی تھی تو میں نے کہا کہ حلف پر فیصلہ کرالو‘ اس نے کہا کہ کبھی بھی حلف پر فیصلہ نہیں کرانا چاہیے کیونکہ عموماً جھوٹا حلف دینے کیلئے لوگ تیار ہوجاتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ بے شک دیر ہوجائے مگر کوشش کرو حلف پر فیصلہ نہ ہو۔ میرا تجسس بڑھ گیا کہ یہ عجیب بات کررہا ہے حالانکہ حلف پر فیصلہ ہونا چاہیے۔ اس نے بتایا کہ اس کے سامنے کئی واقعات ہیں جس نے بھی جھوٹی قسم اٹھائی اور جس نے قسم اٹھوانے پر اصرار کیا وہ دونوں خسارے میں رہے۔ میں نے کہا کہ کوئی واقعہ سنائو۔ اس نے بتایا کہ ایک شخص نے 4کنال اراضی کا دعویٰ عدالت میں دائر کیا کہ فلاں شخص نے 4 کنال اراضی اسے فروخت کردی ہے۔
دوسرا شخص عدالت میں پیش ہوا اور اس نے جج سے مختصر بات کی کہ میں نے اراضی فروخت نہیں کی ہے اگر مدعی شخص قرآن پر حلف دے دے تو دعویٰ فیصلہ اس کے حق میں اور میرے خلاف کردیا جائے۔ دعویٰ کرنے والا شخص حلف اٹھانے پر تیار ہوگیا۔ بتانے والا کہتا ہے کہ میں منع کرتا رہا مگر وہ باز نہ آیا۔ کیونکہ میرے علم میں تھا کہ دعویٰ جھوٹا ہے جج نے کہا کہ باوضو ہوکر قرآن پر حلف دو کہ اس شخص نے تمہیں اراضی فروخت کردی ہے۔ مدعی نے یہ الفاظ قرآن پاک پر حلف دے کر کہے۔ جج نے اس کے حق میں دعویٰ ڈگری کردیا۔ وہ خوشی خوشی گھر جارہا تھا وہ بتانے والا کہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ ناراض تھا کہ جھوٹی قسم اٹھائی ہے اللہ پاک کو ناراض کیا ہے یقینا اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔
حلف اٹھانے والے نے کہا کہ دیکھا جائے گا۔ اب 4کنال اراضی مل گئی ہے اور یہی باتیں کرتے ہوئے گھر کے قریب پہنچے تو اس کے گھر کے اردگرد کافی لوگ جمع تھے اور ایک نوجوان بھاگتا ہوا آیا اوربتایا کہ اس کے بیٹے کو بجلی کا کرنٹ لگا ہے اور وہ فوت ہوگیا ہے۔ حلف اٹھانے والا بھاگ کر گھر پہنچا تو دیکھا کہ اس کا بیٹا مٹی میں دبا ہوا تھا اورفوت ہوچکا تھا۔ اس نے بیٹے کو مٹی سے نکالا (دیہاتیوں میں جس کو کرنٹ لگتا ہے فوراً مٹی میں دبادیتے ہیں) اور تفصیل پوچھی تو گھر والوں نے بتایا کہ گھر کے اوپر سے نئی 11 ہزار وولٹیج کرنٹ کی لائن گزرتی ہے بیٹا اچانک چھت پر چڑھ گیا اور دیوار سے دوسری طرف دیکھنے لگا توازن خراب ہوا تو اچانک ہاتھ گیارہ ہزار وولٹیج پر پڑا اسی وقت جسم تاروں سے چمٹ گیا۔ رب نواز کہتا ہے کہ میں ساتھ تھا میں نے پوچھا کہ کیا وقت تھا گھروالوں نے بتایا کہ ایک بجے کا وقت تھا اور ایک بجے ہی اس نے جھوٹی قسم اٹھائی تھی اراضی تو مل گئی مگر جوان بیٹا گنوا دیا۔ یہ انجام ہے جھوٹی قسم اٹھانے کا۔ (سید واجد حسین بخاری‘ احمدپورشرقیہ)
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 910
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں