ایک کہاوت ہے کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں مگر ان کا ملاپ زمین پر ہوتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شادی موتی چور کا لڈو ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔
دوران حج مولانا مجیب صاحب نے ایک سبق آموز واقعہ سنایا اس وقعے میں یقینا ایک سبق موجود ہے۔
ایک شخص کے گھر والوں نے اپنی پسند کی شادی کی وہ آدمی اس رشتے پر خوش نہیں تھا۔ پہلے دن سے ہی اس نے اپنی بیوی کو بیوی نہیں سمجھا‘ بلکہ صرف اسے اپنی نوکرانی سمجھتا تھا‘ کبھی اس نے اپنی بیوی سے ہنسی مذاق نہیں کیا‘ بس ہر وقت وہ اسے صرف رعب کے ساتھ کام بتادیتا اور بیوی بھی ایسی صابر تھی کہ حکم سنتے ہی اس کام میں لگ جاتی تھی اور صبر کرکے اپنے خدمت کے کاموں میں لگے رہنا اس کا شیوا تھا‘ بیوی کا ظالم خاوند تھوڑی سی غلطی اور کوتاہی پراسے بہت مارتا اور پیٹتا تھا۔ بیوی کو بالکل یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ کبھی کوئی بات اس سے پوچھ سکے۔ آخر کار شوہر نے سوچا کہ کیوں نہ اس سے ہمیشہ کیلئے جان چھڑالی جائے اب وہ اپنی وفاداربیوی کی موت کےلئے اپنے دوستوں کے پاس جا کر اس کو مارنے کی طرح طرح کی ترکیبیں دریافت کرنے لگا۔ آخر ایک ترکیب پر اتفاق رائے ہواکہ مٹھائی بنوائی جائے اور اس میں زہر ملا کر بیوی کو کھلا دیا جائے اس طرح اس کا کام تمام ہو جائے گا۔ خاوندبیوی کے پاس وہ زہر آلود مٹھائی لایا اور بڑی محبت سے کہنے لگا اسے کھا لو۔ بیوی اس کی زندگی میں پہلی دفعہ اتنی محبت دیکھ کر بہت خوش اور حیرت زدہ ہوئی اور اسے یہ بھی یقین ہوگیا تھا کہ اس مٹھائی میں زہر ہے‘خاوند نے کہا اسے کھا لو‘ بیوی نے تین دفعہ پوچھا کھالوں‘ اس ظالم نے بھی تینوں دفعہ یہی کہا کہ کھالو ‘اس بیمثال اطاعت شعار بیوی نے اس زہر آلود مٹھائی کو خاوند کا حکم سمجھ کر کھالیا۔
خیر وہ ظالم خاوند باہر چلا گیااوردوستوں کے ساتھ جاکر بیوی کی موت کی خوشی کے جشن منانے لگا اور اس کی موت کی خبر کے سننے کا انتظار کرنے لگا کہ ابھی اس کی موت کی خبر آئیگی‘ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا اوراندر اندر خوش بھی تھا‘ اتنے میں ایک آدمی بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ جلدی گھر چلو تمہاری بیوی کی آخری سانسیں ہیں اور وہ بار بار تمہارا نام لے رہی ہے ‘جب یہ ظالم خاوندگھر پہنچا تو بیوی سامنے پڑی تھی منہ سے جھاگ بہہ رہی زندگی موت کی جنگ لڑ رہی تھی‘ جب یہ قریب گیا تو بیوی جس میں اٹھنے کی سکت تک نہیں تھی اٹھی اور اس کے پاوں میں پڑکر گڑ گڑاکر کہنے لگی کہ مجھے معاف کردینا کہ میں آپ کے قابل نہ بن سکی۔ قصور سارا میرا ہے میں آپ کی خدمت بھی نہ کرسکی اور اس کی طرف ٹکر ٹکر حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی‘اس کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ اس کی یہ تابعداری‘ فرمانبرداری اور سچی محبت اور خلوص کو دیکھ کر اس آدمی کی آنکھیں کھل گئیں‘ بس جیسے ہی اللہ نے اس کے دل کی آنکھیں کھولیں وہ جلدی سے اپنی بیوی کو لے کر ہسپتال کی طرف بھاگا۔ ڈاکٹر نے جلدی سے اس نیک دل خاتون کا معدہ واش کیا‘ سارا زہر نکالا اور وہ آدمی بھی اللہ کے سامنے گڑگڑایا اور اپنی کوتاہیوں پر اللہ کے حضور معافی مانگی‘اللہ کاکرم ہوا اس کی بیوی بچ گئی ۔وہ اپنی بیوی کو بڑے اعزازو اکرام کے ساتھ گھر لے آیا۔ دن بدلے بیوی کا صبر رنگ لایا‘اب وہی خاوند جو دوسروں کے سامنے اسکی بے عزتی اورنوکرانیوں والا سلوک کرتا تھا نہایت اکرام واعزاز کرنے لگا۔ پہلے ان کے گھر جو بھی لوگ آتے تھے وہ ان کے سامنے بیوی کو نوکرانی کہتا تھا۔اب وہی آکر اسے پوچھتے کہ تیری نوکرانی کہاں ہے؟ تووہ کہتا ہے وہ سامنے میرے گھر کی ملکہ بیٹھی ہے اب میری زندگی بہت پرسکون ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 796
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں