تمہیں تو معلوم تھا کہ بچپن سے ہی مجھے ڈانس کرنے کا کتنا شوق تھا اسی شوق کی وجہ سے بارہا مجھے دوستوں میں عزت اور گھر میں ذلت کا منہ دیکھنا پڑا ۔ تمام عزیز و اقارب مجھ سے ناراض تھے میرے چھوٹے بہن بھائی میرے نقش قدم پر چلنے لگے
انسپکٹر شاہد آج بہت خوش تھے کیونکہ سات سا ل کے طویل عرصے کے بعد ان کی تبدیلی اپنے ہی شہر میں ہوئی تھی۔ ان سات سالوں میں اس شہر میں سب کچھ بدل گیا تھا اس سرکاری نوکری نے تو انہیں ان کے عزیزو اقارب سے دور جا بسایا تھا‘ ایک معروف سڑک کی جانب گاڑی موڑتے ہوئے ان کی نظر مسجد پر پڑی جہاں وہ بچپن میں سپارہ پڑھنے جاتے اوراپنے ہم عمروں کے ساتھ خوب لڑتے جھگڑتے‘ یہ خیال آتے ہی ان کے لبوں پر گہری مسکراہٹ بکھر گئی۔
صبح کا سہانا موسم بہت خوشگوار تھا‘ آسمان پر دور تک گہرے بادل چھائے ہوئے تھے جو کہ یقینا بارش کی آمدکی اطلاع دے رہے تھے۔ انسپکٹر شاہد کی گاڑی آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی۔ ابھی وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ بادلوں کی گڑگھڑاہٹ نے انہیں بری طرح چونکا دیا اور چند ہی لمحوں میں بوندا باندی شروع ہوگئی‘ ان کے دل میں بچپن سی شوخی مچل رہی تھی‘ دل چاہ رہا تھا وہ بھی عام بچوں کی طرح بارش میں خوب نہائیں‘ بھاگیں‘ دوڑیں مگر اب وہ دن کہاں؟
ابھی بوندا باندی کچھ تیز ہوئی تھی کہ انہوں نے ایک خوبصورت نوجوان کو سائیکل پر آتے ہوئے دیکھا۔ اس کے سر پر سفید ٹوپی اور چہرے پر نورانی ڈاڑھی تھی‘ وہ نوجوان اس بارش سے بے خوف و خطر اپنی منزل کی جانب بڑھا جارہا تھا‘ بارش میں اس کے تمام کپڑے بھیگ چکے تھے جبکہ اس کی ڈاڑھی میں پانی کے قطرے ننھے ننھے سفید موتیوں کی طرح چمک رہے تھے جیسے ہی وہ شخص ان کی گاڑی کے قریب سے گزرا تو وہ چونکے بغیر نہ رہ سکے۔ انہیں وہ شخص جانا پہچانا سا لگا‘ انہوں نے اس کے گزر جانے کے بعداپنی گاڑی یکدم آہستہ آہستہ کی اور اپنی گردن گھما کر اسے دیکھا تو خوشی سے ان کا چہرہ دمک اٹھا کیونکہ وہ تو ان کا پڑوسی اور ہم جماعت شاہنواز تھا مگر اس میں اتنی سخت تبدیلی‘ ناممکن‘ یقینا یہ کوئی اور ہی ہوگا۔ مگر نہیں میری آنکھیں دھوکہ نہیں کھاسکتیں وہ شاہنواز ہی تھا مگر.... مگر یہ ملا کب سے بن گیا؟شاہد صاحب نے خودکلامی کی‘ سکول میں تو یہ بہت شریر تھا‘ ہر وقت لڑتا رہتا‘ پڑھنے لکھنے کا شوق تو اسے سرے سے ہی نہ تھا‘ اپنی شرارتوں اور بے وقوفیوں کی بنا پر آئے دن استادوں سے پیٹتا۔ یہ خیال آتے ہی اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔
انہوں نے شاہنواز کو روکنے کیلئے اپنی گاڑی اس کی سائیکل کے آگے آکر روک دی اور جلدی سے گاڑی سے اتر کر اس کے استقبال کیلئے کھڑے ہوگئے‘ اس وقت بارش میں تیزی آچکی تھی۔ شاہد صاحب جلدی سے آگے بڑھتے ہوئے شاہنواز کو سلام کرتے ہوئے بولے! اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو تم یقینا شاہنواز ہو؟جی! جی ہاں! میں شاہنواز ہوں مگر آپ “ شاہد صاحب نے شاہنواز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ارے بھلکڑ مجھے پہچانا نہیں‘ میں تمہارا دوست اور کلاس فیلو شاہد ہوں۔
تو‘ تو تم شاہد‘ شاہنواز نے شاہد کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا شاہنواز ! بھی شاہد نے خفا ہونے کے انداز میں سوال کیاکیا تم دوستی کے اس مقدس رشتے کو تم اتنی جلدی بھول گئے ہو‘ ۔ شاہد میرے دوست‘ تم کیسے ہو خیریت سے تو ہوتم۔ یہ کہتے ہوئے دونوں دوست گرمجوشی سے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے اپنے دوست شاہنواز سے مل کر انہیں بہت تسکین ہوئی۔
بھئی! تم تو پہچان بھی نہیں رہے تھے یا بھول گئے تھے کیا؟ نہیں دوست بھولا تو نہیں ہوں مگر دیکھو نا کہ ہم دونوں میں کتنی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ شاہنواز نے وضاحت کی۔ ہاں مجھے تمہارے کراچی منتقل ہونے کا افسوس تو بہت ہوا تھا مگر اب سناو کہ اب تو مستقل یہیں رہو گے نا‘ شاہنواز نے دکھی انداز میں سوال کیا۔ہاں اب تو مستقل یہیں رہنے آیا ہوں۔ اس نوکری اور تبدیلیوں تو مجھ سے تمام عزیز رشتے داروں کی محبت اور شفقت چھین لی‘ آج تمہیں دیکھ کر اتنی خوشی و مسرت ہوئی کہ بیان نہیں کرسکتا مگر بھئی تم مولانا اور مولوی کب سے بن گئے ہو؟ شاہد صاحب نے ڈاڑھی‘ ٹوپی اور سفید لباس کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا؟میرے دوست یہ سب اللہ کی کرم نوازی ہے اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اندھیروں سے نکال کر اجالوں میں بھیجا‘ شاہنواز نے مختصر ساجواب دیا۔
مگر بھئی! تم تو اپنے وقت کے اچھے کھلاڑی‘ ڈانسر اور ہیرو رہ چکے ہو‘ یہ تبدیلی اور تم میں یقین نہیں آتا‘ کیا ساری باتیں یہیں کروگے گھر نہیں چلو گے۔ امی تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہونگی۔ شاہنواز نے بات ختم کرتے ہوئے انہیں گھر چلنے کو کہا۔گھر تو ضرور چلوں گا مگر آج دفتر میں پہلا دن ہے وہاں سے واپسی پر گھر ضرور آونگا۔ اور پھر دونوں دوست ایک دوسرے سے گرمجوشی سے ملے اور پھر سے اپنی اپنی منزل کی جانب بڑھ گئے۔
رات ساڑھے سات بجے کے قریب ہی شاہد کی گاڑی شاہنواز کے گھر کے پاس آکر رکی۔شاہنواز شاہد کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ دونوں نے ڈھیر ساری باتیں کیں اور ساتھ ہی کھانا بھی کھایا۔ چائے کی گرم گرم چسکی لینے کے بعد شاہد صاحب نے دل میں اچھلنے والے سوال کو پھر سے دھرایا شاہنواز نے ایک لمبا سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔
تمہیں تو معلوم تھا کہ بچپن سے ہی مجھے ڈانس کرنے کا کتنا شوق تھا اسی شوق کی وجہ سے بارہا مجھے دوستوں میں عزت اور گھر میں ذلت کا منہ دیکھنا پڑا ۔ تمام عزیز و اقارب مجھ سے ناراض تھے میرے چھوٹے بہن بھائی میرے نقش قدم پر چلنے لگے۔ میں دوسرے‘ تیسرے روز دوستوں کیساتھ پروگراموں میں جاتا اور اپنی خدمات پیش کرتا اور انتہائی خوش ہوتا رات کو دیر سے سوتا اور صبح دیر سے جاگتا۔ میرے ساتھ ہی کلاس میں نیک سیرت لڑکا نوید بھی پڑھتا تھا‘ وہ انتہائی ملن سار اور عبادت گزار تھا۔ خود نماز پڑھتا اور ہر لڑکے کو نماز پڑھنے کی تلقین کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ ہر لڑکا اس کی بہت عزت کرتا۔ایک روز وہ مجھے سیرت کے ایک پروگرام میں لے گیا وہاں موجود علماءکرام نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر روشنی ڈالی کہ خوف خدا سے میرا وجود لرز کر رہ گیا اپنے کردار کی بدولت مجھے خود سے نفرت سی ہوگئی تھی علماءکرام کے ہر جملے میں نصیحت اور عبرت پنہاں تھی‘ اسی دن سے میں نے خدا سے اپنے گزشتہ گناہوں کی توبہ مانگی اور نیک کاموں میں خوب حصہ لینے لگا۔ پہلے میں ہر وقت کچھ پریشان رہتا تھا انجانی سی فکر‘ ہروقت دل و دماغ پر غالب رہتی تھی مگر اب میری علم سے محبت بڑھ گئی ہے اب میری خواہش ہوتی ہے کہ ایسے کاموں سے بچوں کہ جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے میری اس تبدیلی سے والدین اور عزیزواقارب میں میری عزت بڑھ گئی ہے پہلے میں نے خود قرآن پاک پڑھا اور اب بچوں کو پڑھا رہا ہوں مجھے خداوند کریم کی ذات سے امید ہے کہ وہ مجھے روز قیامت کے دن ضرور معاف فرمادیگا۔ انشاءاللہ خدا تم پر ضرور کرم فرمائے گا۔ شاہنواز کی دلسوز باتوں نے شاہد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا چند ہی لمحوں بعد عشاءکی اذان شروع ہوگئی۔ شاہنواز فوراً اٹھا اور بولا شاہد تم بیٹھو میں ابھی نماز پڑھ کر آیا۔کیوں! بھئی شاہنواز! ہمیں بھی اپنے ساتھ اللہ کے در پر نہیں لے چلو گے؟ کیوں نہیں دوست‘ یہ کہتے ہوئے شاہد صاحب گرمجوشی سے اٹھے اور جلدی جلدی مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 816
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں