چھناک سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی اور عروج کا دل سہم گیا۔ گویا آج بھی دن کی ابتدا لڑائی سے ہوگی۔ امی غصے میں بول رہی تھیں اور ابو کا ہاتھ ان کے گالوں پر نشان چھوڑ چکا تھا اور جب ان کے ہاتھ تھک گئے تو وہ ٹھڈے مارنے لگے۔ امی ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں بددعائیں دے رہیں تھیں۔ ایک پل کیلئے تو عروج کے دل سے دعا نکلی کہ کاش! امی کی بددعا قبول ہو جائے۔ یہ تو معمول کی بات تھی، عروج نے آنکھ کھلتے ہی اپنے ماں باپ کو لڑتے جھگڑتے ہی دیکھا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ وہ اپنے جھگڑوں میں اس حد تک مگن رہتے کہ اپنی اکلوتی اولاد کو بھول ہی چکے تھے جو دن بدن نہ صرف جسمانی طور پر کمزور ہوتی جارہی تھی بلکہ نفسیاتی امراض کا بھی شکار ہو گئی تھی۔ نیند میں بولنا اور چلنا تو معمول کی بات تھی‘ کبھی کبھی تو آدھی رات کو چیخنے لگتی جبکہ دن اداسیوں کی نذر ہو جاتا تھا۔
یہ صرف عروج کی کہانی نہیں ہے بلکہ آج کے معاشرے کا ایک گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ آج کی نوجوان نسل نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہی ہے۔ تعلیم کے میدان میں قابل ذکر کارنامے انجام دینے سے قاصر ہے تو اس کی وجہ ان کی تربیت میں کمی ہے کیونکہ تربیت کرنے والے آپس کے جھگڑوں میں اس حد تک الجھے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی اولاد سے بے پروا ہو گئے ہیں۔
وہ اولاد جن سے وہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گی جو والدین کیلئے قابل فخر ہو گی۔ والدین کا قرض صرف تین وقت کا کھانا کھلا دینا ہی نہیں‘ بلکہ ان کی ذہنی اور جسمانی تربیت بھی ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ بچہ جب گھر سے نکلتا ہے تو اسے لاتعداد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ تب والدین کو چاہیے کہ وہ بچے سے اپنا رویہ اس طرح رکھیں کہ وہ اپنی ہر مشکل اپنے والدین کو بتا سکے اور والدین کے مشوروں کی روشنی میں زندگی کی عمارت مضبوط بنا سکے اور اگر یہی والدین اپنے آپس کے جھگڑوں میں مصروف رہیں گے اور اپنی اولاد کو بھول جائیں تو وہ جسمانی اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماں باپ کے جھگڑے اولاد پر بہت برا اثر ڈالتے ہیں اور اگر والدین کی علیحدگی ہو تو اس کا بھی اثر سب سے زیادہ بچے پر پڑتا ہے۔
ماں باپ کے جھگڑے کی وجوہات اور بچوں پر اس کے اثرات جاننے کیلئے والدین اور بچوں سے چند سوالات کیے گئے جو درج ذیل ہیں۔
مسز عائشہ احمد کے مطابق لڑائی کی وجہ معاشی پرابلمز ہیں‘ میرے شوہر کی تنخواہ اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن وہ اس تنخواہ کا بھی ایک بڑا حصہ اپنی والدہ کو دیتے ہیں جبکہ وہ اکیلی ہیں۔ کھانا پینا تو ہمارے ساتھ ہی ہے مگر پیسے جوڑ کر اپنی بیٹیوں کیلئے چیزیں بناتی ہیں جبکہ میرے تین بچے اور میں اتنی قلیل آمدنی میں اپنے خاندان کے اخراجات پورے نہیں کر سکتی۔ بچوں کی اسکول کی فیسیں بھی بہت زیادہ ہیں۔ بجلی، پانی، گیس اور ٹیلی فون کے بل اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ راشن ڈالنے کیلئے بہت کم پیسے بچتے ہیں۔ اس بات کا گلہ اپنے شوہر سے کرتی ہوں تو وہ الٹا مجھ سے ہی لڑتے ہیں کہ میں فضول خرچ ہوں۔ پیسے اپنے میکے والوں پر خرچ کرتی ہوں۔ اس روز روز کی لڑائی نے تو مجھے اعصابی طور پر بے بس کر دیا ہے۔ والدین کے جھگڑے کے دوران ان کی اولاد پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اس سوال کے جواب کیلئے مسز عائشہ احمد کی 14 سالہ بیٹی خدیجہ نے کہا کہ امی ابو کے جھگڑے کے بعد دونوں کا غصہ ہم پر نکلتا ہے۔ خاص طور پر امی تو ہم سے بھی ناراض ہو جاتی ہیں جبکہ دادی الگ غصے میں بھری ہوتی ہیں۔ اس وقت ہمیں بہت تنہائی کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارا کھانا کھانے کو جی نہیں چاہتا۔
مسز تبسم کے مطابق لڑائی کی وجہ مشترکہ خاندانی نظام ہے۔ میرے شوہر اپنے والدین سے بہت ڈرتے ہیں حالانکہ ہمارا سہارا سب سے بڑا بیٹا مقامی کالج میں ایف اے کا طالب علم ہے۔ میری ساس کو یہی لگتا ہے کہ میں ان پر تعویز کراتی ہوں۔ وہ اکثر میرے میکے والوں کیلئے نازیبا الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ میرے شوہر کے گھر آتے ہی شکایات کا دفتر کھل جاتا ہے۔ کبھی میری اولاد پر الزام لگائے جاتے ہیں اور کبھی مجھ پر‘ میرے سسر تو میری بیٹی جو دسویں جماعت کی طالبہ ہے اس پر ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں لیکن میرے شوہر ہر بات میں مجھ کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ اس بات پر ہمارا جھگڑا ہو جاتا ہے۔ مسز تبسم کے بڑے بیٹے عبداللہ نے کہا کہ جب ڈیڈی اور ماما کا جھگڑا ہوتا ہے تو ہمیں ڈیڈی پر بہت غصہ آتا ہے۔ ڈیڈی کے گھر آتے ہی گھر کا سکون برباد ہو جاتا ہے۔ ڈیڈی بلاوجہ ہی ماما پر ہاتھ اٹھاتے ہیں اس وقت میرا جی چاہتا ہے کہ میں ڈیڈی کو ایسا کرنے سے روک دوں لیکن مجھے ان سے بہت ڈر لگتا ہے۔ جب میں اپنے دوستوں میںبیٹھتا ہوں تو میرا ہنسنے بولنے کو جی نہیں چاہتا۔ تب سب لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ گھر آﺅں تو ایک نیا محاذ کھلا ہوتا ہے۔ اس وقت میرا جی سگریٹ پینے کو چاہتا ہے جو کبھی کبھار میں ممی ڈیڈی سے چھپ کر پیتا ہوں۔
مسز رابعہ فاروق کے شوہر ان پر بے جا شک کرتے ہیں ان کے مطابق اگر کبھی مجھے گھر آنے میں دیر ہو جائے تو کیسے الزام لگاتے ہیں جبکہ گھر کی ساری ذمہ داری میرے سر پر ہے۔ وہ خود تو پیسے دیکر بری الذمہ ہو جاتے ہیں لیکن گھر کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے مجھے بازار جانا پڑتا ہے اور اگر بازار جاﺅں تو وہ مجھ پر شک کرتے ہیں کہ پتہ نہیں میں کہاں گئی تھی؟ کھانے میں نمک کم یا تیز ہو جائے تو لڑائی شروع کردیتے ہیں اور لڑائی کی تان مجھ پر الزام لگا کر ٹوٹتی ہے کہ میرا کردار ٹھیک نہیں ہے‘ میں بازاروں میں پھرنے کی شوقین ہوں۔ مسز رابعہ کی بیٹی کرن جو بی اے کی طالبہ ہیں وہ اس صورتحال سے گھبرا جاتی ہیں۔ کرن کے مطابق امی ابو اتنا جھگڑتے ہیں اور جھگڑے کے دوران ابو طلاق کی دھمکی دیتے ہیں جبکہ امی گھر چھوڑنے پر تیار نظر آتی ہیں۔ دونوں ہمارا نہیں سوچتے‘ اکثر لڑائی کے دوران امی ہمیں لے کر اپنے میکے چلی جاتی ہیں۔ وہاں سب ابو کو برا بھلا کہتے ہیں اور ہم سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتے جبکہ اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ کالج سے چھٹیاں کرنی پڑتی ہیں۔ تو پڑھائی بھی ٹھیک نہیں ہوتی ہے۔ کالج میں ٹیچر ڈانٹتی ہیں۔ گھر میں امی ابو لڑتے ہیں آخر ہم لوگ کہاں جائیں؟ کس کو کہیں کہ ہمیں دونوں کی ضرورت ہے۔ کاش میرے والدین کبھی نہ لڑیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 793
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں