خوش قسمتی سے ان کا ایک چار سالہ بیٹا تھا اس نے ایک دن فرمائش کردی کہ اسے لکڑی کی کشتی بنا کر دی جائے موصوف پریشان بیٹھے تھے انکار کردیا۔ مگر بچہ ضدی تھا تین گھنٹے کی ضد کے بعد کشتی بنوا کر ٹلا۔ مگر یہ کیا....؟
مرکز تعلیم بالغاں کے ایک شاگرد کی سچی داستان پیش خدمت ہے۔ اس کی پانچ سالہ خوبصورت بچی فوت ہوئی تو میاں بیوی کی دنیا اندھیر ہوگئی‘ تفکرات نے انہیں آن پکڑا لیکن بہت جلد انہیں معلوم ہوگیا کہ قدرت انہیں ایک اور بچے سے نوازنا چاہتی ہے۔ دس ماہ کے اندر دوسری بچی پیدا ہوئی لیکن پانچ روز کی ہوکر وہ بھی خالق لایزال کے ہاں چل بسی‘ اب کی بار وہ تفکرات کے اتنے گہرے گڑھے میں گرے کہ بھوک تک ختم ہوگئی۔ راتوں کی نیند اڑ گئی‘ دل کی دھڑکن تیز ہوگئی‘پریشانیوں‘مایوسیوں نے ان کے ہاں ڈیرہ ڈال لیا‘الغرض نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ انہیں ہر چیز سے نفرت ہوگئی۔ تمام نفسیاتی ڈاکٹرز ان کے اس روگ کا کامیاب علاج نہ کرسکے۔
خوش قسمتی سے ان کا ایک چار سالہ بیٹا تھا‘ اس نے ایک دن فرمائش کردی کہ اسے لکڑی کی کشتی بنا کر دی جائے‘ موصوف پریشان بیٹھے تھے‘پریشانی کی حالت میں انہوں نے کشتی بنانے سے انکار کردیا مگر بچہ ضدی تھا ‘تین گھنٹے کی مسلسل ضد کے بعد آخر بچے نے باپ سے کشتی بنوا کر ہی دم لیا۔ مگر یہ کیا....؟
موصوف نے تھکاوٹ‘ پژمردگی اور بدحالی کے بجائے اپنے آپ کو ہلکا اور مطمئن محسوس کیا۔ انہوں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ جو اوقات انہوں نے کام میں خرچ کیے وہ اوقات غم کو ان کے دماغ سے نکال کر لے گئے۔
انہوں نے اپنے گھر کی ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی فہرست بنائی جو مرمت طلب تھے ان چیزوں کی تعداد 246 تھی۔ دو ماہ تک وہ خود ان تمام چیزوں کی مرمت کرتے رہے۔
کیسا غم اور کیسی پریشانی؟ کہاں گئی وہ گہرے انجانے تفکرات کی دنیا اورمایوسیوں کی اندھیری گھٹا ٹوپ داستان؟ خیراب وہ ایک نئے انسان تھے۔ دو ماہ بعد انہوں نے اپنی مصروفیات کی ایک طویل فہرست بناڈالی جن میں مرکز تعلیم بالغاں کے کورس بھی شامل تھے۔
ہر کوئی اپنی روزمرہ زندگی میں کچھ دیر کیلئے ضرور ٹینشن کا شکار ہوتا ہے مگر یہ ٹینشن مختصر وقت کیلئے ہوتی ہے اور گوناخوشگوار ہوتی ہے مگر اپنے پیچھے کوئی ناخوشگوار اثرات نہیں چھوڑتی مگر جب یہ مسلسل مشکل اختیار کرے اور انسانی شخصیت کا لازمی حصہ بن جائے تو یہ انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر مضراثرات ڈالنا شروع کردیتی ہے۔
یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا چیز آپ میں ٹینشن پیدا کررہی اور کیا چیز آپ کی پریشانی کا باعث ہے کیا آپ گھریلو مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں یا مالی مسائل آپ کی الجھن کا باعث ہیں کیا آپ پر کوئی ایسی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے جو آپ کی قوت سے باہر ہو یا کام کی زیادتی آپ کو ٹینشن میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ اپنے مسائل ان لوگوں سے بیان کریں جن پر آپ کو اعتماد ہے۔
مشہور وزیراعظم مسٹرچرچل اور سلف اسٹارٹ انجن کے موجد کیٹرنگ بہت مصروف انسان تھے۔ دونوں سے علیحدہ علیحدہ سوال کیا گیا کہ وہ اس مصروفیت کی وجہ سے پریشان تو نہیں ہوتے۔ دونوں کا جواب تھا ”ہمارے پاس پریشان ہونے کیلئے وقت ہی نہیں“ ریسرچ سکالروں کا قول ہے کہ انہیں لیبارٹری میں سکون ملتا ہے حالانکہ وہاں دن رات مسلسل کام ہوتا ہے۔
جنگ عظیم کے بعد جب فوجی واپس اپنے وطن پہنچے تو وہ دماغی طور پر پریشانی اور اضطراب کا مرقع تھے۔ ان میں اکثر راتوں کو چنگھاڑتے اور بعض دن کے وقت بڑی عجیب وغریب حرکات کرتے‘ کبھی غم میں ڈوب جاتے اور کبھی کچھ بڑبڑا کر اچانک جاگ اٹھتے ‘وہ جن ڈاکٹروں کے زیرعلاج رکھے گئے ان کا کہنا تھا کہ ادویات نے انہیں اتنا فائدہ نہیں دیا جتنافائدہ انہیں مصروف زندگی نے دیا۔ ایسے مریضوں کو مچھلیاں پکڑنے‘ فٹبال اور گالف کھیلنے‘ کشتی رانی کرنے‘ باغبانی اور اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مشغلوں میں مصروف رکھا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ بہت جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ علاج بذریعہ مصروفیت قدیم یونانیوں کی اصطلاح ہے۔
بن فریکن کے دور میں نیم حکیموں نے انہیں ایک ابتدائی سا ذہنی شفاخانہ کا معائنہ کرایا۔ تو انہوں نے دیکھا کہ مریضوں سے سن کی رسی بٹنے کا کام لیا جارہا تھا۔ صاحب کا پہلا جملہ یہی تھا کہ”ان بے چاروں سے کام نہ لو“ لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ جن مریضوں کو مصروف رکھا جائے وہی مطمئن اورذہنی آلائشوں سے محفوظ رہتے ہیں تو وہ بات کی تہہ تک پہنچ گئے اورفورا اپنا جملہ واپس لے لیا۔
ایک میاں بیوی کا جوان لڑکا پرل ہاربر کی تباہی سے ایک دن بیشتر فوج میں بھرتی ہوا تھا۔ اس واقعہ نے خاتون مذکورہ کی نیند اڑا دی۔ انہیں اپنے لڑکے کا غم کھائے جاتا تھا۔ وہ کہاں ہوگا؟ کیاکام کررہا ہوگا؟ کس حالت میں ہو گا؟ کیا اس پر بم برس رہے ہوں گے؟ وہ کون سی تکالیف سے دوچار ہوگا؟اس طرح کے بہت سے تفکرات نے اسے گھیر رکھا تھااور ان بے جا تفکرات اور سوچوں کی وجہ اس کے تمام معمولات زندگی معطل ہو کر رہ گئے تھے۔
آخر انہوں نے اپنے غم کوہلکااور کم کرنے کیلئے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کا آغاز کیا۔ گھر کی نوکرانی کو جواب دے دیا۔ سارا کام اپنے ہاتھوں سے کرنے لگیں۔ لیکن اس سے چنداں فرق نہ پڑا۔ انہوں نے ایک سٹور کے سیلز ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت شروع کرلی۔سٹور کے جس حصے میںیہ خاتون مصروف عمل ہوئیں وہ سٹورکا مصروف ترین حصہ تھا۔
وہ سارا دن سودا سلف فروخت کرتیں‘ گھر پہنچتیں تو اس قدر تھک چکی ہوتیں کہ سیدھی جاکر بستر پر لیٹ جاتیں اور نیند کی آغوش میں چلی جاتیں کیسا غم اور کیسی پریشانی‘ کیسے تفکرات‘اب اس خاتون کو ان بے جا تفکرات کے لئے وقت ہی نہ تھا۔ لہٰذا وہ چاق و چوبند رہنے لگیں۔
جارج برنارڈ شا کا قول ہے کہ ذہنی شکستگی اور بددلی محض اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ میں خوش ہوں یاغمگین۔ اٹھیے! کمرہمت باندھئے‘ کچھ کیجئے‘ اور مصروف رہیے۔
پریشان آدمی کو کام میں مصروف رہنا چاہیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں